کتاب الطہارۃ
💠 باب المیاہ(پانی کے مسائل) 💠 باب خصائل الفطرۃ (فطری خصلتوں کے مسائل) 💠 باب الوضو(وضو کے مسائل) 💠 باب الغسل( غسل کے مسائل) 💠 باب التیمم(تیمم کے مسائل) 💠 باب الحیض والنفاس(حیض و نفاس کے مسائل) 💠 باب النجاسات وازالتھا( نجاستوں اور ان کے ازالہ کا بیان) |
باب المیاہ (پانی کے مسائل)
پانی کے برتن میں بغیر دھلے ہاتھ ڈالنے کا حکم
سوال(1- 188): اگر کسی برتن میں پانی ہے اور اس میں ہاتھ ڈالنا ہو، خواہ وضو کے لئے یا کسی اور کام کے لئے تو اس میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کیا ہاتھ کا دھونا ضروری ہے؟
جواب: اگر آدمی سوکر اٹھا ہے یا اسے کسی بناء پر اپنے ہاتھ کی طہارت کے بارے میں شک ہے تو پھر اسے ہاتھ کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھولینا چاہئے، حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلاَ يَغْمِسْ يَدَهُ فِى الإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلاَثًا، فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِى أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ“(متفق عليه([1]))
جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنے ہاتھ کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے تین مرتبہ دھو لے ،کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں (سوتے وقت) اس کا ہاتھ کہاں کہاں گیا ہے۔
یہاں ارشاد نبوی :”کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ سوتے وقت اس کا ہاتھ کہاں کہاں گیا ہے“ کا مطلب ہے کہ سونے کی وجہ سے احتمال ہے کہ اس کا ہاتھ شرمگاہ وغیرہ پر گیا ہو اور اس کی طہارت مشکوک ہوگئی ہو، اس واسطے اسے بغیر دھوئے پانی میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
اور اگر ہاتھ میں گندگی اور نجاست لگنے کا شبہ تو نہیں ہے مگر پسینہ اورمیل کچیل لگی ہوتو بھی دھونے کے بعد ہی ڈالنا بہتر ہے، کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا تو لوگ اسے پینے میں کراہت محسوس کریں گے اور اس سے انتفاع کم ہو جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ بغیر دھوئے ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈالنے سے ہاتھ میں چپکے ہوئے بعض جراثیم پانی میں چلے جائیں اور استعمال کرنے والے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں۔
گائے و بھینس کے جوٹھے پانی کا حکم
سوال: (2- 189) اگر پانی کے برتن میں گائے یا بھینس منھ ڈال دے تو کیا پانی ناپاک ہوجاتا ہے ؟کیا اسے کپڑے وغیرہ دھونے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب: گائے ،بھینس،بکری اور ایسے تمام جانور جن کا گوشت حلال ہے ان کا جوٹھا بھی پاک ہے ،اس واسطے اُس پانی کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جس میں گائے یا بھینس نے منھ ڈال دیا ہو ، امام ابن المنذر رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
”أجْمَعَ أهْلُ العِلْمِ عَلَى أنَّ سُؤرَ مَا أُكِلَ لَحْمُهُ يَجُوْزُ شُرْبُهُ وُالوَضُوءُ بِهِ“([2])
اہل علم کا اجماع ہے کہ ماکول اللحم کے جوٹھے سے وضو کرنا اور اس کا پینا جائز ہے۔
کتے ، بلی کے جوٹھے کا حکم
سوال: (3- 190) کتے اور بلی کے جوٹھے کاکیا حکم ہے؟
جواب:کتے کا جوٹھا ناپاک ہے، اس واسطے اگر کسی کھانے پینے کے برتن میں وہ منھ ڈال دے تو اس میں کھانے پینے کی جو بھی چیز ہو اسے پھینک دیں اور برتن کو سات مرتبہ دھوئیں، جس میں سے پہلی مرتبہ اسے مٹی سے دھوئیں،حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”طُهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولاَهُنَّ بِالتُّرَابِ“ (متفق عليه([3]))
تم میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منھ ڈال دے تو اس کی پاکی کی صورت یہ ہے کہ اسے سات مرتبہ دھوئے، اور ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے۔
البتہ بلی کا جوٹھا پاک ہے ،کیونکہ حضرت کبشہ بنت کعب رضي الله عنها جو حضرت ابوقتادہ رضي الله عنه کی زوجیت میں تھیں فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ابو قتادہ رضي الله عنه کے لئے پانی انڈیل کر دیا تو ایک بلی آکر اس میں سے پینے لگی، حضرت ابوقتادہ رضي الله عنه نے برتن ٹیڑھا کر دیا تاکہ وہ آسانی سے پی لے، پھر انھوں نے مجھے تعجب کرتے ہوئے دیکھا تو کہا :کیا تمہیں تعجب ہے؟ میں نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
”إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ “(رواه الخمسة([4]) وقال الترمذي:حديث حسن صحيح، وصححه البخاري وغيره)
یہ ناپاک نہیں ہے ،یہ تم لوگوں پر چکر لگانے والوں اور چکر لگانے والیوں میں سے ہے۔
زمزم کے پانی سے وضو اور غسل کرنے کا حکم
سوال(4- 191): حجاج کرام جب حج کرنے جاتے ہیں تو ان میں سے بہت سے لوگ زمزم کے پانی سے وضو اور غسل کرتے ہیں ،ان کا یہ عمل کیسا ہے ؟ کیا اس محترم پانی سے وضو اور غسل جائز ہے ؟
جواب: آب زمزم سے وضو اور غسل جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، حضرت علی رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈول زمزم منگایا ،پھر اس میں سے آپ نے کچھ نوش فرمایا اور وضو کیا ۔(رواه عبدالله بن أحمد في زوائد مسند ابيه:1/67، وصححه أحمدشاکر، وحسنه الألباني([5]))
باب خصال الفطرۃ (فطری خصلتوں کے مسائل)
ختنہ پر ایک غیر مسلم کا اعتراض اور اس کا جواب
سوال(5- 192): میرے بعض غیر مسلم ساتھی ختنہ پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں بدن کے ایک ایسے جزء کو کاٹ کر پھینک دینا لازم آتا ہے جسے ایشور نے بنایا ہے، اگر وہ فالتو ہوتا تو ایشور اسے کیوں بناتا؟ ان کے اعتراض کا کیا جواب ہے ؟ رہنمائی فرما کر مشکور ہوں ۔
جواب: آپ کے غیر مسلم ساتھیوں کا یہ اعتراض درست نہیں ہے ،ختنہ کرانے کے بڑے فوائد ہیں، اور اس کا حکم شریعت اسلامیہ نے اسی واسطے دیا ہے کہ اس میں بڑی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ، مثلاً:
1- اسلام میں اور طبی نقطۂ نظر سے بھی صفائی ستھرائی اور طہارت ونظافت کی بڑی اہمیت ہے ، چنانچہ ہر مسلمان کا بدن ، کپڑا اور جائے نماز وغیرہ پاک وصاف رہنا چاہئے ، اس کے بغیر نماز(جو روزانہ ہر مسلمان پر پانچ وقت فرض ہے) صحیح نہیں ہوتی ، اور سب کو معلوم ہے کہ پیشاب ایک ناپاک ،گندی اور بدبو دار چیز ہے ،اور ختنہ نہ کیا جائے تو پیشاب کرنے کے بعد ختنہ کی جگہ کو مکمل طور سے پاک و صاف کرنا بہت مشکل ہوتاہے ، جبکہ ختنہ کر کے اس چمڑے کو نکال دینے سے طہارت بہت آسان ہوجاتی ہے ، اس واسطے مسلمانوں کو ختنہ کرانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ان کا بدن اور کپڑا بالکل پاک صاف رہے۔
2- ختنہ نہ کرانے سے چمڑے کے اندر میل کچیل جم جاتی ہے، جس سے کھجلاہٹ پیدا ہوتی ہے اور بچے بستر پرپیشاب کردیتے ہیں، اور اگر ختنہ کرادیا جائے تو یہ شکایت ختم ہوجاتی ہے ۔
3- بعض مردوں کا وہ چمڑا جو ختنہ میں کاٹا جاتا ہے سخت ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہم بستری کے وقت حشفہ پورے طور سے نہیں پھیلتا اور منی کا خروج اس طرح سے کھل کر نہیں ہوتا جیسے ہونا چاہئے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بیوی کو استقرار حمل نہیں ہوتا، اور دونوں اولاد کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں ،اسی واسطے جب کسی جنسی امراض کے ماہر ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں تو اخیر میں وہ شوہر کو ختنہ کرانے کا مشورہ دیتا ہے ،اور اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ختنہ کرانے کے بعد باذن اللہ استقرار حمل ہوجاتا ہے۔
4- مختون مرد کے ساتھ ہم بستری سے عورت کو جو حظ حاصل ہوتا ہے وہ غیر مختون کے ساتھ ہم بستری سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ کبھی کبھی غیر مختون کو ہم بستری کے وقت ختنہ نہ کرانے کی وجہ سے کافی تکلیف و پریشانی ہوتی ہے ۔
بہر حال ختنہ کرانے کے بہت سارے فوائد ہیں، اسی واسطے شریعت اسلامیہ نے اس کا حکم دیا ہے ، اسلام سے قبل عرب اور بعض دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی انہی اسباب کی بنا پر ختنہ کرایا کرتے تھے ۔
رہا ان غیر مسلموں کا یہ کہنا کہ ایشور نے کوئی چیز فالتو نہیں بنائی ہے ،اس واسطے ختنہ نہیں کرانا چاہئے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ ایشور نے اس چمڑے کو بیکار اور فالتو بنایا ہے ،تو آپ ان سے پوچھئے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں میں اللہ نے ناخن بنایا ہے ،جب وہ بڑے ہوجاتے ہیں تو انھیں کیوں کاٹتے ہیں ؟کیا ایشور انھیں بیکار بڑاکرتا رہتا ہے ؟
اسی طرح سر، چہرہ اور بغل میں اور زیر ناف ایشور نے بال اگائے ہیں ،پھر بتائے کہ لوگ سر کے بال کیوں منڈاتے یا کٹواتے ہیں ؟کیا ایشور نے انھیں فالتو بنایا ہے ؟
اسی طرح دوسری جگہ کے بال کیوں صاف کرتے ہیں ،کیا ایشور نے انھیں بیکار بنایا ہے ؟اگر ان بالوں اور ناخنوں کے کاٹنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایشور نے انھیں فالتو بنایا ہے تو اسی طرح ختنہ کرانے سے بھی یہ لازم نہیں آتاکہ اس چمڑے کو ایشور نے فالتو بنایا ہے اور اس کی تخلیق کا عمل لغو ہے ، ورنہ سارے غیر مسلم حضرات کو چاہئے کہ سر اور داڑھی وغیرہ کے بال بنوانا اور ناخن تراشنا ترک کردیں۔
لڑکیوں کے ختنہ کا حکم
سوال(6- 193): لڑکیوں کے ختنہ کے سلسلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب: لڑکیوں کے ختنہ کا ثبوت ہے ،صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ختنہ کرنے والی ایک عورت سے فرمایا :
”اخْفِضِي، وَلَا تَنْهَكِي، فَإِنَّهُ أَنْضَرُ لِلْوَجْهِ، وَأَحْظَى عِنْدَ الزَّوْجِ “(رواه ابوداود([6]) والبزار([7])والطبراني([8]) وصححه الألباني في الصحيحة([9]))
یعنی ختنہ کرتے وقت ہلکا سا کاٹو، جڑ سے نہ ختم کردو، یہ چہرہ کو زیادہ بارونق بنانے اور شوہر کے لئے زیادہ لطف کا باعث ہے۔
عربوں میں آج بھی اس کا رواج ہے ،البتہ لڑکوں کے ختنہ کی طرح لڑکیوں کے ختنہ کی تاکید نہیں ہے ، اس واسطے نہ کرائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ،اور اگر کسی ضرورت ومصلحت کے تحت کرالیں تو بھی جائز ہے۔
کیاعورت عطر لگا سکتی ہے؟
سوال(7- 194): عورت عطر لگا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر لگا سکتی ہے تو کب ؟ اور نہیں لگا سکتی ہے تو کب؟اور کیوں ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ گھر میں ہو ،یا ایسے گھر میں ہو جہاں مرد نہ ہوں اور کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو تو ایسی صورت میں جو عطر چا ہے وہ استعمال کرسکتی ہے ، بلکہ شادی شدہ عورت کو اپنے شوہر کے پاس ہمیشہ صاف ستھری ، زیب و زینت کے ساتھ خوشبو وغیرہ لگا کر رہنا بہتر ہے، البتہ جب اسے باہر نکلنا ہویا وہ ایسے گھر میں ہو جس میں شوہر کے علاوہ دوسرے مرد وں سے بھی اختلا ط اور ملنا جلنا ہوتا ہو تو اسے خوشبو ( طیب ) سے اجتناب کرنا چاہئے ، البتہ زعفران جیسی چیزیں جن کی خوشبو بہت معمولی ہوتی ہے اور رنگ غالب ہوتا ہے ، استعمال کرسکتی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِقَوْمٍ لِيَجِدُوا رِيحَهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ“ (رواه ابوداود([10]) وأحمد([11]) والترمذي([12])والنسائي([13])وابن خزيمة([14])وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح، وسکت عنه ابوداود ونقل المنذري تصحيحه وأقرَّه)
یعنی جو عورت عطر لگا کر مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبومحسوس کریں تو وہ زانیہ ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت کو مردوں کے پاس سے نہ گزرناہو، اسی طرح ان کی مجلس میں نہ جانا ہو اور صرف اپنے شوہر کے پاس رہنا ہو یا وہ کسی ایسے گھر میں ہو جس میں کوئی مردنہیں تواس کے لئے خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
”طِيبُ الرِّجَالِ مَا ظَهَرَ رِيحُهُ وَخَفِيَ لَوْنُهُ، وَطِيبُ النِّسَاءِ مَا ظَهَرَ لَوْنُهُ وَخَفِيَ رِيحُهُ“ (رواه الترمذي([15]))
یعنی مردوں کے عطر میں خوشبو ظاہر اور رنگ مخفی ہونا چاہئے اور عورتوں کے عطر میں رنگ ظاہر اور خوشبو مخفی ہونی چاہئے ۔
علامہ مبارک پوری رحمة الله عليه نے تحفۃ الاحوذی میں مردوں کے عطر کے لئے بطور مثال مشک، عنبر، کافور ، اور عرق گلاب کو، اور عورتوں کے عطر کے لئے زعفران کو ذکر کیا ہے، پھر فرمایا :” شرح السنۃ میں ہے کہ سعد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ علماء نے”وَطِيبُ النِّسَاءِ …الخ“ کواس عطر پر محمول کیا ہے، جسے وہ جب باہر نکلنا چاہتی ہو تب استعمال کرے ، لیکن جب اسے اپنے شوہر کے پاس رہنا ہو تو جو عطر چا ہے وہ استعمال کرے۔ انتھی.
میں کہتا ہوں کہ اس کی تائید ابو موسیٰ اشعری رضي الله عنه کی سابقہ باب میں مذکور حدیث سے ہوتی ہے ۔“([16]) یعنی: ”أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ …الخ“ والی مذکورہ بالا حدیث سے ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے :
”إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ فَلاَ تَطَيَّبْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ“ (رواه مسلم([17]) )
اور ایک حدیث میں ہے :
”إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا“(رواه مسلم ايضا([18]))
امام نووی رحمة الله عليه اس کی شرح میں فرماتے ہیں :
” اس کا مطلب یہ ہے کہ جب عشاء میں عورت کاشرکت کا ارادہ ہو تو خوشبونہ لگائے ، لیکن وہ عورت جو (مسجد میں ) نماز پڑھ کر اپنے گھر واپس آگئی تو اسے اس کے بعد عطر لگانے میں کوئی ممانعت نہیں ۔
اسی طرح دوسری حدیث:
”إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا“سے مرادبھی ”جب مسجد جانا چاہے“ ہے “۔([19])
ان تمام روایات اور علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنے گھر میں جہاں صرف اس کا شوہر ہے ،یا جہاں صرف عورتیں ہیں اور فتنہ کا کوئی خو ف نہیں ، عطر اور خوشبو استعمال کرسکتی ہے، اور باہر نکلتے وقت یا ایسی جگہ جہاں دوسرے مردوں کے پاس اسے جانا یا ان کے پاس سے اس کو گزرنا پڑے اسے خوشبو کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے ، کیونکہ یہ مردوں کے اس کی جانب التفات اور پھر فتنہ کا سبب بن سکتا ہے ۔
البتہ زعفران وغیرہ جس میں خوشبو نہیں یا برائے نام ہے وہ استعمال کرسکتی ہے، بشرطیکہ اس کا اظہار اجنبی مردوں کے سامنے نہ کرے۔
عورت کے لئے زیر ناف بال استرے سے صاف کرنا جائز
سوال(8- 195): عورت ناجائز بالوں(زیر ناف کے بالوں )کو صاف کرنے کے لئے بلیڈاستعمال کرسکتی ہے یا نہیں ؟ براہ کرم مدلل جواب سے نوازیں۔
جواب: عورت زیرناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے بلیڈ اور استرا استعمال کرسکتی ہے ، اور ایسے صابن اور دوائیں بھی جو بلا کسی ضرر کے بالوں کو زائل کردیں ، عام طور سے عورتوں میں جو یہ مشہور ہے کہ عورت استرا یا بلیڈ استعمال نہیں کرسکتی وہ بے اصل اور غلط ہے ، رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو جب وہ غزوہ وغیرہ سے گھر واپس آتے تو یہ تعلیم دیتے تھے کہ بلا اطلاع اور اچانک اپنے اہل و عیال کے پاس نہ پہونچ جاؤ ، اور فرماتے :
”أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلاً – أَيْ عِشَاءً – لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ، وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ“ (متفق عليه([20]))
ذرا مہلت دو اور رات کو اپنے اہل و عیال کے پاس جاؤ، تاکہ پراگندہ بال والی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرلے، اور وہ عورت جس کا شوہر غائب تھا جس کی بنا پر اس نے زیب و زینت اور زیادہ صفائی ستھرائی کا اہتمام اور استرےکا استعمال نہیں کیا وہ استرا استعمال کرلے ،یعنی زیر ناف بالوں کوصاف کرلے۔
یہاں رسول اللہ ﷺ نے عورت کے زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے”تَسْتَحِدَّ “کا لفظ استعمال فرمایا ہے ،اور حافظ ابن حجر رحمة الله عليه اس کی شرح میں فرماتے ہیں :
”أَيْ تَسْتَعْمِلَ الْحَدِيدَةَ وَهِيَ الْمُوسَى “([21])
یعنی دھار دار چیز کو استعمال کرے اور وہ استرا ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ جیسے دھار دار چیز استرا ہے ویسے ہی بلیڈ بھی ہے ،اس واسطے استرے کی طرح بلیڈکو استعمال کرنا بھی جائز ہوگا ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
”الْفِطْرَةُ خَمْسٌ، أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الْخِتَانُ، وَالاِسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ “(متفق عليه([22]))
پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرنا، استرااستعمال کرنا ، (زیر ناف بالوں کو صاف کرنا) مونچھوں کو کاٹنا ، ناخنوں کو تراشنا، اور بغل کے بال اکھاڑنا۔
یہاں بھی زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے ”الاِسْتِحْدَادُ “ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے ، اور مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی بلیڈ استعمال کرسکتی ہے ۔
ایک اور حدیث میں ہے :
”مِنَ الْفِطْرَةِ حَلْقُ الْعَانَةِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ “(متفق عليه([23]))
یعنی فطرت میں سے ہے: زیر ناف بالوں کو مونڈنا اور ناخنوں کو تراشنا اور مونچھوں کو کاٹنا ۔
یہاں زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے”حَلْقُ الْعَانَةِ “ کے الفاظ وارد ہیں، اور حلق کے معنی ہیں استرا ،بلیڈ یا کسی دھار دار چیز سے بال کومونڈنا، اس سے بھی مرداور عورت کے لئے استرا اور بلیڈ کے استعمال کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
اور حافظ ابن حجررحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ :
” امام نووی رحمة الله عليه وغیرہ کا قول ہے کہ زیر ناف بالوں کے صاف کرنے میں مرد اور عورت دونوں کے حق میں سنت استرے سے مونڈنا ہے ، اور سفر سے واپسی پر رات کو اچانک عورتوں کے پاس جانے سے ممانعت کے سلسلہ میں وارد حضرت جابر کی صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلاً – أَيْ عِشَاءً – لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ“
یہاں تک کہ پراگندہ بالو ں والی عورت کنگھا کرلے اور جس کا شوہر غائب تھا وہ استرا استعمال کرلے ۔
لیکن اصل سنت بالوں کو زائل کرنے والی کسی بھی چیز کے ذریعہ بالوں کو زائل کرنے سے حاصل ہوجائے گی ، امام نووی رحمة الله عليه نے یہ بھی کہا کہ مردوں کے حق میں بہترمونڈنا اور عورتوں کے حق میں بہتر اکھاڑنا ہے ، مگر اس پر یہ اشکال پیش کیا گیا ہے کہ اس میں عورتوں کے لئے الم و تکلیف کی مضرت ہے اور شوہر کے لئے اس جگہ کے ڈھیلا ہوجانے کا نقصان ہے، کیونکہ بالوں کے اکھاڑنے سے باتفاق اطباء وہ جگہ ڈھیلی پڑجاتی ہے ،اسی وجہ سے ابن دقیق العید رحمة الله عليه نے فرمایا کہ : بعض لوگوں کا عورت کے حق میں بھی مونڈنے ہی کی ترجیح کی جانب میلان ہے ، کیونکہ اکھاڑنے سے وہ محل ڈھیلا پڑجاتا ہے، اس کے بعد یہ بتایا کہ بعض لوگوں نے جوان اور بوڑھی کے درمیان ترجیح میں فرق کیا ہے اوربعض نے بال کو زائل کرنے والی دوا کے استعمال کو ترجیح دی ہے“۔ الخ . ([24])
مختصر یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی استرایا بلیڈ کے استعمال کو عورتوں کے لئے حرام نہیں قرار دیا ہے، اور احادیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال بلا کراہت جائز ہے ،بلکہ حدیثوں میں انہی کاتذکرہ ہے ، اس واسطے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں، البتہ بال صفا صابن وغیرہ کا استعمال بھی جائز ہے، اور جس میں عورت کو آسانی ہو یاجو اسے میسر ہو سکے اس کو استعمال کرسکتی ہے، سب سے سنت ادا ہوجائے گی اور نظافت اور صفائی بھی حاصل ہوجائے گی، البتہ بال صاف کرنے والا صابن یا پاوڈر اگر ایسا ہو جس سے جلد ( چمڑی) کو نقصان ہو سکتا ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب.
