دعا سے فراغت کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا

فھرست

سوال(9- 55): دعاء میں کئی مقام پر ہاتھ اٹھانا مسنون ہے، مگر دعا سے فراغت کے بعد انھیں چہرے پر پھیرنا چاہئے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے اور بہت سے علماء اس سلسلہ کی تمام حدیثوں کو ضعیف قرار دیکر اس سے منع فرماتے ہیں آپ کے نزدیک اس سلسلہ میں راجح کیا ہے؟

جواب: میرے نزدیک دعا سے فراغت کے بعد دعاکے لئے اٹھائے گئے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا جائز ہے، کیونکہ اگرچہ اس سلسلے کی وارد حدیثوں پر کلام ہے، مگر مجموعی طور سے وہ درجہ حسن تک پہونچ جاتی ہیں اور قابل استدلال ہیں۔

          مولانا بدر الزماں نیپالی اپنی کتاب(دعائیں:ص٢٧) میں فرماتے ہیں:

 ”دعا مانگنے کے بعد ہاتھ کا چہرہ پر پھیرنا درست ہے، گو اس سلسلے کی وارد حدیثیں بعض ضعیف اور بعض نہایت ضعیف ہیں([1])، کیونکہ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ترمذی([2])اور ابو داود([3]) وغیرہ میں وارد حدیثوں کو باہم ملا کراسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے([4])، اور امالی میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث بے بنیاد نہیں ہے، اور اس کا ثبوت حسن بصری سے بھی ہے، اور الادب المفرد میں وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ :

          ” میں نے ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ دعا کرتے تو اپنی ہتھیلیاں اپنے چہروں پر پھیرتے([5])

  یہ حدیث موقوفا صحیح ہے، ان سب روایات سے معلوم ہوا کہ دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کو بدعت کہنا غلط ہے۔([6])واللہ اعلم بالصواب.

کتاب العقیدہ

([1]) ارواء الغليل:2/178-182.

([2]) سنن الترمذي:4/227[3386]كتاب الدعوات، باب ما جاء في رفع الأيدي عند الدعاء، وقال الألباني: ضعيف.

([3]) سنن ابي داود:1/553[1492]كتاب الوتر، باب الدعاء، وقال الألباني:ضعيف.

([4]) بلوغ المرام مع السبل:4/219.

([5]) الأدب المفرد: ص: 315[٦٠٩] باب رفع الأيدي في الدعاء، وقال الألباني: ضعيف.

([6]) الأمالي بحواله حاشية العلل المتناهية: 2/357.

کتاب العقیدہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top