داڑھی کی شرعی مقداراور اسے تراشنے کا حکم
سوال(9- 196): داڑھی کی شرعی مقدارکیا ہے اور اس کے تراشنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: داڑھی بڑھانا اور اس میں کتر بیونت نہ کرنا انسانی فطرت ہے ،متعدد صحیح مرفوع احادیث میں اس کے بڑھانے اور علیٰ حالہٖ چھوڑ دینے کا حکم واردہے ۔ مثلاً:
(١)حضرت عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
”عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ. قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ“(رواه أحمد([25]) ومسلم([26])والنسائي([27]) والترمذي([28]))
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : ( ١) مونچھ کا کاٹنا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی چڑھانا (٥) ناخن کاٹنا (٦) انگلیوں کے جوڑ دھونا(٧) بغل کے بال اکھاڑنا (٨) ناف کے نیچے کا بال صاف کرنا (٩)پانی سے استنجا کرنا“، راوی کہتے ہیں :دسویں چیز میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ ”کلی کرنا“ ہو۔
قاضی عیاض رحمة الله عليه کہتے ہیں :ممکن ہے دسویں چیز ختنہ کرنا ہو،کیونکہ دوسری روایت میں اس کا ذکر ہے ، امام نووی رحمة الله عليه نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔([29])
(٢)اور حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
”خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ “(متفق عليه([30]))
مشرکوں کی مخالفت کرو ،داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کاٹو۔
(٣)حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ “(رواه أحمد([31]) ومسلم([32]) واللفظ له)
مونچھیں کاٹو اور داڑھی بڑھاؤ ، مجوس کی مخالفت کرو۔
علامہ شوکانی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ :داڑھی کاٹنا مجوسیوں کی عادت تھی ،اس لئے شریعت نے اس سے منع کیا ہے ۔
قاضی عیاض رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ : اکثر راویوں کی روایت میں ”أَرْخُوا “کا لفظ ہے ،اور ابن ماھان کی روایت میں ”أَرْجُوا“ جیم کے ساتھ ہے ، علامہ شوکانی رحمة الله عليه کہتے ہیں کہ : ”أَرْجُوا“ کی اصل ”أَرْجِئوا“ ہے، تخفیف کی غرض سے ہمزہ کو حذف کر دیا گیا ، اور اس کامعنی مؤخر کرنا( بڑھانا) اور چھوڑ دینا ہے ۔ ([33]) یعنی ”أَرْخُوا اللِّحَى“اور ”أَرْجُوا اللِّحَى“ دونوں کامعنی ہے : داڑھی بڑھاؤ۔
(٤)حضرت ابن عمررضي الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى “(رواه مسلم([34]))
مونچھوں کو پست کرو اور داڑھی کو چھوڑدو۔
(٥)حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى “([35])
مشرکین کی مخالفت کرو ، مونچھوں کو پست کرو اور داڑھیوں کو پوری پوری رکھو۔
علامہ نووی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
”فَحَصَلَ خَمْسُ رِوَايَات: أَعْفُوا، وَأَوْفُوا، وَأَرْخُوا، وَأَرْجُوا، وَوَفِّرُوا، وَمَعْنَاهَا كُلِّهَا: تَرْكُهَا عَلَى حَالهَا، هَذَا هُوَ الظَّاهِر مِنْ الْحَدِيث الَّذِي تَقْتَضِيه أَلْفَاظُهُ “([36])
یعنی روایتوں میں پانچ قسم کے الفاظ ہیں :”أَعْفُوا، وَأَوْفُوا، وَأَرْخُوا، وَأَرْجُوا، وَوَفِّرُوا“ اور ان سب کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑدیا جائے ،حدیث کے ظاہری الفاظ اسی کے متقاضی ہیں ۔
چونکہ تمام روایتوں کے الفاظ امر کے صیغہ سے آئے ہیں ،اور صیغۂ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے ، اس لئے علامہ البانی رحمة الله عليه داڑھی بڑھانے کے وجوب کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
”أَنَّ الأصل في أوَامِرِهِ ﷺ الوُجُوبُ، لقَولِهِ تَعَالى:﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾([37])وَغَيرِهِ مِنَ الأدِلَّةِ التي لا مَجَالَ لِذِكْرِهَا الآن، وَالخُرُوجُ عَنْ هَذَا الأصْلِ لا يَجُوْزُ إلا بَدِلِيْلٍ صَحِيْحٍ تَقُوْمُ بِهِ الحُجَّةُ “([38])
یعنی رسول اللہ ﷺ کے اوامر کا حقیقی معنی وجوب کا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں انھیں کوئی فتنہ نہ گھیر لے یا وہ درد ناک عذاب میں مبتلا کر دئے جائیں،(اور یہ متفق علیہ ہے کہ عذاب انھیں اعمال کی مخالفت پر ہوتا ہے جو واجب ہوں) اس کے علاوہ دوسری دلیلیں ہیں جن کو یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ،لہٰذا بغیر صحیح محتج بہ دلیل کے اس اصول سے ہٹنا جائز نہیں ۔
بہت سے مسلمان داڑھی بڑھانے سے متعلق حکم رسولﷺ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے صاف کرنے اور اس پر استرا پھیرنے پر عامل ہیں، اور عورتوں کی طرح اپنا چہرہ صاف رکھنا پسند کرتے ہیں،حالانکہ عورتوں کی مشابہت ، اللہ کی تخلیق میں تغییر اور خلاف فطرت عمل کرنے سے بار باراحادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے :
١-”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ { قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ“(رواه البخاري([39]) وأحمد([40]))
حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ۔
٢-”عَنْ عَائِشَةَ < أَنَّ جَارِيَةً مِنَ الأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّهَا مَرِضَتْ فَتَمَعَّطَ شَعَرُهَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ“ (متفق عليه([41]))
حضرت عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ ایک انصاریہ لڑکی کی شادی ہوئی ،پھر وہ بیمار پڑی اور اس کے بال جھڑگئے، لوگوں نے چاہا کہ اس میں الگ سے بال جوڑ دیں ،چنانچہ انھوں نے اس کا حکم نبی ﷺ سے پوچھا ، آپ نے فرمایا: اللہ نے الگ سے بال لگانے والی اور لگوانے والی عورت پر لعنت بھیجی ہے ۔
٣-”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ “(متفق عليه([42]))
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه سے روایت ہے کہ اللہ نے لعنت بھیجی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والی عورتوں پر ،اور بال اکھاڑنے اور اکھڑوانے والی عورتوں پر، اورحسن کی غرض سے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والی عورتوں پر،اورجو اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدیلی کرتی ہیں ۔
٤-”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَىَّ ثَوْبَيْنِ مُعَصْفَرَيْنِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ مِنْ ثِيَابِ الْكُفَّارِ فَلاَ تَلْبَسْهَا“(رواه مسلم([43]) وأحمد([44]))
عبد اللہ بن عمروبن عاص رضي الله عنهما فرماتے ہیں: میرے جسم پر رسول اللہ ﷺ نے دو زرد رنگ کے کپڑے دیکھے تو فرمایا: ”یہ کفار کے لباس ہیں، انہیں نہ پہنو“۔
علامہ البانی رحمة الله عليه ان چارو ں حدیثوں کو ذکر کرکے لکھتے ہیں :”ان احادیث کی تخریج شیخین نے صحیحین میں کی ہے ، صرف عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما کی روایت صحیح مسلم کی ہے ، وہ مسلمان جن کی فطرت میں فساد نہیں آیا ہے ، مذکورہ احادیث سے داڑھی بڑھانے کے وجوب اور اسے صاف کرنے کی حرمت پر بکثرت قطعی دلائل حاصل کر سکتے ہیں ۔ مثلا:
(١)شارع نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے، اور حکم کا حقیقی معنی وجوب ہے ، لہٰذا داڑھی بڑھانا واجب ہے ۔
(٢) مردوں کے لئے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے ،اور مرد کا داڑھی صاف کرنا عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے، لہٰذا داڑھی صاف کرنا حرام اور بڑھانا واجب ہے ۔
(٣)حسن میں اضافہ کی غرض سے ابرو وغیرہ کے بال اکھاڑنے والی عورت پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے، اور اس کی علت یہ بتائی ہے کہ یہ عمل اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے ، جولوگ داڑھی صاف کرتے ہیں وہ لوگ حسن کی غرض سے ایسا کرتے ہیں ، اس طرح اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لئے وہ بھی بال اکھیڑنے والی عورت کے حکم میں ہیں ، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
(٤)نبیﷺ نے داڑھی بڑھانے کو فطرت کہا ہے ،اور عرف وعادت میں خواہ کتنی بھی تبدیلی ہو جائے شریعت کی رو سے فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی ،قرآن کا اعلان ہے :
﴿ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭلَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ ([45])
یعنی اللہ کی فطرت وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پید ا کیا ،اللہ کی تخلیق میں تبدیلی جائز نہیں،یہی مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“([46])
بعض لوگ داڑھی کے طول و عرض سے کچھ لینے کو جائز قرار دیتے ہیں ،اس سلسلہ میں امام ترمذی رحمة الله عليه نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے اپنی جامع میں ایک مرفوع حدیث ذکر کی ہے :
”أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا“(رواه الترمذي([47]) وقال: هذا حديث غريب)
یعنی نبی ﷺ اپنی داڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے، سے استدلال کرتے ہیں۔
مگرامام ترمذی رحمة الله عليه نے اس حدیث کو غریب کہا ہے ،اور علامہ مبارکپوری رحمة الله عليه لکھتے ہیں :
”أَنَّ حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ هَذَا ضَعِيفٌ جِدًّا،…لِأَنَّ مَدَارَهُ عَلَى عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ كَمَا عَرَفْتَ، قَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ بَعْدَ ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ: أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَنُقِلَ عَنِ الْبُخَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ فِي رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ لَا أَعْلَمُ لَهُ حَدِيثًا مُنْكَرًا إِلَّا هَذَا “([48])
عمر وبن شعیب کہ یہ حدیث حد درجہ ضعیف ہے ،کیونکہ اس حدیث کا دارو مدار عمر بن ہارون پر ہے ،جو متروک راوی ہے ، حافظ ابن حجررحمة الله عليه اس روایت کو ذکر کر کے لکھتے ہیں:
” امام ترمذی نے ا س حدیث کی تخریج کی ہے، اور عمر بن ہارون کی روایت کے بارے میں امام بخاری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عمر بن ہارون کی کسی حدیث کو منکر نہیں جانتا سوائے اس حدیث کے “
یعنی امام بخاری کے نزدیک بھی یہ حدیث منکر ہے ، لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔
بعض لوگ ایک قبضہ سے زائدداڑھی کے بال کاٹنے کو جائز سمجھتے ہیں ، اس خیال کی تائید میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں ، البتہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهاما کا اثر امام بخاری رحمة الله عليه نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے :
”وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ“(رواه البخاري ([49]))
یعنی ابن عمر رضي الله عنهما جب عمرہ یا حج کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے ،جو حصہ مٹھی سے زائد ہوتا اسے کاٹ دیتے ۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه کا اثر بھی اسی معنی میں وارد ہے، اور حضرت عمررضي الله عنه نے بھی ایک آدمی کے ساتھ یہی کیا ہے، اور امام ابوداود نے حسن سند سے حضرت جابر رضي الله عنه کی ایک روایت ذکر کی ہے ،انھوں نے کہا کہ : ہم لوگ داڑھی کے بال بڑھاتے تھے ،مگر حج اور عمرہ میں۔ (بڑھے ہوئے بال قصر کروا دیتے تھے )
”قَالَ الْحَافِظُ: فَقَدْ قَالَ الطَّبَرَيُّ: ذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى ظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَكَرِهُوا تَنَاوُلَ شَيْءٍ مِنَ اللِّحْيَةِ مِنْ طُولِهَا وَمِنْ عَرْضِهَا، وَقَالَ قَوْمٌ: إِذَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ يُؤْخَذُ الزَّائِد، ثمَّ سَاق بِسَنَدِهِ إِلَى ابن عُمَرَ أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ، وَإِلَى عُمَرَ أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ بِرَجُلٍ،وَمِنْ طَرِيقِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ فَعَلَهُ، وَأَخْرَجَ أَبُودَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ قَالَ كُنَّا نُعَفِّي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عَمْرَةٍ، وَقَوْلُهُ: نُعَفِّي بِضَمِّ أَوَّلِهِ وَتَشْدِيدِ الْفَاءِ أَيْ نَتْرُكَهُ وَافِرًا، وَهَذَا يُؤَيّد مَا نقل عَن ابن عُمَرَ، فَإِنَّ السِّبَالَ بِكَسْرِ الْمُهْمَلَةِ وَتَخْفِيفِ الْمُوَحَّدَةِ جَمْعُ سَبَلَةَ بِفَتْحَتَيْنِ، وَهِيَ مَا طَالَ مِنْ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَأَشَارَ جَابِرٌ إِلَى أَنَّهُمْ يُقَصِّرُونَ مِنْهَا فِي النُّسُكِ“([50])
اورعلامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمة الله عليه لکھتے ہیں :
”وَأَمَّا قَوْلُ: مَنْ قَالَ إِنَّهُ إِذَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ يُؤْخَذُ الزَائِدُ، وَاستَدَلَّ بِآثَارِ ابن عُمَرَ وَعُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ } فَهُوَ ضَعِيفٌ، لِأَنَّ أَحَادِيثَ الْإِعْفَاءِ الْمَرْفُوعَةِ الصَّحِيحَةِ تَنْفِي هَذِهِ الْآثَارَ، فَهَذِهِ الْآثَارُ لَا تَصْلُحُ لِلِاسْتِدْلَالِ بِهَا مَعَ وُجُودِ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ الصَّحِيحَةِ.
فَأَسْلَمُ الْأَقْوَالِ هُوَ قَوْلُ مَنْ قَالَ بِظَاهِرِ أَحَادِيثِ الْإِعْفَاءِ، وَكَرِهَ أَنْ يُؤْخَذَ شَيْءٌ مِنْ طُولِ اللِّحْيَةِ وَعَرْضِهَا، واللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ“([51])
یعنی ابن عمر ،عمراور ابو ہریرہ رضي الله عنهم کے آثار کی روشنی میں جو لوگ ایک قبضہ سے زائد داڑھی کے بال کاٹنے کے قائل ہیں،ان کی بات ضعیف اور کمزور ہے ، کیونکہ داڑھی کے بال کو اس کے حال پر چھوڑ دینے اور بڑھانے کی صحیح مرفوع احادیث ان آثار صحابہ کی نفی کرتی ہیں ، ان کی موجودگی میں آثار صحابہ سے استدلال درست نہیں ۔
لہٰذا سب سے صحیح اور معتبر بات انہی لوگوں کی ہے جو حدیث کے منطوق پر عمل کرتے ہوئے داڑھی بڑھانے اور اس سے تعرض نہ کرنے کے قائل ہیں ،اور داڑھی کو طول و عرض سے کچھ بھی لینے کو نا پسند کرتے ہیں ۔
بلاشبہ دلیل کے اعتبار سے یہی راجح ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس میں سے کچھ بھی نہ کاٹاجائے ، لیکن جولوگ آثار صحابہ سے استیناس کرتے ہوئے ایک مٹھی سے زیادہ بال کو کاٹتے ہیں ان پر نکیر کرنے اور ان سے لڑائی جھگڑاکرنے کے بجائے انھیں محبت سے سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دینا چاہئے ،البتہ ایک مٹھی سے کم رکھنے والوں اور حلق کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں، اور علماء نے ان کو فاسق قرار دیا ہے، اس لئے انھیں سختی سے سنت رسولﷺ کا پابندبنانے کی کوشش کرنا چاہئے، لیکن حکم الٰہی :
﴿ اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ﴾ ([52]) کو بھی ہمیشہ مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
باب الوضوء ( وضو ء کے مسائل)
عرق مہندی لگانے کے بعد وضوء اورنمازکا حکم؟
سوال(10- 197): عورتوں کے لئے مہندی لگانا سنت ہے ،لیکن مہندی کا تیل (عرق) ہاتھ میں لگانا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح ناخن پالش لگانے سے نماز نہیں ہوتی اسی طرح اس کے بھی لگانے سے نماز نہیں ہوتی،دونوں کا حکم ایک ہے، اس مسئلہ کے بارے میں ہمارے گاؤں میں کافی مباحثہ ہورہا ہے، براہ کرم آپ ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں جواب سے نوازیں۔
جواب: ”عرق مہندی“ کے نام سے جو چیز بازار میں فروخت ہوتی ہے اس کا حکم مہندی کے حکم سے مختلف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ مہندی کے استعمال سے ہاتھ میں صرف اس کا رنگ چڑھتا ہے، جب کہ یہ عرق استعمال کیجئے تو بعض کیمیکل کی آمیزش کی بناء پر ناخن پالش کی طرح رنگ کے ساتھ اس کی ایک تہہ بھی جم جاتی ہے، جو بظاہر وضو اور غسل کرتے وقت پانی کو جسم تک پہونچنے سے مانع ہوتی ہے ، اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو وضو صحیح نہیں ہوتا اور جب وضو صحیح نہ ہو تو ایسے فاسد وضو سے جو نمازیں پڑھیں گے وہ بھی صحیح نہیں ہوں گی ،اس لئے میرے نزدیک ناخن پالش کی طرح اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔
صحت وضو ءکے لئے نیت کا حکم
سوال(11- 198): کیا صحت وضوء کے لئے نیت ضروری ہے ؟یا بغیر نیت کے اعضاء وضو کو دھو لیا تو اس سے نماز پڑھ سکتے ہیں اور وضو ہوجائے گا؟
جواب: وضو ایک عبادت ہے ،حدیث میں وارد ہے کہ وضوء کرنے سے چہرہ، آنکھ اور کان وغیرہ سے صادر ہونے والے (صغیرہ) گناہ وضو کے پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں، اس واسطے جیسے دوسری تمام عبادتوں کی صحت کے لئے نیت شرط ہے اسی طرح صحت وضو کے لئے بھی نیت شرط ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ﴾ ([53])
اور انھیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ وہ اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرنے والے ہوں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“([54])
اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔
بعض لوگوں کایہ کہنا ہے کہ یہ عبادت ”معقولۃ المعنی“ ہے ،یعنی اس کا فائدہ اور مقصد اعضاء وضو کو دھونے سے نظافت اور نشاط ہے، اس واسطے اس کے لئے نیت ضروری نہیں ، مگر یہ بات درست نہیں ہے،کیونکہ اس پر عبادت کا غلبہ ہے اور اس کا مقصد صرف صفائی ونشاط نہیں بلکہ اللہ و رسول (ﷺ) کے حکم کی بجا آوری اور شروط صلاة میں سے ایک شرط کو پورا کرکے ثواب اور اس کے فضائل وبرکات کو حاصل کرنا ہوتاہے، اس واسطے وضو کے لئے نیت ضروری اور اس کی صحت کے لئے شرط ہے۔
صحت وضو کے لئے اسلام کی شرط
سوال(12- 199): کیا وضو کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے؟
جواب: غیر مسلم جب تک اسلام قبول نہیں کرتا اس کونماز پڑھنے اور وضو کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا، اور اگر اس نے حالت کفر میں وضو کیا اور نماز پڑھی تو اسلام نہ قبول کرنے کی وجہ سے نا تو اس کی نماز قبول ہوگی اور نہ ہی وضو صحیح مانا جائے گا، یعنی وضو، نماز اور دیگر عبادات کی صحت و قبولیت کے لئے اسلام شرط ہے، اس لئے کسی بھی غیرمسلم کو پہلے ایمان یعنی ”لا الہ الااللہ، محمد رسول اللہ“ کی شہادت اور اقرارکی دعوت دی جائے گی، اور جب وہ اس کو قبول کر لے گا تب وضو ،نمازاور زکاۃ وغیرہ کا اسے حکم دیں گے، جیسا کہ حضرت معاذ ضي الله عنه کو یمن بھیجتے وقت رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی تھی ([55])۔
نابالغ بچوں کے لئے وضو کا حکم
سوال(13- 200): کیا نابالغ بچوں پر بھی وضو واجب ہے؟
جواب: نابالغ بچے اور مجنوں پر نہ نماز واجب ہے ،نہ وضو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ “(رواه أحمد([56]) وابوداود([57]) والنسائي([58]))
تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں: سونے والا یہاں تک کہ بیدار ہوجائے، بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو جائے ، اورمجنون یہاں تک کہ وہ عاقل ہو جائے ۔
مگر نابالغ بچوں کو جب نماز کی تعلیم دیں گے تو بہر حال انھیں وضو کی تعلیم بھی دیں گے، اور بتائیں گے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، کیونکہ وضو صحت صلاۃ کے لئے شرط ہے۔
وضوء میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا حکم
سوال(14- 201): وضو میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا کیا حکم ہے، دلیل کے ساتھ بتائیے؟
جواب: وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے ،کیونکہ احادیث میں ان کا حکم وارد ہے، اور امر اصل میں وجوب کے لئے ہی آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ، ثُمَّ لِيَسْتَنْثِرْ “(اخرجه مالك في الموطا([59]) والبخاري في صحيحه([60]) من حديث ابي هريرة>)
یعنی تم میں سے جب کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے جھاڑے۔
اور سنن ابی داؤد میں ہے :
”إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ“([61])
جب تم وضو کرو تو کلی کرو۔
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی اسی پر تھا، اور کبھی بغیر کلی کئےاوربنا ناک میں پانی ڈال کر جھاڑے آپ ﷺ سے وضو کرنا ثابت نہیں۔
وضو میں چہرہ دھونے کا حکم
سوال(15- 202): وضو میں چہرہ دھونے کا کیا حکم ہے؟
جواب: وضو میں چہرہ دھونا فرض ہے ،قرآن کریم میں اس کا حکم ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ﴾ ([62])
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کو دھو لو۔.
اس واسطے وضو میں چہرہ دھونا فرض ہے۔
چہرہ دھوتے وقت کان اور رخسار کے درمیان کے حصے کو دھونا
سوال(16- 203): کیا وضو میں چہرہ دھوتے وقت اس حصے کو بھی دھوئیں گے جو کان اور رخسار کے درمیان ہوتا ہے؟
جواب: وضو میں رخسار اور کان کے درمیان کے حصے کو بھی دھونا چاہئے، چہرہ کے اطلاق و عموم میں وہ حصہ بھی داخل ہے،نیز اسی میں احتیاط ہے ۔
چہرہ دھوتے وقت داڑھی کا خلال کرنا
سوال(17- 204): کیا چہرہ دھوتے وقت جن کی داڑھی ہو وہ داڑھی کا خلال کریں گے؟
جواب: ہاں! انہیں داڑھی کا خلال کرنا چاہئے، حضرت انس رضي الله عنه ے روایت ہے کہ رسول ﷺ جب وضو کرتے تو ہتھیلی میں پانی لیتے اور اس سے داڑھی کا خلال کرتے، اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: میرے رب نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ (رواه ابوداود([63])والبيهقي([64]) وصححه الألباني([65]))
وضو میں ہاتھوں کو دھوتے وقت ان میں کہنیاں بھی داخل
سوال(18- 205): وضو میں جو ہاتھوں کے کہنیوں تک دھونے کا حکم ہے کیا اس میں کہنیاں داخل ہیں یا وہ داخل نہیں ہیں؟
جواب: وضو میں ہاتھوں کے دھوتے وقت کہنیوں کوبھی دھونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو ﴿وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ﴾ ([66]) فرمایا ہے اس میں ”الی“، ”مع“ کے معنی میں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرة رضي الله عنه کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کو دھلا تو اتنا دھلا کہ بازو کے شروع حصہ کو بھی اس میں شامل کرلیا، پھر اسی طرح بائیں ہاتھ کو بھی دھلا، پھر دونوں پاؤں کو بھی پنڈلیوں کے کچھ حصوں کے ساتھ دھویا، پھر کہا:”هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَﷺ يَتَوَضَّأُ“([67]) میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھاہے۔
آستین تنگ ہونے کی صورت میں اس پر مسح کرنا ناجائز
سوال(19- 206):اگر کسی عورت کی آستینیں تنگ ہوں اور وضو کرتے وقت انھیں اوپر چڑھانا نا ممکن ہو تو کیا وہ ان پر مسح کرسکتی ہے ؟
جواب: نہیں وہ آستینوں پر مسح نہیں کر سکتی ، بلکہ ہاتھوں کو نکال کر دھوئے گی، اس لئے کہ وضو میں ہاتھوں کا دھونا فرض ہے ، حکم الٰہی ہے :
﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾ ([68])
اے مومنو!تم جب نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو (وضو کرلو اور) اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ ، اور اپنے سروں کا مسح کرواور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھوؤ ۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا ، آپ نے فرمایا:” اے مغیرہ (پانی کا)برتن لے لو ،چنانچہ میں نے برتن لیا ، پھر رسول اللہ ﷺچلے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے اور قضاء حاجت کی ،آپ ایک شامی جبہ زیب تن فرمائے ہوئے تھے ، جب آپ وضو فرماتے وقت آستین سے ہاتھ نکالنے لگے تووہ تنگ پڑگئی ، آپ نے نیچے سے ہاتھ نکالا پھرمیں نے پانی ڈالا اور آپ نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیااور اپنے چمڑے کے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔ (رواه البخاري([69]))
ملاحظہ فرمائیے کہ شامی جبہ کی آستین تنگ ہوگئی تو آپ نے اس پر مسح نہیں کیابلکہ ہاتھ کو نیچے سے نکال کر دھویااسی طرح اس عورت کو بھی کرنا چاہئے۔
وضو میں آستین سمیت ہاتھ دھلنا
سوال(20- 207): اگر وہ ہاتھ نہ نکالے بلکہ کپڑے کے اوپر سے پانی ڈال کر ہاتھ دھولے تو کیا اس کا وضو ہوجا ئے گا؟
جواب:ہاں ایسی صورت میں اس کا وضو ہوجائے گا، کیونکہ فرض ہاتھ کودھونا ہے ، باہر نکال کر دھونا نہیں ،دیکھئے غسل جنابت میں جسم کے تمام حصوں تک پانی پہونچانا اورانہیں تر کرناواجب ہے ، مگر سب کو کھول کر دھونا ضروری نہیں ، ازار کے اوپر سے پانی ڈال کر اندر کے اعضاء کو دھویا جاتا ہے اور غسل مکمل ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر یہ ہاتھ کو آستین کے باہر نہ نکالے اور اوپر سے ہی پانی ڈال کر دھولے تو وضو ہوجائے گا، مگر ایسی تنگ آستین والے کپڑے بنوانے اور پہننے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ کپڑے تو کشادہ ، ساتر،آرام دہ اور ایسے ہونے چاہئے جس سے کوئی پریشانی نہ ہو ، ظاہر ہے اوپر سے دھونے میں پریشانی ہے، ہاتھ اور آستینیں زیادہ دیر تک گیلی رہیں گی،خاص طور سے سردیوں میں اس سے کافی پریشانی ہوگی، نیز کپڑے بھی خراب ہوجائیں گے ، اس واسطے ایسے کپڑوں کے سلانے سے بچنا چاہئے ، ہرفیشن کی تقلید ٹھیک نہیں۔
مہندی لگے ہوئے ہاتھوں پر مسح درست نہیں
سوال(21- 208): اگر کوئی عورت اپنے سر ،پیر یا ہاتھوں میں مہندی لگائے ہوئے ہو تو اس وقت ان اعضاء پر مسح کرکے نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب: وہ اعضاء جن کو وضو میں دھویا جاتا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں وغیرہ اگر ان پر مہندی لگی ہے تو وضو کے وقت مہندی کو زائل کر کے انہیں دھونا ضروری ہے، صرف مسح کرنا کافی نہیں۔
حضرت عائشہ رضي الله عنها سے پوچھا گیا: کیا عورت مہندی پر مسح کرسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: میرے ہاتھ چھری سے کاٹ دئیے جائیں یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہیں۔(رواه الدارمي([70])والبيهقي([71]))
اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں: ہماری عورتیں عشاء کی نماز پڑھ کر مہندی لگاتی ہیں اور صبح اس کو زائل کر کے وضو کرتی اور نماز پڑھتی ہیں، پھر ظہر کو لگاتی ہیں اور عصر کی نماز پڑھنی ہوتی ہے تو اسے زائل کر دیتی ہیں اس طرح مہندی کا رنگ چڑھ جاتا ہے اور نماز بھی نہیں چھوٹتی ہے۔(رواه الدارمي([72])وعبد الرزاق في المصنف([73]))
رہا سر جس پر مسح کیا جاتا ہے تو بعض علماء نے حالت احرام میں تلبید رأس ( گوند وغیرہ کے ذریعہ بالوں کو چپکا دینا تاکہ وہ پراگندہ نہ ہوں) کی صورت پر قیاس کر کے مہندی لگانے کی صورت میں بھی مسح کرنے کی اجازت دی ہے، مگر امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه وغیرہ نے اس کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مہندی پر مسح کرنے سے وضو صحیح نہیں ہوگا ،اور یہی احوط معلوم ہوتا ہے ،کیونکہ سر پر مہندی ہونے کی صورت میں پانی سرکے بالوں سے مس نہیں کرے گا، اور اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے سر پر بجائے مہندی کے کوئی کپڑا ہو اور اس کے اوپر سے سر کا مسح کرلیا جائے، نیز جیسے تمام اعضاء وضو سے اس چیز کا ازالہ ضروری ہےجو پانی کے وہاں تک پہنچنے سے مانع ہو ،اسی طرح سرسے مہندی کا بھی ازالہ ضروری ہوگا۔
پٹی پر مسح کرنے کا حکم
سوال(22- 209): اگر کسی کے اعضاء وضوء یا اعضاء غسل میں سے کسی پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو کیا وضوء یا غسل کے وقت اس پٹی پر مسح کر لینا ہی کافی ہے؟ یا لازمی طور سے اسے کھول کر دھونا پڑے گا؟
جواب:اگر پٹی کھول کر اس کے دھونے سے ضرر پہونچے تو ایسی صورت میں پٹی نہیں کھولنا چاہئے ، اس پر مسح کر لینا ہی کافی ہے، حضرت جابررضي الله عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص کے سر میں پتھر لگنے کی وجہ سے زخم ہوگیا ، پھر اسے احتلام بھی ہوگیا ،اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا ایسی صورت میں اس کے لئے تیمم کی رخصت ہے ؟ انھوں نے کہا: تمہارے پاس پانی ہے اس لئے ہم تمہارے لئے تیمم کی رخصت نہیں پاتے ہیں،اس کے بعد اس شخص نے غسل کرلیا اور اس کی موت ہوگئی ،جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺکے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا:
”قَتَلُوهُ، قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَّا سَأَلُوا إِذَا لَمْ يَعْلَمُوا، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ عَلَى جَرْحِهِ ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهِ وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ “ (رواه ابو داود([74]) وابن ماجه([75]) والدارقطني([76]) وصححه ابن السکن)
ان لوگوں نے اسے مارڈالا ،اللہ انہیں ہلاک کرے ، نہیں معلوم تھا تو انھوں نے پوچھا کیوں نہیں ؟ لاعلمی اور عاجزی کاعلاج سوال ہے ، تیمم کرلینا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لینا پھر اس پر مسح کرلینا اور باقی بدن کو دھو لینا اس کے لئے یہی کافی تھا ۔
نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ“(رواه أحمد في المسند([77]) وابن ماجه في السنن([78]) ومالك في الموطا([79]))
نہ ضرر اٹھانا ہے اور نہ ضرر پہونچانا ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ ([80])
تم لوگ اپنے نفسوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
نیز حضرت ابن عمررضي الله عنه سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ انھوں نے پٹی پر مسح کیاہے۔ ([81])
زخم پر لگی پٹی اور بینڈز پر مسح
سوال(23- 210): اگر کسی کے چہرے پر زخم کی وجہ سے بینڈز کئے ہوئے ہیں اوروضو کرتے وقت انہیں ہٹایا اور نکالا نہیں جاسکتا کیونکہ اس سے ضرر پہونچے گا تو ایسی صورت میں وضو کرتے وقت چہرے کی پٹی اور بینڈڈ پر کیا کریں گے؟
جواب:ایسی صورت میں چہرے کی پٹی پر اور بینڈز پر مسح کریں گے ، اور باقی اعضاء وضو جہاں کوئی زخم نہیں ہے ان کو دھوئیں گے ، اور سر پر مسح کریں گے۔
وضو کے وقت پلاسٹر کا کھولنا ضروری نہیں
سوال(24- 211): ایک شخص کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہاتھ اور پاؤں ٹوٹ گئے ہیں ، اور ان پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے ، ایسی صورت میں وہ وضو یا غسل کرتے وقت کیا کرے؟
جواب: جب تک پلاسٹر کھولنے اور وضو و غسل کرتے وقت ہاتھ اور پاؤں کے دھونے میں اس کے لئے ضرر بلیغ ( بڑا نقصان )ہے اور معتبر ڈاکٹر کی طرف سے اس کی ممانعت ہے، اس وقت تک اسے پلاسٹر کے اوپر مسح کر لینا چاہئے ، پلاسٹر کھولنے اور ہاتھ پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ،اس پر مسح کر لینے سے اس کا وضو اور غسل صحیح ہوجائے گا۔
سر کے مسح کا حکم اور پورے سر کے مسح کا وجوب
سوال(25- 212): سر کے مسح کا کیا حکم ہے ؟اور اس کے کتنے حصے کا مسح کرنا واجب ہے؟
جواب: سر کا مسح کرنا فرض ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ﴾ ([82])
وضو میں اپنے سروں کا مسح کرو۔
اور امر وجوب کے لئے آتا ہے ،جہاں تک یہ سوال ہے کہ کتنے سر کا مسح کریں گے ؟تو صحیح یہ ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائےگا، کیونکہ عبداللہ بن زید رضي الله عنه کی حدیث ہے :
”أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ،ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ “(رواه الجماعة([83]))
نبی کریم ﷺ نے اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا تو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے، سر کے اگلے حصے سے شروع کیا پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے ،پھر انھیں واپس اس جگہ تک لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔
سر کے مسح کا طریقہ
سوال(26- 213): سر کے مسح کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: سر کے مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو نئے پانی سے تر کرنے کے بعد سر کے اگلے حصے سے مسح کرنا شروع کریں ، اورہاتھوں کو سر پر پھیرتے ہوئے گُدی تک لے جائیں ،پھر وہاں سے واپس سر کے اگلے حصے تک لائیں، جیسا کہ عبد اللہ بن زیدرضي الله عنه کی حدیث میں رسول اللہﷺ کے مسح کا طریقہ وارد ہے۔(متفق عليه([84]))
سر کا مسح تین مرتبہ کرنا افضل نہیں
سوال(27- 214): جس طرح وضوء میں تمام اعضاء وضو تین تین مرتبہ دھوئے جاتے ہیں اور یہی افضل ہے، کیا اسی طرح سر کا مسح بھی تین مرتبہ کرنا افضل ہے؟
جواب: سر کا مسح تین مرتبہ کرنا افضل نہیں ہے، کیونکہ اکثر وبیشتر روایتوں میں جہاں دیگر اعضائے وضو کا تین تین مرتبہ دھونا وارد ہے وہاں سر کا مسح ایک ہی مرتبہ وارد ہے۔([85])
اور بعض روایتوں میں جو یہ وارد ہے کہ:” نبی ﷺ نے سر کا مسح تین مرتبہ کیا “([86])وہ غریب اور ثقہ و حفاظ راویوں کی روایتوں کے بر خلاف ہے۔
سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا
سوال(28- 215): کیا سر کے مسح کے لئے نیا پانی لیا جائے گا، یا دوسرے اعضاء کو دھونے سے جو ہاتھ میں تری رہتی ہے اسی سے مسح کر سکتے ہیں؟
جواب: جس طرح تمام اعضاء کو دھوتے وقت نیا پانی لیتے ہیں، اسی طرح سر کے مسح کے لئے بھی جمہور علماء کے نزدیک نیا پانی لیا جائے گا ، اور یہی راجح اور قوی ہے۔
عمامہ پر مسح کا حکم
سوال: (29- 216)اگر سرپر عمامہ باندھے ہوں تو کیا اس پر مسح کرنا کافی ہے؟ یا عمامہ کو اتار کر سر کا مسح کرنا ضروری ہے؟
جواب:راجح یہ ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے، اور وضو کرتے وقت اس کو اتار کر سرپر مسح کرنا ضروری نہیں، کیونکہ اس میں زحمت اور حرج ہے اور دین اسلام میں حرج نہیں ہے، نیز حضرت مغیرہ بن شعبہ رضي الله عنه وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے وضو کیا تواپنی پیشانی ، عمامہ اور موزہ پر مسح کیا ۔ (رواه مسلم([87]))
اور عمرو بن امیہ الضمر ی رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے عمامہ اور چمڑے کے موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(رواه البخاري([88]))
وضوء کے بعد شرمگاہ کی جگہ ازار پر پانی چھڑکنا
سوال(30- 217):وضوء کے اخیر میں شرمگاہ کے پاس ازار پر پانی کے چھینٹے مارنے کے سلسلہ میں کوئی قابل استدلال حدیث ہے یا نہیں؟براہ کرم اپنے جواب سے ضرور نوازیں،کیونکہ یہاں اس کے بارے میں اختلاف چل رہا ہے۔
جواب:اس سلسلے میں چند حدیثیں وارد ہیں اور مجموعی طور سے قابل استدلال ہیں۔
١- حکم بن سفیان رضي الله عنه کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں:
”رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَنَضَحَ فَرْجَه“(رواه أحمد([89]) وابوداود([90]) والنسائي([91])وابن ماجه([92])،انظر المشکاة مع المرعاة: 2/66)
یعنی میں نے رسول اللہ ﷺکو پیشاب کرنے کے بعد وضو فرماتے اور اپنی شرمگاہ پر چھینٹیں مارتے دیکھا۔
اس حدیث کو اگر چہ کچھ علماء نے مضطرب الاسناد کہا ہے، مگر شیخ البانی رحمة الله عليه نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔([93])
٢- اسامہ بن زید بن حارثہ رضي الله عنهما کی حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ کے پاس حضرت جبرئیل عليه السلام نزول وحی کے ابتدائی ایام میں تشریف لائے اور آپ کو نماز اور وضو کی تعلیم دی، جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیا اور اپنی شرمگاہ پر چھڑ کا،اور بعض روایتوں میں ہے کہ انھوں نے مجھے اس کا حکم دیا۔
اس کی روایت احمد([94])،ابن ماجہ ([95])اوردار قطنی ([96])نے کی ہے، اور علامہ البانی نے فرمایا کہ یہ حدیث حکم دینے والے ٹکڑے کو چھوڑ کر باقی حسن ہے۔([97])
٣- حضرت جابر رضي الله عنه کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے وضو فرمایا تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔(رواه ابن ماجه([98]) وقال الألباني:صحيح([99]))
٤- حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جَاءَنِي جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ “رَوَاهُ التِّرْمِذِي([100]) وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وسَمِعْت مُحَمَّدًا-يعني البخاري-، يَقُولُ: الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَقَالَ الشيخ عبيد الله المباركفوري: فَالحَدِيثُ ضَعِيفٌ جداً، لَكِن في البَابِ أحادِيث عَدِيدَة يَدُلُّ عَلى أنَّ لَهُ أصلاً“ ([101])
میرے پاس جبرئیل عليه السلام تشریف لائے اور فرمایا:اے محمد(ﷺ)!جب آپ وضو فرمائیں تو پانی چھڑک لیا کریں،اس کی روایت ترمذی نے کی ہے اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور میں نے محمد (یعنی امام بخاری رحمة الله علية) کو فرماتےہوئے سنا ہےکہ : حسن بن علی الہاشمی منکر الحدیث ہے ، اور شیخ عبید اللہ مبارک پوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں : یہ حدیث ضعیف جدا ہے، لیکن اس باب میں بہت سی احادیث ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ اس کی اصل ہے۔
بہر حال ان احادیث کی روشنی میں چھینٹیں مارنا جائز ہے۔
وضوء کے بعد دعا:” اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ “الخ . کا ثبوت
سوال(31- 218):وضوء کے بعد کی دعا:”اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ،وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِينَ“ ہم لوگ بچپن سے یاد کئے ہیں اور برابر پڑھتے آئے ہیں ، لیکن فقہ السنہ میں ہے کہ جس حدیث میں یہ دعا واردہے اس کی سند میں اضطراب ہے، اور یہ زیادتی صحیح نہیں ، تو کیا واقعی یہ دعا ثابت نہیں؟
جواب: سید سابق نے امام ترمذی رحمة الله عليه کی اتباع میں اس کی تضعیف کی ہے، اور اسے مضطرب الاسناد کہا ہے ،جب کہ اس کی اصل صحیح مسلم وغیرہ میں ہے، اور امام مسلم رحمة الله عليه کی تصحیح کو امام ترمذی رحمة الله عليه کی تضعیف پر ترجیح حاصل ہے، امام ترمذی رحمة الله عليه نے جس اضطراب کی طرف اشارہ کیا ہے وہ قادح نہیں ،نیز اس کے شواہد بھی ہیں ، اس واسطے یہ حدیث صحیح اور دعا ثابت ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: زادالمعاد: 1/195-196،شرح الترمذی لاحمد شاکر: 1/77-83، تمام المنۃ:ص96-97۔
کیا چھوٹے بچوں کی شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال(32- 219): شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ،تو کیا اگر کوئی عورت وضو کرنے کے بعد اپنے چھوٹے بچے کا پیشاب یا پاخانہ صاف کرے تو اس سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا؟ اسی طرح بچے کو پا جامہ وغیرہ پہناتے وقت اگراس کی شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب: شرمگاہ کو ہاتھ لگانا مطلقا ًناقض وضو ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں دو حدیثیں وارد ہیں، ایک حدیث حضرت بسرہ بنت صفوان رضي الله عنها سے مروی ہے جس میں ہے کہ :
”مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلاَ يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأ“(رواه الترمذي([102])والنسائي([103]))
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنا ذکر چھولیا وہ جب تک وضو نہ کرے نماز نہ پڑھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کو چھونا ناقض وضو ہے۔
اور دوسری حدیث حضرت طلق بن علی رضي الله عنه سے مروی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وَهَلْ هُوَ إِلاَّ مُضْغَةٌ مِنْه“(رواه الترمذي([104])والنسائي([105]))
ذکر (شرم گاہ) بھی جسم کا ایک حصہ ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کو چھونا ناقض وضو نہیں ہے۔
یہ دونوں حدیثیں صحیح اور قابل عمل ہیں ،جیسا کہ علامہ البانی ، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری اور شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری رحمة الله عليه نے دونوں حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے، اور جب دو حدیثیں متعارض ہوں تو جو قاعدہ محدثین نے وضع کیا ہے وہ یہ ہے:
اولا: دونوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی جائے گی۔
ثانیا : اگر دونوں میں تطبیق دینا ممکن نہ ہو، تو تاریخ کی طرف رجوع کیا جائے گا، اگر دونوں حدیثوں کی تاریخ معلوم ہوجاتی ہے تو پہلے والی حدیث منسوخ اور بعد والی ناسخ اور قابل عمل ہوگی۔
ثالثا: اور اگر تاریخ معلوم نہ ہوسکے اور دونوں حدیثوں میں سے کسی ایک کو ترجیح کے وجوہ میں سے کسی وجہ کے ذریعہ راجح قرار دینا ممکن ہو تو ترجیح دیں گے۔
اس واسطے اس قاعدہ کے مطابق یہاں پرپہلے دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق کی شکل کو اختیار کیا جائے گا ،اور یہاں پر تطبیق کی دو شکلیں نکل رہی ہیں۔
(١) حضرت بسرہ رضي الله عنها کی حدیث میں جو وضو کرنے کا امر (حکم) ہے اس کو وجوب پر نہیں بلکہ استحباب پر محمول کیا جائے اور حضرت طلق بن علی رضي الله عنه کی حدیث کو بیان جواز پر محمول کیا جائے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں: زیادہ قوی بات یہ ہے کہ مس ذکر سے وضو کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے ،اور اسی طرح کی صراحت امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نےبھی اپنی ایک روایت میں کی ہے، اس طرح ان احادیث اور آثار کے درمیان امر کو استحباب پر محمول کرکے تطبیق ہوجائے گی اور تعارض ختم ہوجائے گا، ایسی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے قول :”ذکر بھی جسم کا ایک ٹکڑا ہے “ کے نسخ کی بات بھی نہیں ہوگی، اور امر کو استحباب پر محمول کرنا نسخ سے اولیٰ اور بہتر ہے۔ ([106])
اور الاختیارات الفقہیۃ میں فرماتے ہیں :گناہ کرنے اور ذکر کو چھونےکے بعد وہ ( امام ابن تیمیہ رحمة الله عليه)وضو کرنا مستحب قرار دیتے ہیں ،جب کہ ذکر کو چھونے سے تحریک شہوت ہو،اور اگر تحریک شہوت نہ ہو تو انہیں ترددہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کے پیشاب و پاخانہ کو صاف کرتے وقت اگر ماں یا کسی اور کا ہاتھ اس کی شرمگاہ سے مس ہوجائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ مس ذکر سے وضو نہیں ٹوٹتا صرف دوسرا وضو کرنا مستحب ہے، اس لئے ماں وغیرہ کے چھوٹے بچوں کا پیشاب یا پاخانے کو صاف کرنے یا چڈی پہناتے وقت ا ن کی شرمگاہ سے ہاتھ لگ جانے، اسی طرح باپ یا کسی اور کے چھوٹے بچے کو چڈی اور پاجامے کے بغیر گود میں اٹھا لینے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، زیادہ سے زیادہ ایسی صورت میں وضو کرلینے کو مستحب کہا جاسکتا ہے۔
(٢) تطبیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ بسرہ رضي الله عنها کی حدیث :”جو ذکر چھولے جب تک وضو نہ کرے نماز نہ پڑھے “کو شہوت کے ساتھ چھونے پر محمول کیا جائے، اور طلق بن علی رضي الله عنه کی حدیث : ”ذکر تو جسم کا ایک ٹکڑا ہے“ کو بغیر شہوت سے چھونے کی صورت پر محمول کیا جائے ،اور کہا جائے کہ شہوت کے ساتھ شرمگاہ چھونا ناقض وضو ہے اور بغیر شہوت کے چھونا ناقض وضو نہیں، تطبیق کی اس صورت کوعلامہ البانی رحمة الله عليه وغیرہ نے اختیار کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں :”میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان :”وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے“ میں اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ چھونا، جووضو کا موجب نہیں، ایسا چھونا ہے جس کے ساتھ شہوت نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت میں مس ذکر کو جسم کے دوسرے عضو کے چھونے سے تشبیہ دینا ممکن ہے، برخلاف اس کے جب شہوت سے چھوا ہے، کیونکہ ایسی حالت میں ذکر کا چھونا جسم کے شہوت کے ساتھ چھونے کی طرح نہیں ہوتا ،اور یہ معاملہ بالکل واضح ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، بنا بریں یہ حدیث حنفیہ کے لئے دلیل نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مس ذکر قطعا ناقض وضو نہیں ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بغیر شہوت کے چھونا ناقض وضو نہیں ہے ،اور بسرہ رضي الله عنها کی حدیث کی دلیل ہونے کی وجہ سے جب چھونے میں شہوت ہو تو ناقض ہے ،اس طرح سے دونوں حدیثوں میں تطبیق ہوجائے گی۔([107])
تطبیق کی اس دوسری صورت میں بھی وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ ماں وغیرہ خواتین جو چھوٹے بچے کی گندگی صاف کرتی ہیں وہ اس کی شرمگاہ کو شہوت سے نہیں چھوتی ہیں، اسی طرح باپ وغیرہ بھی جو چھوٹے بچوں کو گود میں لیتے ہیں ان کی نیت ایسی نہیں ہوتی ہے، اس واسطے ان کا وضوبھی نہیں ٹوٹے گا۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
” اگر عورت بچے یا بچی کو صاف ستھرا کرتے وقت شرمگاہ کو چھوئے تو اس پر دوبارہ وضو واجب نہیں ہے، صرف اپنےہاتھ دھولے گی، کیونکہ شہوت کے بغیر شرمگاہ کا چھونا وضو کو واجب نہیں کرتا ،اور ظاھر ہے کہ عورت کے دل میں اپنی اولاد کی شرمگاہ کو دھوتے وقت شہوت کا شائبا نہ بھی پیدا نہیں ہوگا، پس عورت پرکسی بچے یابچی کی نجاست زائل کرنے کے سبب وضو واجب نہیں ہے ۔([108])
علاوہ ازیں اگر چھوٹے بچوں کی شرمگاہ سے ہاتھ لگ جانے کو مطلقا ناقض وضو مان لیں تو اس میں حرج اور مشقت بھی ہے ،کیونکہ بچے بسا اوقات چڈی اور پاجامہ پہنے بغیر کھیلتے رہتے ہیں اور کھیلتے کھیلتے اچانک کسی وجہ سے رونے اور چلانے لگتے ہیں اور ماں فوراً ان کو اٹھا کر چپ کرانے اور دودھ وغیرہ پلانے لگتی ہے ،کیونکہ اگر وہ پہلے چڈی وغیرہ پہنانے کے چکر میں پڑے تو بچہ مزید چیخنے چلانے لگتا ہے، اسی طرح پاجامہ اور چڈی پہناتے وقت عموماً بچہ کی شرمگاہ سے ہاتھ مس ہوجاتا ہے اور اس کو ناقض وضو ماننے کی صورت میں کافی تکلیف ہوگی، اور اسلام میں حرج ومشقت نہیں ہے ،بلکہ وہ رفع حرج کی تعلیم دیتا ہے، اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
﴿ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ ([109])
اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں۔
اور فرمایا :﴿ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ﴾ ([110])
اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا۔
مختصر یہ کہ باوضو عورت کا ہاتھ بچے کو صاف ستھرا کرتے وقت یا کپڑا بدلتے وقت اگر اس کی شرمگاہ سے لگ جائے ،یا کوئی شخص ایسے بچے کو اٹھالے جس نے چڈی نہیں پہنی ہوئی ہے تو صرف اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا اور دوسرا وضو کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ اگر غلاظت صاف کرتے وقت ہاتھ میں گندگی لگ جائے تو اس کا دھونا ضروری ہے۔
کیا پاجامہ یا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال(33- 220):کیا پاجامہ یا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟دلیل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب:پاجامہ اور تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سخت ممانعت ہے، اور کبر ونخوت سے ایسا کرنے والوں کے لئے احادیث میں بڑی وعید وارد ہے،اور ایک حدیث میں اس سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بھی تذکرہ ہے،سنن ابی داودمیں حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ایک آدمی اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا،رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا:جا کر وضو کر،اس نے جاکر وضو کیا،پھر آیا تو آپ نے فرمایا:جا کر وضو کر،اس نے جاکر وضو کیا اور پھر آیا تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں دیا؟آپ نے فرمایا:وہ تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا،اور اللہ تعالیٰ تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتا۔([111])
یہ حدیث مسند احمد([112])میں بھی ہے ،مگر حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه کے بجائے اس میں”عن بعض اصحاب النبی“ ہے، اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو تہبند یا پاجامہ کے ٹخنے سے نیچے لٹکانے سے وضو کے ٹوٹنے کا مسئلہ بالکل واضح اور قطعی ہوجاتا،مگر اس کی سند میں ایک راوی ابو جعفر الانصاری المدنی المؤذن ہیں،جن کو ابن القطان نے مجہول اور حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے ”مَقبُولٌ مِنَ الثَّالِثَةِ “ ([113])کہا ہے، اس واسطے بعض علماء نے اس کی تصحیح کی ہے اور بعض نے تضعیف، علامہ البانی رحمة الله عليه اس کی تضعیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”إسناده ضعيف، فيه ابو جعفر، وعنه يحی بن کثير، وهو الانصاري المدني المؤذن، وهو مجهول کما قال ابن القطان،وفي التقريب: انه لين الحديث. قلت: فمن صحح اسناد الحديث فقد وَهم“([114])
بہر حال حدیث کی سند میں کلام ہونے کی وجہ سے ٹخنے سے نیچے تہبند وغیرہ لٹکانے کو ناقض وضو کہنا مشکل ہے،مگر بلا شبہ یہ بڑا عظیم گناہ ہے، اس واسطے اس سے ہر حالت میں عموماً اور نماز کی حالت میں خصوصاً اجتناب کرنا چاہئے۔
فتاوی ثنائیہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة الله عليه کا اسی طرح کے سوال کا جواب یہ ہے:”ٹخنے کے نیچے پائجامہ رکھنا ممنوع ،مگر نماز یا وضو باطل نہیں ہوتا“۔([115])
اس پر کوئٹہ کے کسی صاحب نے تعاقب کیا ہے ،اور مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں”اس حدیث کو امام مسلم بھی اپنی صحیح میں لائے ہیں“
حالانکہ یہ حدیث صحیح مسلم میں کہیں نہیں ہے،اگر صحیح مسلم میں یہ حدیث ہوتی تو مسئلہ صاف ہی ہو جاتا۔
کیا اسبال ازار ناقض وضو ہے؟
سوال(34- 221): کیا اسبال ازار ( ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا) ناقض وضو ہے ؟ جیسے کہ ابوداود کی روایت سے پتہ چلتا ہے ۔
جواب:اسبال ازار کو جو لوگ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ناقض وضو مانتے ہیں ، ان کا یہ استدلال درست معلوم نہیں ہوتاہے،کیونکہ وہ حدیث ضعیف ہے، اس کو امام ابو داود رحمة الله عليه نے حدثنا موسی بن اسماعيل حدثنا ابان حدثنا يحيی عن ابي جعفر عن عطاء بن يسار عن ابي هريرة کے طریق سےاس طرح روایت کیا ہے :
”قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّى مُسْبِلاً إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّه!ِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنَّ يَتَوَضَّأَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّى وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لاَ يَقْبلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ“([116])
یعنی ایک شخص اسبال ازار کئے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: جاؤ اور وضو کر و، وہ گیا اور وضو کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جا ؤ اور وضو کرو ، وہ گیا اور وضو کیاپھر آپ ﷺ کے پاس آیا آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا : جاؤ اور وضو کرو ، وہ گیا اور وضو کیا ، پھر رسول اللہﷺ کے پاس آیا ، ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں دیا ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:وہ اسبال کئے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا ، اور اللہ رب العالمین ایسے آدمی کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اسبال کئے ہوئے ہو ۔
اس حدیث کی سند میں ابو جعفر نامی ایک راوی ہے جس کے بارے میں امام منذری رحمة الله عليه اپنی ”مختصر“ میں فرماتے ہیں : وہ مدینہ میں ایک غیر معروف (مجہول) شخص ہے ،([117]) اور مجہول شخص کی روایت ضعیف مانی جاتی ہے ۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ ابو جعفر المؤذن ہے ،جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے : ”مَقبُولٌ مِنَ الثَّالِثَةِ “کہا ہے ، مگر اس کی و جہ سے بھی حدیث کو صحیح نہیں کہہ سکتے، کیونکہ حافظ ابن حجررحمة الله عليه کے ”مقبول“ کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی متابعت کوئی دوسرا راوی کرے تب مقبول ہے ، اور اس مسئلہ میں کوئی متابعت نہیں ، بعض لوگوں نے اس کی متابعت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه کی یہ حدیث :
”مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَهُ فِى صَلاَتِهِ خُيَلاَءَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِى حِلٍّ وَلاَ حَرَامٍ“([118])
ذکر کی ہے ، مگر اس حدیث میں اس کے ناقض وضو ہونے کا تذکرہ نہیں ، اس واسطے اس کو متابعت کہنا درست نہیں ۔
اسی طرح ” الخلاصہ“میں جو ترمذی کی ”تحسین“ کا ذکر ہے وہ بھی اس کی تحسین کے لئے کافی نہیں، کیونکہ امام ترمذی رحمة الله عليه کا اس باب میں متساہل ہونا معروف و مشہور ہے ، نیز”الخلاصہ “میں ابو جعفر کے اساتذہ میں صرف ابو ہریرہ رضي الله عنه اور شاگردوں میں صرف یحیی بن ابی کثیر کا ذکر ہے ،جس سے ابو جعفر کی جہالت ختم نہیں ہوتی ، ریاض الصالحین(ص278) میں امام نووی رحمة الله عليه کا اس بارے میں ”رواه ابوداود باسناد صحيح علی شرط مسلم“ کہنا بھی محل نظر ہے ، کیونکہ ابو جعفر مسلم کے رواۃمیں سے نہیں ہیں ، غالبا انہی وجوہ و اسباب کی بناء پر علامہ البانی رحمة الله عليه نےاس کو ”ضعیف “قرار دیا ہے ، اور ضعیف ابوداود میں ذکر کیا ہے ۔([119] )
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ”ضعیف “ہے ،ا س واسطے اسبال کو ناقض وضو کہنا صحیح نہیں معلوم ہوتا،البتہ اسبال ازار کی مطلق حرمت کے سلسلے میں صحیح احادیث موجود ہیں ، اس لئے اس سے ہر حالت میں بچنا ضروری ہے، خاص طور سے نماز کی حالت میں۔
سر کے بال کھل جانے سے عورت کا وضو نہیں ٹوٹتا
سوال(35- 222): ہمارے یہاں مشہور ہے کہ وضو کرنے کے بعد اگر عورت کا دوپٹہ سر سے سرک جائے اور سر کے بال نظر آجائیں تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ،اوراس کو دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھنی چاہئے،کیا یہ بات درست ہے اور اس کی کوئی دلیل ہے؟
جواب:عورت کے سر سے دوپٹہ سرک جانے اور بال نظر آجانے سے وضو ٹوٹنے کی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گذری ،اور نہ اس طرح کا قول کسی امام کا ہی میں نے دیکھا ہے، اور میری رائے میں یہ بات بالکل بے اصل اور غلط ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضي الله عنها کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیا اور پھر بغیر وضو کئے ہی نماز کے لئے چلے گئے۔(رواه أحمد([120])والأربعة([121])بسند رجاله ثقات)
انہی کی دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بوسہ لینے سے نہ وضو ٹوٹتا ہے نہ روزہ“۔(اخرجه اسحاق بن راهويه ([122])، وقال عبد الحق: لا اعلم له علة توجب تركه([123]))
اور ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضي الهه عنها فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے بستر پر نہیں پایا تو آپ کو تلاش کرنے لگی،اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے میں نے اپنا ہاتھ آپ کے دونوں پاؤں پر رکھ دیا جنہیں آپ سجدہ کی حالت میں کھڑا کئے ہوئے تھے۔(رواه مسلم([124])والترمذي ([125]))
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت وضو کے بعد اپنے شوہر کو چھولے یا مرد اپنی بیوی کو چھولے یا اس کا بوسہ لے لے تو اس سے میاں بیوی میں سے کسی کا وضو نہیں ٹوٹتا، اور جب بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر صرف دوپٹہ سرک جانے اور بال نظر آجانے سے کیسے وضو ٹوٹ جائے گا؟
بچے کو دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
سوال(36- 223): کیا بچے کو دودھ پلانے سے عورت کا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: بچے کو دودھ پلانے سے عورت کا وضو نہیں ٹوٹتا، ادلۂ شرعیہ اور کتب احادیث وفقہ میں جہاں نواقض وضو (یعنی جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) کا بیان ہے وہاں پر اس کو نواقض وضو میں نہیں ذکر کیاگیا ہے، اور اگر یہ ناقض وضو ہوتا تو اس کا ذکر کتب احادیث و فقہ میں نواقض کے باب میں ضرور ہوتا، کیونکہ عہد نبوی میں بھی عورتیں بکثرت اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں اور اس امر میں مبتلا ہوتی تھیں، اگر یہ ناقض وضو ہوتا تو اس کے بیان کرنے کی ضرورت تھی،اوررسول اللہ ﷺ اسے ضروربیان فرماتے، کیونکہ ”تاخير البيان عن وقت الحاجة لايجوز“کما تقرر في اصول الفقه،یعنی ضرورت کے وقت سے بیان وتشریح کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے ، جیسا کہ اصول فقہ میں مقرر ہے۔
باب الغسل (غسل کا بیان)
جنبی کے لئےشرم کی وجہ سے غسل ترک کرناجائز نہیں
سوال(37- 224):اگر فجر کے وقت کوئی جنبی شرم کی وجہ سے غسل نہ کرے اور صرف وضو کر کے نماز پڑھ لے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: نہیں ، یہ جائز نہیں، کیونکہ جنبی پر غسل فرض ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا﴾ ([126])
اگر تم جنبی ہو تو غسل کرو ۔
اور حق کے معاملہ میں شرم نہیں کرنا چاہئے ، حضرت ام سلیم رضي الله عنها کو جب یہ پوچھنا ہوا کہ احتلام سے عورت پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟ تو انہوں نےکہا :” يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟“ اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالی حق سے نہیں شرماتا ہے، کیا عورت کو جب احتلام ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ “ہاں ،جب وہ پانی دیکھ لے۔ (رواه الشيخان([127]) وغيرهما)
یعنی جب احتلام میں منی خارج ہوجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضي الله عنها انصاری عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی تھیں:
”نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ، لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ“([128])
انصار کی خواتین کیا ہی اچھی ہوتی ہیں کہ حیا انہیں دینی مسائل کے سمجھنے سے مانع نہیں ہوتی ہے ۔
اس واسطے دین کے معاملات میں (خواہ انہیں پوچھنا ہو یا عمل کرنا ہو )شرم نہیں کرنا چاہئے ، اس میں شرم محمود نہیں بلکہ مذموم ہے ، اور جس نے جنبی ہوتے ہوئے بغیر غسل کے صرف وضو کر کے نماز پڑھ لی اس کی نماز نہیں ہوگی ، اسے نماز دہرانا پڑے گا۔
بغیر غسل کئے جنبی کے نماز پڑھنے کا حکم
سوال (38- 225): اگر فجر کے وقت کوئی جنبی شرم کی وجہ سے غسل نہ کرے اور صرف وضو کرکے نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟
جواب: نہیں ،کیونکہ صحت نماز کے لئے حدث اصغر اور حدث اکبر سے طہارت شرط ہے، حدیث نبوی ہے:
”لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاَةً بِغَيْرِ طُهُورٍ“(رواه ابن ماجه([129]))
اللہ تعالی کسی نماز کو بغیر طہارت کے قبول نہیں فرماتا۔
اور جنبی پر غسل فرض ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا﴾ ([130])
اگر تم جنبی ہو تو غسل کرو۔
اور حق کے معاملہ میں شرم کرنا درست نہیں ،حضرت ام سلیم رضي الله عنها کو جب یہ پوچھنا ہوا کہ احتلام سے عورت پر غسل واجب ہوتاہے یا نہیں ؟تو انہوں نے کہا :”يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟“اے اللہ کے رسول !اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا ہے ، کیا عورت کو احتلام ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہے ؟آپ نے فرمایا: ”نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ“ہاں، جب وہ منی کو دیکھ لے ۔ (رواه الشيخان ([131])وغيرهما)
یعنی جب احتلام میں منی خارج ہوجائے تو غسل واجب ہو جاتاہے ۔
بہر حال دینی امور اور فرائض و واجبات کی ادائیگی میں شرم نہیں کرنا چاہئے، اور جس نے شرم کی وجہ سے غسل نہیں کیا اورویسے نماز پڑھ لی حالانکہ وہ جنبی اور ناپاک تھا تو اس کی نماز نہیں ہوئی ، اسے غسل کرنے کے بعد نماز کا اعادہ کرنا چاہئے۔
احتلام کا خواب دیکھا مگر منی خار ج نہیں ہوئی تو غسل کا حکم
سوال(39- 226):ایک شخص نے رات میں خواب دیکھا کہ اسے احتلام ہو گیا ہے، لیکن جب صبح کو بیدار ہوا تو کپڑے میں کہیں بھی منی نظر نہیں آئی، تو کیا ایسی صورت میں اس کے اوپر غسل واجب ہے؟
جواب:ایسی صورت میں اس کے اوپر غسل واجب نہیں ہے،امام ابن المنذررحمة الله عليه نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اور حضرت ام سلمہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم رضي الله عنها نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کے بارے میں نہیں شرماتا ہے،کیا عورت اگر رات میں جماع وہم بستری کا خواب دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:اگر اسے منی نظر آئے تو غسل واجب ہے۔ (رواه الشيخان([132]) وغيرهما)
اس سے معلوم ہوا کہ احتلام اورہم بستری وجماع کا خواب دیکھنے کی صورت میں اس وقت غسل واجب ہو گا جب حقیقت میں منی کا خروج ہوا ہو، اور اس کا نشان کپڑے یا بدن میں دیکھنے سے مل جائے، ورنہ صرف احتلام کا خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوگا۔
عورت کو خواب میں احتلام ہوا تو اس پر غسل واجب ہے
سوال(40- 227):اگر کسی عورت کو خواب میں احتلام ہوجائےیا حیض آجائے تو کیا اس پر غسل واجب ہے ؟
جواب: اگر کسی عورت کو خواب میں احتلام ہوجائے اور وہ یہ دیکھے کہ خواب میں اس کا شوہر اس کے ساتھ زن و شو کے تعلقات قائم کئے ہوئے ہے یا خواب میں یہ دیکھے کہ اسے حیض آگیا ہے تو دونوں صورتوں میں اس پر غسل واجب نہیں ہے،یہاں تک کہ وہ بیدار ہونے کے بعد منی یا حیض کے خون کو دیکھ لے۔
”عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ امْرَأَةُ أَبِي طَلْحَةَ إِلَىٰ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ:يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا هِيَ احْتَلَمَتْ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ : نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ“(متفق عليه([133]))
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضي الله عنها سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ام سلیم رضي الله عنها ابو طلحہ رضي الله عنه کی اہلیہ نے رسول اللہﷺ کے پاس آکر آپ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالی حق بات کہنے سے حیا نہیں کرتا ، کیا عورت کو جب احتلام ہو جائے تو اس پر بھی غسل فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، جب وہ پانی ( منی ) دیکھے ۔
معلوم ہوا کہ جب تک منی کا خروج نہ ہوجائے محض ہم بستری کا خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح نیند سے بیدار ہونےکے بعد جب تک حیض کا خون نظر نہیں آتا صرف حیض کا خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوگا۔
احتلام یاد نہیں مگر کپڑے میں منی کی تراوٹ موجود ہو تو غسل واجب ہے
سوال(41- 228):ایک شخص کو یاد نہیں کہ اسے رات میں احتلام ہوا ہے، لیکن صبح کو دیکھا تو اس کے کپڑے پر منی کی ترواٹ یا نشان موجود ہے، ایسی صورت میں اس پر غسل واجب ہے یا نہیں؟
جواب:ایسی صورت میں اس پر غسل واجب ہے ،اس واسطے کہ منی کی تراوٹ یا اثر کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو یقینا احتلام ہوا ہے اور منی خارج ہوئی ہے،جو موجب غسل ہے۔
مصنف عبدالرزاق میں زید بن الصلت سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضي الله عنه کے ساتھ جرف گیا، وہاں انھوں نے دیکھا کہ انھیں رات میں احتلام ہوگیا ہے اور بغیر غسل کے فجر کی نماز پڑھ لی ہے ،تو انھوں نے فرمایا:واللہ میرا خیال ہے کہ مجھے رات میں احتلام ہو گیا اور میں نہیں جان سکا اورلا علمی میں میں نے ویسے ہی نماز پڑھ لی ،پھر انھوں نے غسل کیا اور کپڑے میں جہاں جہاں منی نظر آئی وہاں دھویا اور جہاں نہیں نظر آئی وہاں چھینٹے مارے ،پھر اذان اور اقامت کہی اور چاشت کے وقت سورج بلند ہونے پر اطمینان سے نماز پڑھی۔([134])
اسی طرح حضرت عروہ رضي الله عنها سے بھی مروی ہے مگر اس میں انھوں نے یہ بھی کہا :”انھوں نے نماز کا اعادہ کیا مگر مجھے یہ اطلاع نہیں ملی کہ لوگوں نے بھی(جنھوں نے ان کی اقتداء میں فجر کی نماز پڑھی تھی)نماز کو دہرایا“ ۔([135])
اور حضرت شریدرضي الله عنه سے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عمر بن خطاب رضي الله عنه دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارے درمیان ایک نالی تھی،اتنے میں حضرت عمررضي الله عنه نے اپنے کپڑے میں منی دیکھا تو فرمایاکہ :جب سے ہم یہ چربی کھانے لگے ہیں احتلام ہمارے اوپر غالب آگیا ہے،پھر کپڑے میں جومنی نظر آئی اسے دھویا اور غسل کیا اور نماز کا اعادہ کیا۔([136])
دیکھئے کہ حضرت عمررضي الله عنها کو رات میں احتلام ہونا یاد نہیں تھا، مگر صبح کپڑے پر منی دیکھی تو غسل کیا،اورمنی کو کپڑے سے دھویا اور نماز کا اعادہ کیا،اس سے معلوم ہوا کہ اگر احتلام نہ یاد ہو مگر کپڑے یا بدن میں منی نظر آجائے تو غسل واجب ہے۔واللہ اعلم بالصواب.
کیا محتلم کپڑا بدل کر اور کمر سے نیچے کا حصہ دھو کر نماز پڑھ سکتا ہے؟
سوال(42- 229):ایک شخص کو خواب میں احتلام ہو گیا تو کیا وہ فوراً کپڑا بدل کر نماز پڑھ سکتا ہے؟ اور اگر اس نے اپنے بدن میں کسی جگہ منی لگنے نہیں دیا ،پھر کمر سے نیچے کا حصہ دھو ڈالا تو کیا نماز درست ہے یا نہیں ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب:اگر کسی کو احتلام ہو گیا تو خواہ منی بدن میں لگے یا نہ لگے اس پر غسل واجب ہے، بغیر شرعی غسل کے صرف کمر سے نیچے کا حصہ دھو لینے سے نماز نہیں ہوگی ،کیو نکہ اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے:
”إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ “(رواه مسلم([137]))
یعنی انزال منی ہونے کے بعد غسل ضروری ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ “(متفق عليه([138]))
یعنی ام سلیم رضي الله عنها نے کہا کہ اللہ کے رسول! بے شک اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، کیا عورت پر غسل واجب ہے جبکہ اسے احتلام ہو؟ توآپ ﷺنے فرمایا:ہاں جب عورت منی دیکھے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔
بلا وضو غسل جنابت جائز مگر خلاف سنت
سوال(43- 230):ایک ناپاک شخص اگر ندی یا تالاب میں گھس جاتا ہے ،اور وضو کئے بغیر ڈبکی لگا کر نہالیتا ہے تو کیا اس کا یہ غسل کافی ہو جائے گا اور اس کو طہارت حاصل ہوجائے گی ؟
جواب: افضل یہ ہےکہ جنبی ( ناپاک آدمی)پہلے دونوں ہاتھوں کو مٹی یا صابن سے مل کر دھوئے ، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے ہوئے شرم گاہ کو دھوئے ، پھر جیسے نماز کے لئے وضو کرتے ہیں اسی طرح وضو کرے ، پھر انگلیوں کو تر کر کے سر کے بالوں کی جڑوں کو تر کرے ،پھر سر پر تین لپ پانی ڈالے اور اچھی طرح بدن کو بھگو کر نہائے ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضي الله عنها اور حضرت میمونہ رضي الله عنها کی حدیثوں([139]) میں ہے ۔
لیکن اگر شروع میں وضو نہیں کیا مگر غسل جنابت کی نیت سے اس طرح نہایا کہ پورا بدن تر ہوگیا تو آیت کریمہ :
﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا﴾ ([140])
اگر تم جنبی ( ناپاک) ہوجاؤ تو طہارت حاصل کرو۔
کے عموم اور ام سلمہ رضي الله عنها کی حدیث کی بنا پر غسل ہوجائے گا ، اس واسطے جس نےندی یا تالاب میں داخل ہوکر بغیر وضو کے غسل کی نیت سے نہا لیا تو اس کا غسل ہوجائے گا ، البتہ وہ غسل کے افضل طریقے کا تارک ہوگا۔
غسل جنابت کے سلسلہ میں ام سلمہ< کی حدیث
سوال(44- 231): آپ نے صوت الحق اگست کے شمارے میں اپنے ایک فتویٰ میں لکھا ہے کہ اگر جنبی نے غسل کے شروع میں وضو نہیں کیا مگر غسل کی نیت سے اس طرح نہالیا کہ پورا بدن تر ہوگیا تو آیت کریمہ :﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا﴾کے عموم اور حضرت ام سلمہ رضي الله عنها کی حدیث کی بناء پر غسل ہوجائے گا، براہ کرم بتائیے کہ حضرت ام سلمہ رضي الله عنها کی حدیث کون سی ہے؟ کیونکہ ہماری نظر سے ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں گذری ہے۔
جواب:حضرت ام سلمہ رضي الله عنها کی حدیث جس کی جانب مذکورہ بالا جواب میں اشارہ کیا گیا ہے، یہ ہے:
”عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّى امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِى، فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ قَالَ: لاَ، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِى عَلَى رَأْسِكِ ثَلاَثَ حَثَيَاتٍ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ“(رواه أحمد([141]) ومسلم([142])والترمذی([143])وقال: حسن صحيح)
حضرت ام سلمہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ میں نے کہا :اے اللہ کے رسول! میں اپنے سرکی چوٹی بہت سخت باندھتی ہوں تو کیا میں اسے غسل جنابت کے لئے کھولوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں ،تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالو، پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈال کر تر کرو ، اسی سے تمہیں طہارت حاصل ہوجائے گی۔
علامہ ابن رشدرحمة الله عليه بدایۃ المجتہد: کتاب الغسل، الباب الاول فی معرفۃ العمل فی ھذہ الطہارة، المسألۃ الأولی (1/44 )میں حضرت عائشہ رضي الله عنها اور ام سلمہ رضي الله عنها کی ان حدیثوں کو جن کی طرف سابقہ فتوی میں اشارہ کیا ہے اور ام سلمہ رضي الله عنها کی اس دوسری حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”وَلِذَلِكَ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ صِفَةَ الطَّهَارَةِ الْوَارِدَةَ مِنْ حَدِيثِ مَيْمُونَةَ وَعَائِشَةَ هِيَ أَكْمَلُ صِفَاتِهَا، وَأَنَّ مَا وَرَدَ فِي حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ مِنْ ذَلِكَ، فَهُوَ مِنْ أَرْكَانِهَا الْوَاجِبَةِ، وَأَنَّ الْوُضُوءَ فِي أَوَّلِ الطُّهْرِ لَيْسَ مِنْ شَرْطِ الطُّهْرِ إِلَّا خِلَافًا شَاذًّا“
یعنی اسی بنا پر علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت میمونہ و عائشہ رضي الله عنها کی حدیث میں وارد غسل کا طریقہ اس کا اکمل طریقہ ہے ،اور جو ام سلمہ رضي الله عنها کی دوسری حدیث میں وارد ہے وہ اس کے ارکان واجبہ میں سے ہے ،اور ابتدائے غسل میں وضوء کرنا غسل کی شرط میں سے نہیں ہے، سوائے شاذ اختلاف کے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابتداء میں وضوء کے ساتھ غسل کا طریقہ ،غسل جنابت کا افضل واکمل طریقہ ہے ،اور بغیر وضو کے بھی اگر غسل کی نیت سے سارے بدن کو بھگولیا جائے تو غسل ہوجائے گا جیسا کہ بالتفصیل سابقہ فتویٰ میں ذکر کیاجاچکا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب .
ایسے حمام میں غسل کرنا جہاں سے آسمان نظر آتا ہو
سوال(45- 232):میرے گھر میں حمام ہے اس میں کھڑکی ہے اور آسمان دکھائی دیتا ہے ،تو کیااس صورت میں مرد وعورت اس میں غسل کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:اگر اس کھڑکی سے آسمان تو نظر آتا ہے لیکن باہر کے لوگوں کی نگاہیں نہانے والے پر نہیں پڑتی ہیں تو اس میں مرد وعورت نہا سکتے ہیں ،اس میں کوئی حرج نہیں، غسل خانہ کا اس طرح ہونا ضروری نہیں کہ آسمان نظر نہ آئے، صرف پردہ دار ہونا چاہئے،اگر کھلے میدان میں لوگوں کی نگاہوں سے دور اوردرخت وغیرہ کی آڑ میں مردوں اور عورتوں کے لئے قضاء حاجت جائز ہے تو اس قسم کے غسل خانہ میں بدرجہ اولیٰ غسل کرنا جائز ہو گا۔
صحیح بخاری میں”باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ“ میں حضرت موسیٰ عليه السلام اور حضرت ایوب عليه السلام کے خلوت میں بغیر کپڑے کے(عریان)نہانے کا تذکرہ ملتا ہے ،اور ان روایتوں سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ باہر غسل کررہے تھے،خاص طور سے موسیٰ عليه السلام اس وقت جب پتھران کا کپڑا لے کر بھاگا تھا۔
اس واسطے اگر آپ کے گھر کے حمام کی کھڑکی سے آسمان نظر آتا ہے ، مگر اس میں نہانے والے باہر کے لوگوں کو نظر نہیں آتے تو اس میں نہانے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس میں مرد اور عورت دونوں نہا سکتے ہیں ۔
جنبی کے لئے قرآن چھونے کا حکم
سوال(46- 233):جنبی قرآن چھو سکتا ہے یا نہیں؟ائمہ کے اختلافات کے ساتھ بتائیے؟
جواب:جمہور علماء کے نزدیک جنبی کے لئے قرآن کا چھونا جائز نہیں، اور داود ظاہری،ابن حزم،علامہ شوکانی اور شیخ البانی رحمة الله عليه وغیرہ بہت سے علماء کی رائے ہے کہ جنبی کے لئے قرآن کا چھونا جائز ہے، البتہ بعض اسے خلاف اولیٰ کہتے ہیں۔
(١)جمہور کی ایک دلیل آیت کریمہ:﴿لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ﴾([144])ہے، ان کا کہنا ہے کہ ”لَّا يَمَسُّهٗٓ “ میں ضمیر”القرآن“کی طرف لوٹتی ہے اور ”لا یمس“میں خبر بمعنی نہی کے ہے،اور آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ”نہ چھوئیں قرآن کو مگر پاک لوگ“اور پاک لوگ سے مراد غیر جنبی اور غیر حائض ہیں۔
(٢)ان کی دوسری دلیل عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر وبن حزم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ:
”أَنَّ فِي الْكِتَابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللهِ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: أَنْ لاَ يَمَسَّ الْقُرَآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ“(رواه مالك([145]))
یعنی رسول اللہﷺ نے عمرو بن حزم کو جو خط لکھا اس میں یہ بھی تھا کہ ”نہ چھوئے قرآن کو مگر پاک آدمی“۔
اور فریق ثانی میں سے داود ظاہری اور ابن حزم وغیرہ کی دلیل ابن عباس کی وہ مشہور ومتفق علیہ حدیث ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہرقل عظیم الروم کے پاس خط لکھا کہ ”اسلام قبول کر لو ،تمہیں سلامتی حاصل ہو جائے گی اور دوگنا اجر ملے گا،اور اگر تم نے اس سے اعراض کیا تو اریسیین کا گناہ بھی تمہارے اوپر ہوگا“،اور اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی تھا:
﴿ قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ﴾ ([146])
ان کا اس سے استدلال اس طرح ہے کہ جب کافر کے لئے (جو ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے نجس ہے)قرآن کا چھونا جائز ہے تو مسلمان جنبی کے لئے اس کا چھونا بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا۔
اور علامہ شوکانی رحمة الله عليه اور البانی رحمة الله عليه وغیرہما نے اس کے لئے”براء ة اصلیہ“سے استدلال کیا اور کہا کہ اصل جواز ہے جب تک کہ عدم جواز کی صحیح اور واضح دلیل نہ ہو، اورآیت کریمہ: ﴿لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ﴾([147])کا جواب دیا کہ”لا یمسہ“میں ”ہ“کی ضمیر”الکتاب المکنون“ کی طرف لوٹ رہی ہے، جو اقرب مذکور ہے، قرآن کی طرف نہیں ، اور” المطہرون“ سے مراد فرشتے ہیں ،مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اسے فرشتے ہی چھوتے ہیں، اور اس کا تعلق جنبی کے چھونے یا نہ چھونے سے نہیں ہے، اور اگر ”الْمُطَهَّرُوْنَ “سے مراد”عدم نجس“مان لیں تو مومن نجس نہیں ہوتا ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه کی حدیث میں ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے اس حالت میں ہوئی کہ میں جنبی تھا،آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے آپ کے پاس سے اٹھا اور اپنی جائے قیام جاکر غسل کیا ،پھر واپس آیا تو آپ وہیں بیٹھے تھے، آپ نے پوچھا :ابو ہریرہ رضي الله عنها تم کہا ں تھے؟میں نے جنبی ہونے کی وجہ سے جاکر غسل کرنے اور پھر واپس آنے کی بات بتائی تو آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا۔ (متفق عليه([148]))
اس واسطے ”الْمُطَهَّرُوْنَ “سے جنابت،حیض،حدث اصغر اور نجاست بدنیہ سے پاک لوگ مراد لینا صحیح نہیں ہوگا،بلکہ اس سے مراد شرک کی نجاستوں سے پاک یعنی مسلمان ہوں گے،کیونکہ حقیقی نجس مشرک ہی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ ﴾ ([149])
مشرک لوگ نجس ہیں۔
نیز حدیث:”أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ “([150])
یعنی رسول اللہ ﷺ نے دشمن کے ملک میں قرآن لے کر سفر کرنے سے منع کیا۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ” الْمُطَهَّرُوْنَ “ کہہ کر مشرکین کو مستثنی کیا گیا ہے،اسی طرح حدیث:
”لاَ يَمَسَّ الْقُرَآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ“
میں بھی طاہر سےمراد مومن لیا گیا ہے۔
اس لئے کہ طاہر کا لفظ مشترک ہے ،اس کا اطلاق مومن ،غیر جنبی اور غیر محدث حدث اصغر، سب پر ہوتاہے،اور جب تک کسی کی تعیین کے لئے کوئی دلیل نہ ہو وہ اپنے معنی میں مجمل ہو گا ،اور یہاں حدیث:”إِنَّ الْمُؤْمِنَ لاَ يَنْجُسُ“سے اس کی تعیین ہوگئی ہے کہ طاہر سے مراد مومن ہے،یعنی مشرک کو قرآن کے چھونے کی اجازت اور موقع نہیں دیا جائے گا،جیسا کہ حدیث:
”أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ“
سے معلوم ہوتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر طاہر سے مراد”غیر مشرک“ہے اور مسلمان بہر صورت قرآن چھو سکتا ہے اور صرف مشرک کے لئے قرآن کا چھونا جائز نہیں، تو ابن عباس رضي الله عنهما کی حدیث جس سے داود ظاہری وغیرہ نے استدلال کیا ہے اس کا کیا جواب دیں گے؟
تو امام شوکانی رحمة الله عليه کہتے ہیں :
اسے ایک دو آیتوں کے ساتھ خاص مان لیا جائے گا ،یعنی اتنی مقدار میں مشرک کو دعوت وتبلیغ وغیرہ کی غرض سے قرآن چھونے اور پڑھنے کا موقع دیا جائے گا،یا یہ کہا جائے کہ جب آیات قرآنیہ دوسروں کے کلام کے ساتھ مختلط ہوں تو کافر کے لئے کتب تفسیر وغیرہ کی طرح ان کا چھونا بھی حرام نہیں،اور یہاں خط میں آیات دوسرے کلام کے ساتھ مختلط تھیں“۔ تفصیل کے لئے دیکھئے المغنی:1/98 ، فتح الباری:1/408 ،نیل الاوطار:1/260-261 ،مرعاة المفاتیح:2/159، المحلی:1/102، تمام المنۃ: ص١٠٧.
خلاصہ یہ ہے کہ جمہور نے ”طاہر “سے کفر کی نجاست کے ساتھ جنابت اور حیض ونفاس کی نجاست سے بھی پاک مراد لیا ہے،جبکہ علامہ شوکانی اور البانی رحمة الله عليهم وغیرہ نے صرف کفر کی نجاست سے پاک مراد لیا ہے،اور داود ظاہری اور ان کے متبعین کے نزدیک چونکہ حدیث ضعیف ہے، اور آیت کریمہ میں”الْمُطَهَّرُوْنَ “ سے مراد فرشتے ہیں اسی واسطے ابن عبا س رضي الله عنهما کی حدیث کی بناء پر سب کے لئے قرآن کو چھونے کی اجازت دیتے ہیں حتی کہ کافر کے لئے بھی۔
میری رائے میں قرآن کریم کے احترام اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے جنبی کو حتی الامکان قرآن کو چھونے سے اجتناب کرنا چاہئے، اور اگر پڑھنا چاہتا ہے تو اسے جلد از جلد غسل کر لینا چاہئے،اور مرض وغیرہ کی طرح کا کوئی عذر یا مجبوری ہو تو تیمم کر لے ،لیکن اگر کسی نے چھولیا تو اسے مرتکب حرام نہیں،بلکہ تارک اولیٰ کہا جائے گا۔
اور اگر جنبی کوئی حافظ ہے تو اسے قرآن چھونے کی خاص طور سے جنابت کی حالت میں کوئی ضرورت نہیں۔
اسی طرح حائضہ بھی حتی الامکان قرآن کو نہ چھوئے اور بدرجہ مجبوری اس کو اٹھانا پڑے تو جزدان یا غلاف کا وہ حصہ پکڑ کر اٹھائے جو لٹکانے کے لئے ہوتا ہے،صحیح بخاری میں ہے:
”وَكَانَ أَبُو وَائِلٍ يُرْسِلُ خَادِمَهُ وَهْيَ حَائِضٌ إِلَى أَبِي رَزِينٍ فَتَأْتِيهِ بِالْمُصْحَفِ فَتُمْسِكُهُ بِعِلاَقَتِهِ“([151])
حضرت ابو وائل اپنی خادمہ کو حالت حیض میں ابو رزین کے پاس قرآن مجید لانے کے لئے بھیجتے اور وہ قرآن کا نیفہ(لٹکانے کی رسی)پکڑ کر لادیتی تھی۔
اگر معلّمات وغیرہ کو کوئی آیت ضرورت کے وقت دیکھنا اور اس کی تفسیر کرنا ہو تو کسی پاک طالبہ سے قرآن کھلواکر آیت دیکھ لیں ،یا بورڈر پر لکھوا کر اس کی تفسیر وتشریح کردیں،لیکن اگر کسی نے بدرجۂ مجبوری قرآن کو چھو لیا یااسے کھول کر کسی آیت کو دیکھ لیا تو اسے حرام کے بجائے خلاف اولی کہنا چاہئے۔
باب التیمم ( تیمم کے مسائل)
پانی نہ ملنے یا بیمار ہونے کی صورت میں جنبی کے لئے تیمم کا جواز
سوال(47- 234):اگر جماع کے بعد پانی نہ ملے یا پھر جماع کرنے والا یا والی بیمار ہو اور پانی کے استعمال سے اسے نقصان پہونچتا ہو تو ایسی حالت میں وہ کیا کرے؟
جواب:ایسی صورت میں یہ لوگ تیمم کرلیں ،یہی ان کے لئے کافی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾([152])
یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت کر کے آیا ہو،یا تم نے عورتوں سے مجامعت کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو تم پاک زمین کا قصد کرو پھر اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لو(یعنی تیمم کرو)بیشک اللہ معاف کرنے والا،بخشنے والا ہے۔
اور حضرت عمران بن حصین رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے،آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی،پھر دیکھا تو ایک شخص جماعت سے علاحدہ بیٹھا ہے،آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا چیز تمہیں نماز پڑھنے سے مانع ہوئی؟اس نے کہا: مجھے جنابت لاحق ہوگئی ہے اور پانی نہیں ہے،آپ نے فرمایا:پاک مٹی سے تیمم کر لو یہی تمہارے لئے کافی ہے۔(متفق عليه([153]))
اورحضرت عمرو بن عاص رضي الله عنه غزوہ ذات السلاسل میں گئے اور ایک سخت سرد رات میں انھیں احتلام ہو گیا اور وہ ڈرے کہ اگر غسل کریں تو کہیں ہلاک نہ ہو جائیں،اس لئے انھوں نے تیمم کر لیا اور اسی تیمم سے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھائی،جب مدینہ واپس آئے تو لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کا تذکرہ کیا،آپ ﷺ نے فرمایا:اے عمرو!تم نے اپنے ساتھیوں کو حالت جنابت میں نماز پڑھادی؟انھوں نے کہا:مجھے اللہ تعالیٰ کا قول:﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾([154]) اپنے نفس کو قتل نہ کرو اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے ،یاد آیا تو میں نے تیمم کرلیا اور پھر نماز پڑھ لی ، آپ ﷺ یہ سن کر ہنسے اور کچھ نہیں کہا۔(رواه أحمد([155])وابوداود([156])والدار قطني([157]))
اور حضرت ابن عباس رضي الله عنهما ،جابر بن زید،حسن بصری،سعید بن المسیب، قتادہ، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ، امام شافعی،امام احمد بن حنبل،اسحاق،داود ظاہری،ابن حزم رحمة الله عليهم اور جمہور محدثین نے تو جس کے پاس پانی نہ ہو،یاجو مریض ہو اور پانی کے استعمال سے اس کو نقصان پہونچتا ہو اس کو بھی مجامعت کی بلا کراہت اجازت دی ہے،اگرچہ ترک جماع سے اسے گناہ یا پریشانی لاحق ہونے کا خدشہ نہ ہو ،کیونکہ حضرت ابوذررضي الله عنه نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میں پانی سے دور رہتا ہوں ، میرے پاس بیوی ہے اور مجھے جنابت ہو جاتی ہے،تو کیا میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لوں؟آپ نے فرمایا:پاک مٹی(یعنی اس سے تیمم کرنا) طہارت ہے۔(رواه احمد([158]) وابوداود([159]))
اور حضرت ابن عباس رضي الله عنهما نے پانی نہ ہوتے ہوئے اپنی ایک رومی لونڈی سے مجامعت کی اور تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو جن میں حضرت عماررضي الله عنه بھی تھے نماز پڑھائی اور کسی نے انکار نہیں کیا۔
علامہ ابن قدامہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ایسی صورت میں اگر زوجین نے مجامعت کی اور پھر اتنا پانی انھیں ملا جس سے وہ شرمگاہ دھو سکتے ہیں تو شرمگاہ دھو لیں گے اور تیمم کرلیں گے،اور اگر اتنا بھی پانی نہ پائیں تو جنابت،حدث اصغر اور نجاست سب کے لئے تیمم کر لیں گے اور نماز پڑھیں گے۔([160])
مختصر یہ کہ جس قدر استعمال کے لئے پانی پائیں گے ،یا جتنا استعمال کرنے سے ضرر لاحق نہیں ہو گا اتنا استعمال کریں گے اور باقی کے لئے تیمم کریں گے۔
سخت سردی میں غسل کرنے سے بیمار پڑنے کا خطرہ ہوتو تیمم کا حکم
سوال(48- 235): کبھی زیادہ دنوں کے بعد بیوی کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے تو صبر کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر سردی کا موسم ہوتا ہے اور سخت سردی پڑتی ہے کہ اگر نہا لیں تو بیمار پڑنے کا خطرہ رہتا ہے، کیا ایسی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ایسی صورت میں آپ کو پانی گرم کر کے نہانا چاہئے، اس سے تکلیف نہیں ہوگی، البتہ کہیں سفر وغیرہ میں ہوں اور پانی گرم کرنے کے لئے لکڑی وغیرہ نہ ملے اور نہ ہی گرم پانی ملے اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کی صورت میں بیمار پڑنے کا خطرہ ہو تو تیمم کر سکتے ہیں، ایک صحابی نے ایسا کیا تھااور رسول اللہ ﷺ کے پوچھنے پر آیت کریمہ : ﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾([161]) پڑھ کر اپنے عذر اوربیمار پڑنے کے خدشہ کا اظہار کیا تو آپﷺ مسکرا کر رہ گئے، اور دوبارہ غسل کرکے نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا، جس سے معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
شرم کی وجہ سے غسل کے بجائے تیمم کر کے نماز ادا کرنا
سوال(49- 236): میں ایک نوکری پیشہ آدمی ہوں اور اس سلسلے میں عموما گھر سے دو رہتا ہوں ،کبھی چھٹی میں گھر آتا ہوں تو بیوی کو لانے اس کے مائکے جاتا ہوں اور وہاں ایک دو روز رکنا بھی پڑتا ہے، چونکہ طویل مدت سے بیوی سے دور رہتا ہوں اس واسطے رات میں جب دونوں ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں تو صبر کرنا مشکل ہوتا ہے اور ہم بستری کر لیتے ہیں، مگر فجر سے پہلے ہی ساس، سسر، سالے اور سالیوں کے درمیان ہوتے ہوئے نہانے میں شرم محسوس ہوتی ہے ،کیا ایسی صورت میں تیمم کر کے نمازفجر پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ایسی صورت میں آپ تیمم کر کے نماز نہیں پڑھ سکتے ،آپ پر غسل کرنا واجب ہے ،اور آپ کو غسل جیسے دینی امور میں شرم نہیں کرنا چاہئے ”إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِى مِنَ الْحَقِّ “([162]) اللہ تعالیٰ حق کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا ہے ۔
البتہ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ رات میں ہم بستری کے بعد ہی جب سب سو رہے ہوں اٹھ کر غسل کرلیں ،یا باہر کہیں ندی یا تالاب ہو تو وہاں جاکر چپکے سے نہا لیں، مگر نہانا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی، یہ تیمم کے لئے عذر شرعی نہیں ہے۔
تیمم کے لئے مریض کا دوسرے سے مدد لینا
سوال(50- 237): ایک شخص اس قدر بیمار ہے کہ حرکت نہیں کرسکتا ،اور وضو کے لئے پانی کا استعمال اس کے لئے ممنوع ہے، اور یہ خود سے تیمم بھی نہیں کرسکتا ہے تو کیا کوئی دوسرا شخص جیسے اس کا بیٹا یا بھائی اپنے ہاتھ سے اسے تیمم کراسکتا ہے؟
جواب: ایسی صورت میں دوسرا شخص اس کو تیمم کراسکتا ہے، جیسے اگر کوئی شخص خود سے وضو نہ کرسکتا ہو مگر پانی کا استعمال اس کے لئے ممنوع نہ ہو تو دوسرا شخص اسے وضو کراسکتا ہے، اسی طرح دوسرا شخص تیمم بھی کراسکتا ہے، چنانچہ یہ شخص تیمم کرانے کی نیت سے اپنے دونوں ہاتھوں کو پاک زمین یا مٹی پر مارے گا، اور ان پر پھونک مارنے کے بعد انھیں مریض کے چہرے اور پھر دونوں ہتھیلیوں پر پھیرے گا، اگر مریض کے ہاتھوں کو زمین پر مارکر انھیں اس کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر پھیر سکے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا،یاد رہے کہ مریض کے لئے تیمم کی نیت کرنا ضروری ہے۔
تیمم کر کے نماز پڑھنے والا اگر دوران نماز پانی پاجائے تو؟
سوال(51- 238):اگر پانی نہ ہونے کی وجہ سے ایک شخص نے تیمم کر کے نماز شروع کی اور نماز کے دوران ہی پانی آگیا تو وہ نماز کو چھوڑ کر وضو کرے اور پھر از سر نو نماز پڑھے یا نماز مکمل کرلے؟ اور اس کی نماز صحیح ہو جائے گی؟
جواب:اگر دوران نماز پانی آجائے تو نماز کو توڑ دینا چاہئے، اور وضو کر کے پھر سے نماز پڑھنی چاہئے، کیونکہ پانی آتے ہی اس کا تیمم ٹوٹ گیا ،اور بغیر وضو اور تیمم کے نماز درست نہیں، حضرت ابو ذر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
”إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ“(رواه أحمد([163]) والترمذي([164])وصححه)
پاک مٹی مسلمان کے لئے مطہر ہے ،اگر چہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے،پھر جب وہ پانی پاجائے تو اس کو اپنے چمڑے سے مس کرے (یعنی وضو یا غسل جس کی ضرورت رہی ہو کرے)کیونکہ یہی خیر ہے۔([165])
تیمم کر کے نماز پڑھنے کے بعد پانی مل جائے تو نمازکا اعادہ واجب نہیں
سوال(52- 239):اگر کسی نے پانی نہ ہونے کی وجہ سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور پھر ابھی وقت باقی ہی تھا کہ پانی دستیاب ہو گیا تو وہ وضو کر کے نماز کا اعادہ کرے گا؟یا پہلے جو تیمم سے نماز پڑھی ہے وہی کافی ہے؟
جواب:ایسی صورت میں اس کی پہلی نماز ہی کافی ہے اور دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں،حضرت ابو سعید خدری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ دو آدمی ایک سفر میں نکلے،دوران سفر نماز کا وقت آگیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، اس واسطے دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، پھر وقت کے اندر ہی انھیں پانی مل گیا تو ایک نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی اور دوسرے نے نماز کا اعادہ نہیں کیا،پھردونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا،توجس نے نماز نہیں دہرائی تھی اس سے آپ نے فرمایا: ”أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلاَتُكَ “تم کو سنت کے مطابق عمل کی توفیق نصیب ہوئی اور تمہاری نماز تمہارے لئے کافی ہے،اور جس نے وضو کر کے نماز دہرائی تھی اس سے فرمایا:”لَكَ الأَجْرُ مَرَّتَيْنِ “تم کو دو مرتبہ ثواب ملا۔ (رواه ابوداود([166]) والنسائي([167]))
اس سے معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں پہلی نماز کافی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔
باب الحیض والنفاس (حیض و نفاس کے مسائل)
حیض کی اقل اور اکثر مدت
مستحاضہ کس طرح نماز پڑھے اور روزے رکھے؟
سوال(53- 240):حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کیا ہے ؟ اور اگر کسی عورت کو برابر خون آئے اور بندنہ ہو تو وہ کس طرح نماز یں پڑھے اور کیسے روزے رکھے؟
جواب: اس مسئلہ میں میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ حیض کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ دن کی کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے،کیونکہ کسی صحیح حدیث میں اس کی تحدیدوارد نہیں ہے ،اس لئے ہر عورت کو جتنے دن ہرماہ حیض کے خون آتے ہوں اور جتنے دن اس کو برابر خون آنے کی عادت ہو جائے وہی ایام اس کے لئے حیض کے ایام مانے جائیں گے۔
اور اگر کسی عورت کو کبھی کسی وجہ سے اس کی عادت سے زیادہ خون آئے تو جو اس کے حیض کے معتاد ومعلوم ایام میں خون آئے گا ، اس کو وہ حیض شمار کرے گی، اور ان ایام میں وہ نماز روزہ اور وہ چیزیں جو ایام حیض میں ممنوع ہیں اُنہیں نہیں کرے گی، اور اس کے بعد جو زائد ایام میں اس کو خون آئے گا اس کو وہ استحاضہ کا خون شمار کرے گی ، اور غسل کر کے ان ایام میں وہ نماز پڑھے گی ، روزے رکھے گی اور ایام حیض میں جو چیزیں ممنوع تھیں وہ سب اس کے لئے جائز ہوجائیں گی ،حضرت ام سلمہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک ایسی عورت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا جس کو بکثرت خون آتا تھا آپ نے فرمایا:
”لِتَنْظُرْ عِدَّةَ اللَّيَالِى وَالأَيَّامِ الَّتِى كَانَتْ تَحِيضُهُنَّ مِنَ الشَّهْرِ قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهَا الَّذِى أَصَابَهَا فَلْتَتْرُكِ الصَّلاَةَ قَدْرَ ذَلِكَ مِنَ الشَّهْرِ فَإِذَا خَلَّفَتْ ذَلِكَ فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ لِتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ ثُمَّ لْتُصَلِّ فِيهِ“(رواه مالك([168])والشافعي([169])والخمسة([170])الا الترمذي وقال النووي:اسناده علی شرطهما)
یعنی مہینے میں جتنے ایام اور جن ایام میں اسے پہلے حیض آتا تھا غور کرکے ان ایام میں وہ نماز ترک کردے پھر غسل کرکے لنگوٹی باندھ لے اور نماز پڑھے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو معلوم ہو کہ اس کو ہر مہینے کتنے ایام اور کن کن تاریخوں میں حیض آتا ہے اگر اس کو استحاضہ کی شکایت ہوجائے تو وہ اپنے ان معلوم ومعتاد ایام کے خون کو حیض شمار کرے گی اور باقی ایام کے خون کو استحاضہ۔
اور اگر کسی کو اپنے ایام بھول جانے کی وجہ سے یا پہلی مرتبہ حیض کے ساتھ استحاضہ کاخون بھی جاری ہو جانے کہ وجہ سے اپنے حیض کے ایام معلوم نہ ہوں ، جیسے کسی لڑکی کو بلوغت کے بعد پہلی مرتبہ حیض آیااور اس کے بعد کچھ دن خون آنے کے بعد اس کا خون بند نہیں ہوا، بلکہ برابر آتا رہاتو ایسی صورت میں اگر وہ استحاضہ کے خون اورحیض کے خون میں تمیز کر سکتی ہو توجب تک اس کی تمیز اور علم کے مطابق حیض کا خون آئے گا وہ نماز نہیں پڑھے گی ،اور حالت حیض میں جو چیزیں ممنوع ہیں ان سے اجتناب کرے گی، اور جب سمجھے گی کہ حیض کا خون آنا بند ہوگیا اور اب جو خون آرہاہے وہ استحاضہ کا خون ہے تو غسل کرے گی، اور اس کے بعد نماز روزہ شروع کردے گی ،حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ انھیں استحاضہ کی شکایت ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا :
”إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضِ فَإِنَّهُ دَمٌ أَسْوَدُ(وَفِيْ بَعْضِ الرِوَايَاتِ: ثَخِيْنٌ) يُعْرَفُ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِيْ عَنِ الصَّلَاةِ، وَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِيْ وَصَلِّيْ فَإِنَّمَا هُوَ عِرْقٌ“(رواه ابوداود([171])والنسائي([172])وابن حبان([173])والدارقطني([174])وقال: رواته کلهم ثقات،ورواه الحاکم([175]) وقال: علی شرط مسلم )
یعنی حیض کا خون کالاگاڑھا اور بدبو دار ہوتا ہے ،اور عورتیں اس کو پہچان لیتی ہیں، تو جب اس طرح کاخون ہو تو نماز چھوڑ دو اور جب دوسری طرح کا ہو( یعنی کالاکے بجائے سرخ یا پیلا مائل اور پتلا خون ہو تو) غسل کرکے (ہر نماز کے لئے) وضوء کرو اور نماز پڑھو ، یہ ایک رگ (کا خون ) ہے (حیض کا خون نہیں ہے جو رحم سے خارج ہوتا ہے)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت حیض اور استحاضہ کے خون میں تمیز کرسکتی ہو وہ اپنی تمیز کے مطابق عمل کرے گی ،اور ان ایام خون میں وہ نما زنہیں پڑھے گی جن میں خون کو وہ دیکھ کر حیض کے ایام سمجھتی ہے، اور باقی ایام میں خون آنے کے باوجود وہ نمازوغیرہ ادا کرے گی۔
دم حیض کی تمیز میں وہ دوسری تجربہ کار اور ہوشیار عورتوں سے بھی مدد لے سکتی ہے ،حضرت عائشہ رضي الله عنها کے پاس عورتیں کرسف(وہ روئی یا کپڑا جسے عورت حالت حیض میں استعمال کرتی ہے ) ڈبیہ میں رکھ کر بھیجتی تھیں جس میں پیلے رنگ کا پانی لگا رہتا تھا، حضرت عائشہ رضي الله عنها فرماتیں: ابھی جلدی نہ کرو۔ (رواه مالك([176])ومحمد بن الحسن([177])وعلقه البخاري([178]))
اور کسی عورت کو اگر اپنے حیض کے ایام معلوم نہیں اور وہ حیض اور استحاضہ کے خون میں تمیز بھی نہیں کرسکتی ہوتو ایسی صورت میں وہ اپنی عمر اور مزا ج کی عورتوں پر قیاس کرکے انہی کے برابر اپنے حیض کے ایام کو بھی شمار کرے گی ،اور ان ایام میں وہ نماز وغیرہ سے اجتناب کرے گی۔
معلوم رہے کہ عموماً عورتوں کو چھ یا سات دن حیض آتا ہے ، حضرت حمنہ بنت جحش رضي الله عنها کہتی ہیں کہ مجھے استحاضہ کا خون بہت زیادہ آتا تھا ، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کے بارے میں فتوی پوچھنے کے لئے آئی تو آپ نے فرمایا : ”یہ شیطان کا چونکا ہے، اس واسطے تم چھ دن یا سات دن حائضہ رہو، پھر غسل کرو، اور جب پاک و صاف ہوجاؤ تو ٢٣/یا ٢٤/دن نماز پڑھواور روزے رکھو ،اور اسی طرح ہر مہینہ کیا کرو، جیسے عورتیں اپنے حیض اور طہر کے اوقات میں حائضہ اور پاک ہوتی ہیں ۔ (رواه أحمد([179]) وابوداود([180]) والترمذي([181]) وقال: هذا حديث حسن صحيح، وسألت عنه البخاري فقال: حسن([182]))
اس سے معلوم ہواکہ جو مستحاضہ حیض اور استحاضہ کے خون میں تمیز نہ کرسکے اور پہلے سے اس کے حیض کے معلوم و معتاد ایام بھی نہ ہوں وہ اپنے مزاج ،عمر اور خاندان کی اکثر عورتوں کی عادت کو دیکھے گی اور اسی کے مطابق اپنے آپ کو حائضہ مان کر عمل کرے گی۔
ولادت کے بعد عورت کتنے دنوں تک نمازاورروزہ سے اجتناب کرے
سوال (54- 241): بچے کی ولادت کے بعد عورت کتنے دنوں تک نماز نہیں پڑھ سکتی ہے ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل جواب دیجئے۔
جواب : ولادت کے بعد جب بھی عورت کے نفاس کاخون بند ہوجائے وہ غسل کرکے نماز پڑھے اور روزہ رکھے، کیونکہ اقل مدت نفاس کی کوئی حد نہیں ہے ، اور اگر زیادہ دنوں تک خون جاری رہے تو چالیس دن تک روزہ نماز ترک کرے اس کے بعدغسل کر کے نمازپڑھے ، اور روزے رکھے ،اس لئے کہ اکثر مدت نفاس چالیس دن ہے ، اس کے بعد خون آنے کی صورت میں وہ مستحاضہ مانی جائے گی ، حضرت ام سلمہ رضي الله عنها فرماتی ہیں :
”كَانَتْ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَرْبَعِينَ يَوْمًا“(رواه الخمسة([183]) الا النسائي)
یعنی رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نفاس والی عورت (زیادہ سے زیادہ) چالیس روز تک روزہ نماز ترک کرتی تھی ۔
اور حضرت انس رضي الله عنه کی حدیث ہے :
”كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَقَّتَ لِلنُّفَسَاءِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، إِلاَّ أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ“ (رواه ابن ماجه([184]))
یعنی رسول اللہ ﷺ نے نفا س والی عورت کے لئے چالیس دن مقرر فرمایا الا یہ کہ وہ اس سے قبل پاک ہوجائے ۔
اس معنی کی حدیثیں حضرت عثمان بن ابی العاص ، حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے بھی مروی ہیں اور مجموعی طورسے یہ حدیثیں قابل استدلال ہیں ۔ ([185])
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مدت نفاس چالیس دن ہے، اگر اس سے زیادہ دن خون آئے تو عورت مستحاضہ ہوگی، اور روزہ نماز ترک نہیں کرے گی ، بلکہ چالیس دن مکمل ہونےپر غسل کر کے نمازیں پڑھے گی اور روزے رکھے گی ۔
اور اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو غسل کر کے وہ روزے رکھے گی اور نمازیں پڑھے گی، کیونکہ اقل مدت نفاس کی کوئی حد نہیں ہے ،جیسا کہ: ”إِلاَّ أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ“ سے معلوم ہوتا ہے ۔
حالت حیض میں پہنے جانے والے کپڑے میں نماز کا حکم
سوال(55- 242):حیض کی حالت میں عورت جو کپڑے پہنتی ہے کیا وہ کپڑے طہارت کے بعد پہن کر اس میں نماز پڑھ سکتی ہے ؟
جواب: حالت حیض میں عورت نے جو کپڑا پہنا ہے، اگر اس میں حیض کا خون نہ لگا ہو تو طہارت کے بعد اسے بغیر دھوئے پہن کر وہ نماز پڑھ سکتی ہے، اور اگر خون لگا ہو تودھونا ضروری ہے ،بغیر دھوئے اس میں نمازپڑھنا جائز نہیں۔
”عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ { أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيه“([186])
اسماء بنت ابی بکر رضي الله عنهما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے؟آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو ناخن سے اسے کھرچ دے ،پھر پانی سے اسے دھو دے، اس کے بعد اسے پہن کروہ نماز پڑھ سکتی ہے ۔
امام بخاری رحمة الله عليه اس روایت کو ذکرکرنے کے بعدحضرت عائشہ عنها سے اسی معنی کی دوسری روایت بھی لائے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرکپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچنے اور دھونے کے بعد عورت اس میں نماز پڑھ سکتی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب.
حالت حیض و نفاس میں عورت کا برتن اورکھانا الگ کرنا
سوال (56- 243): بعض گھروں میں حیض و نفاس کی حالت میں عورتوں کے برتن علیحدہ کردینے اور الگ کھانے پینے کا انتظام کردینے کا رواج ہے ، کیا یہ درست ہے ؟ دلیلوں کے ساتھ روشنی ڈالیں ۔
جواب : حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے برتن کو علیحدہ کردینا،یا اس کے لئے الگ کھانے پینے کا انتظام کرنا درست نہیں، حضرت انس رضي الله عنه سے روایت ہے کہ یہودیوں کے یہاں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تو یہودی اس کے ساتھ نہ کھانا کھاتے اور نہ اس کے کمرے میں رہتے تھے ، صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين نے مسئلہ دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْض﴾ ([187])
لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ وہ نقصان دہ اور ناپاک چیز ہے ،اس واسطے حیض کی جگہ سے اجتناب کریں ۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” حالت حیض میں جماع کے علاوہ باقی معمول کے تمام تعلقات قائم رکھو“ (رواه مسلم ([188]))
اور حضرت میمونہ رضي الله عنها فرماتی ہیں :
”كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُبَاشِرُ نِسَاءَهُ فَوْقَ الإِزَارِ وَهُنَّ حُيَّضٌ“(رواه مسلم([189]))
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے ازار کے اوپر ،مباشرت اور بوس و کنا رفرمالیا کرتے،اس حال میں کہ وہ حالت حیض میں ہوتی تھی ۔
اور حضرت ام عطیہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ دونوں عیدوں کے دن ہم حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو عید گاہ میں لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز اور دعا میں شرکت کریں البتہ حیض والی عورتیں نماز نہ پڑھیں۔ (متفق عليه([190]))
اس سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سے علاحدگی اختیار کرنا ،یا اس کے کھانے پینےکے برتن کو الگ کرنا درست نہیں بلکہ وہ سب کے ساتھ کھا پی اور بیٹھ سکتی ہے ۔
کیا عورت حالت حیض میں سونے کی دعا ئیں پڑھ سکتی ہے ؟
سوال(57- 244):راتوں کو سوتے وقت معوذتین، سورہ اخلاص ، اور کچھ اوراد ووظائف کے پڑھنے کا حکم ہے ، عورت حالت حیض میں دوسری دعائیں تو پڑھ سکتی ہے، لیکن معوذتین اور سورہ اخلاص قرآن مجید کی سورتیں ہیں، لہٰذا ان کا پڑھنا حالت حیض میں کیسا ہے؟ عورت اس حالت میں انہیں پڑھ سکتی ہے یا نہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں صوت الحق میں جواب سے نوازیں تو عین نوازش ہوگی ۔
جواب : میرے نزدیک عورت حالت حیض میں سوتے وقت دیگراورادو وظائف کے ساتھ معوذتین اور سورہ اخلاص بھی پڑھ سکتی ہے ، کیونکہ حضرت عائشہ رضي الله عنها کی روایت ہے :
”كَانَ النَّبِىُّ ﷺ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ“(رواه مسلم([191]) وابو عوانة([192]))
یعنی رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔
اور ”ہروقت“ میں حالت جنابت بھی داخل ہے ، اور ”ذکر اللہ “ کا عموم آیات قرآنیہ کی تلاوت کو بھی شامل ہے ، ارشاد باری ہے:
﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ ([193])
ہم نے ہی اس ذکر(قرآن )کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اور جب حالت ِجنابت میں قرآن پڑھنا جائز ہوا تو حالتِ حیض میں بھی پڑھنا جائز ہوگا ، اور حائضہ کے لئے قرآن پڑھنے کی ممانعت کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہیں سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ کلام ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
” حائضہ کو قرأت قرآن سے روکنے کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ، علم حدیث میں بصیر ت رکھنے والوں کا اتفاق ہے کہ حدیث :
”لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ “ ([194])
ضعیف ہے، بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں حائضہ ہوتیں تھیں ، اگر نماز کی طرح قرآن کی تلاوت بھی ان پر حرام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے سامنے اس کو ضرور بیان فرماتے ،اور امہات المؤمنین اسے جان لیتیں اور لوگ ایک دوسرے کو بتلاتے ، لیکن جب کسی نے اس بارے میں نبیﷺ سے ممانعت نقل نہیں کی تو ممانعت نہ معلوم ہونے کے باوجود اس کو حرام قرار دینا جائز نہیں ، اور آپ کے زمانے میں حائضہ عورتوں کی کثرت کے باوجود جب ممانعت وارد نہیں ہوئی تو معلوم ہواکہ حائضہ کے لئے قرآن کی تلاوت حرام نہیں “ ([195])
اس لئے حائضہ اور جنبی سوتے وقت دیگراورادو وظائف کے ساتھ ان سورتوں کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔
حائضہ کا قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر پڑھنا
سوال(58- 245): کیا حائضہ لڑکی اپنے مقررہ ایام حیض میں قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر اسے یاد کر سکتی ہے ؟ کیونکہ یہ لمبا وقفہ ہوتاہے جس میں بھول جانے کا خدشہ ہوتا ہے اور ٹائم ضائع ہوتا ہے۔
جواب: راجح قول کے مطابق حائضہ اور جنبی کے لئے قرآن پڑھنا حرام نہیں ہے ،کیونکہ حرمت کے لئے قائلین نے جن دلائل سے استدلال کیا ہے سبھی ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں، اور کئی دلائل سے اس کے جواز کا ثبوت ہے ، مثلا امام بخاری رحمة الله عليه نے حضرت عائشہ رضي الله عنه کی حدیث :
”غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ “([196])
حالت حیض میں تمام اعمال حج کرنا سوائے بیت اللہ کے طواف کے ۔
سے حائضہ اور جنبی کے لئےقرآن پڑھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے ، کیونکہ اس میں آپ نے تمام اعمال حج میں سے صرف طواف کومستثنی کیا ہے ، جبکہ طواف کے علاوہ مناسک حج میں ذکر ،تلبیہ اور دعا وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضي الله عنها سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے اور ذکر میں قرآن بھی داخل ہے ، ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ﴾([197])
نیز امام بخاری رحمة الله عليه نے حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے نقل کیا ہے کہ وہ جنبی کے لئے قراءت قرآن میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، اور امام حماد بن ابی سلیمان رحمة الله عليه بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر رضي الله عنه سے جنبی کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہ محسوس کرتے ہوئے فرمایا : کیا اس کے پیٹ میں قرآن نہیں ہے ؟ اور جب جنبی قرآن پڑھ سکتا ہے جو غسل اور تیمم کے ذریعہ تھوڑی دیر میں طہارت حاصل کر سکتا ہےتو حائضہ عورت بدرجۂ اولی پڑھ سکتی ہے ، کیونکہ وہ کئی کئی دن تک ناپاک رہتی ہے اور غسل اور تیمم کے ذریعہ بھی وہ طہارت حاصل نہیں کر سکتی، اور اس مدت میں قرآن نہ پڑھے تو بھولنے کا بھی خدشہ رہتا ہے ،علاوہ ازیں برأت اصلیہ سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
قرآن کریم خواہ ایک پارہ ہو یا مکمل، دونوں صورت میں جہاں تک ہو سکے اسے حائضہ عورت نہ چھوئے ، کیونکہ حدیث:
”أَن لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ“([198])
کے عموم میں حائضہ کو بھی بہت سے علماءنے شامل کیا ہے ، اور ائمہ اربعہ بھی اس کے قائل ہیں، البتہ شیخ البانی رحمة الله عليه نے مختلف دلائل کی روشنی میں طاہر سے مراد مومن لیا ہے ،اور اسی بنا پر انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لئے قرآن چھونے کو جائز کہا ہے، مگر احتیاط پہلے قول میں ہی ہے ، اس واسطے مجبوری کے سواء عام حالات میں حائضہ ، جنبی اور بے وضو کو قرآن چھونے سے احتراز کرنا چاہئے، اور کبھی مجبوری ہو تو ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ ([199]) کی بناء پر چھونے کی گنجائش ہے۔
دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے
سوال(59- 246):اگر کوئی عورت روزے سے ہے اور اتفاقاً وہ نماز ظہر سے پہلے یابعد میں حائضہ ہو گئی تو اس کا روزہ ہوگا یا نہیں ؟ اور مغرب سے کچھ پہلے ایسا ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب:اگر غروب آفتاب سے ذرا قبل بھی عورت حائضہ ہوگئی تو اس کا اس دن کا روزہ باطل ہوجائے گا اور بعد میں اس کی قضاء کرنی پڑے گی،علامہ ابن قدامہ رحمة عليه فرماتے ہیں :
”وَمَتَى وُجِدَ الْحَيْضُ فِي جُزْءٍ مِنْ النَّهَارِ فَسَدَ صَوْمُ ذَلِكَ الْيَوْمِ، سَوَاءٌ وُجِدَ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ “([200])
جب دن کے کسی جز میں حیض پایا جائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے، خواہ دن کے ابتداء میں پایا جائے یا آخر میں ۔
اور علامہ سید سابق رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
”فَأمَّا مَا يُبْطِلُهُ،(اى الصوم) وَيُوجِبُ القَضَاءُ فَقَط فَهُوَ مَا يأتي:…(5،4) الحَيْضُ، وَالنِّفَاسُ، وَلَو فِي اللَّحْظَةِ الاَخِيْرَةِ، قَبْلَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ، وَهَذَا مِمَّا أجْمَعَ العُلَمَاءُ عَلَيْهِ “([201])
یعنی جوچیزیں روزہ کو باطل کردیتی ہیں اور موجب قضاء ہیں ان میں سے حیض و نفاس بھی ہیں ، اگر چہ غروب شمس سے قبل آخری لحظہ میں ہوں ، اور یہ ان امور میں سے ہیں جن پر علماء کا اجماع ہے۔
شب قدر کی فضیلت کو پانے کے لئے حائضہ عورت کیا کرے
سوال(60- 247):حائضہ عورت رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کیا کرے کہ وہ شب قدر کے فضائل و برکات سے محروم نہ رہے ؟
جواب: شب قدر کی فضیلتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے اسے دعاؤں ، ذکر واذکار، تسبیح و تہلیل اور توبہ و استغفار میں مشغول رہنا چاہئے ، وعظ و نصیحت کی باتیں سننی چاہئے ،قرآن کی تلاوت کو غور اور توجہ سے سننا چاہئے ، وہ علمی کتابوں کا مطالعہ بھی کر سکتی ہے، اس طرح ان شاء اللہ اسے اس رات کی فضیلت حاصل ہوجائے گی ،البتہ ایسی حالت میں اسے نمازاور تلاوت کلام پاک سے اجتناب کرناچاہئے، البتہ بعض علماء نے حائضہ کے لئے بغیر چھوئے قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے ۔
حالت حیض میں نکاح کا حکم
سوال (61- 248): اگر کسی لڑکی کی شادی ہورہی ہے اور اس کو حیض آگیا تو کیا حالت حیض کا یہ نکاح جائز اور صحیح ہے؟
جواب: اگر کسی لڑکی کو عقد نکاح سے قبل یا عقد کے وقت حیض آجائے تو اس سے اس کے عقد نکاح کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور اس کا نکاح صحیح ہوجاتاہے، اس لئے کہ حیض ، نماز ، روزہ ، طواف اور جماع وغیرہ سے تو مانع ہے، لیکن عقد نکاح سے مانع نہیں ، کتاب و سنت میں کہیں بھی حیض کو عقد نکاح سے مانع یا طہارت عن الحیض کو نکاح کے لئے شرط نہیں بتایا گیا ہے ۔
البتہ اگر اس حالت میں رخصتی ہوجائے تو زوجین کو مجامعت سے پرہیز کرنا چاہئے ، کیونکہ یہ بالاجماع اور کتاب و سنت کی واضح دلیلوں سے حرام ہے ،حضرت انس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا طریقہ تھا کہ جب ان کے یہاں کوئی عورت حائضہ ہوتی تو اس کے ساتھ نہ وہ کھانا کھاتے، نہ ہم بستری کرتے ، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾ ([202])
یعنی لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندی اور مضر چیز ہے، اس واسطے حالت حیض میں مجامعت سے پرہیز کرو ،اور جب تک وہ طہارت کے بعد صفائی ستھرائی نہ کرلیں ان کے قریب نہ جاؤ ( یعنی بالکلیہ جماع سے بچو) اور جب ( انقطاع دم کے بعد ) وہ صفائی ستھرائی کرلیں تو وہاں مجامعت کرو جہاں اللہ نے تم کو جماع کاحکم دیا ہے(یعنی فرج میں ) اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اورصفائی وستھرائی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جماع کے علاوہ ہر چیز کرو ۔ (رواه الجماعة([203])الا البخاري )
یعنی بیوی کے ساتھ حالت حیض میں کھا سکتے ہو ، بیٹھ سکتے ہو ، لیٹ سکتے ہو ،اور جماع کے علاوہ ہر طرح سے لطف اندوز ہوسکتے ہو ۔
اور امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان حائضہ عورت سے فرج میں جماع کی حلت کا اعتقاد رکھے تو وہ مرتد اور کافر ہوگا، اور اگر اس کا عقیدہ رکھے بغیر بھول کر یا وجود حیض یا اس حالت میں جماع کی حرمت سے لا علمی کی بنا پر جماع کرلے تو اس پرنہ گناہ ہوگا نہ کفارہ، اور اگر حرمت کو جانتے ہوئے عمداً اس حالت میں جماع کرے تو اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ، اس پر توبہ واجب ہے ، البتہ کفارہ کے بارے میں علماکے دو قول ہیں ۔ ([204])
خلاصہ یہ کہ حالت حیض میں عقد نکاح صحیح ہے، البتہ اس حالت میں زوجین کے لئے جماع جائز نہیں، اس کے سوا ہر طرح سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، جماع ،حیض سے طہارت و غسل کے بعدجائز ہوگا۔
نکاح کے بعد دولہن کو حیض آجائے توولیمہ کا حکم
سوال(62- 249): اگر لڑکی کو نکاح کے بعد حیض آجائے تو کیا اس کے ولیمہ میں شامل ہوسکتے ہیں ؟
جواب: اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہوں اور عقد کے بعد رخصتی کا بھی ارادہ ہوتو بہتر ہے کہ عقد نکاح اور رخصتی کی تاریخ مقررکرنے سے پہلے عورتوں کے ذریعہ معلوم کرلیا جائے کہ وہ ایام لڑکی کی ماہواری کے ایام تو نہیں ، اور تاریخ مقرر کرتے وقت اس کا لحاظ رکھنے کی پوری کوشش کی جائے کہ رخصتی کے وقت لڑکی حالت طہر میں ہو، اس لئے کہ مسنون اورافضل یہ ہے کہ ولیمہ دخول اور بناء کے بعد ہو ، کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضي الله عنه کی روایت ہے کہ :
”بَنَى النَّبِيُّ ﷺ بِامْرَأَةٍ فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ رِجَالاً إِلَى الطَّعَامِ “([205])
نبی ﷺ نے ایک عورت کے ساتھ شب زفاف منایا پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔
ایک روایت میں حضرت زینب رضي الله عنها کے بارے میں صراحت ہے :
”أَصْبَحَ النَّبِيُّ ﷺ بِهَا عَرُوسًا فَدَعَا الْقَوْمَ فَأَصَابُوا مِنَ الطَّعَامِ “([206])
ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے دولھا بن کر صبح کیا پھر لوگوں کو دعوت دی اور انہوں نے کھانا کھا یا ۔
اور ظاہر ہے مکمل دخول و بنا حالت طہر میں ہی ہوگا ، نیز اگر پہلی ملاقات کے وقت ہی لڑکی حالت حیض میں ہو تو اسے ندامت اٹھانی پڑتی ہے اور شب زفاف بے لطف ہوکر رہ جاتی ہے ۔
لیکن کبھی اگر اس کا لحاظ نہیں کیا گیا یا حیض غیر معتاد وقت پر آجانے کی وجہ سے رخصتی کے وقت لڑکی حالت طہر میں نہ ہو مگر رخصتی ہوگئی اور اسے شوہر کے گھر بھیج دیاگیا اور زوجین کے درمیان خلوت صحیحہ میں ملاقات ہوگئی تو بظاہر راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دعوت ولیمہ صحیح ہوجائے گی اور اس میں شرکت کرسکتے ہیں ، اس لئے کہ مذکورہ بالا روایتوں میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کا تذکرہ ہے جو استحباب پر دلالت کرتا ہے ، آپ کا بعد الجماع ہی ولیمہ کے لئے کوئی صریح حکم نہیں ہے ،جو وجوب پر دلالت کرے ،نیز ولیمہ ”ولم “ سے مشتق ہے ،جس کے لغوی معنی جمع کے ہیں ، اور شادی کی دعوت کو ولیمہ اس بنا پر کہتے ہیں کہ وہ زوجین کے اجتماع اور ملاقات پر ہوتی ہے ،بعض اہل علم نے ولیمہ کا اطلاق مطلق دعوت پر بھی کیا ہے ، اور شادی کے ولیمہ کے وقت کے بارے میں علماء سلف کے متعدد اقوال ہیں، بعض کے نزدیک اس کا وقت عقد کا وقت ہے ، بعض کے نزدیک عقد کے بعد ، بعض کے نزدیک دخول کے وقت ، بعض کے نزدیک دخول کے بعد،بعض کے نزدیک ابتداء عقد سے لے کرانتھاء دخول تک۔
اس لئے جب دونوں کے درمیان خلوت صحیحہ میں ملاقات ہوگئی تو بظاہر دعوت ولیمہ صحیح ہے اور اس میں شامل ہو سکتے ہیں، اس کے لئے مجامعت ضروری نہیں ۔ ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب، راجع لھذہ المسئلۃ، فتح الباری:٩/٢٣٠-٢٤١،نیل الاوطار: ٦/ ١٩٨، فقہ السنۃ : ٢/ ٢٣٦.
حالت حیض میں بیوی سے ہم بستری کا کفارہ
سوال(63- 250):اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کرلے تو اس پر کیا کفارہ ہے ؟ دلیل کے ساتھ جواب دیجئے۔
جواب: اگر اس نے حیض کی ابتدا میں خون کے آنے کی حالت میں جماع کیا ہے تو اسے ایک دینار صدقہ کرنا چاہئے، اور اگر انقطاع دم کی حالت میں جماع کیا ہے تو نصف دینارصدقہ کرنا پڑے گا ، اس واسطے کہ حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”الَّذِى يَأْتِى امْرَأَتَهُ وَهِىَ حَائِضٌ قَالَ: يَتَصَدَّقُ بِدِينَارٍ أَوْ نِصْفِ دِينَارٍ “(رواه ابوداود([207]) والنسائي([208])والدارمي([209]) وابن ماجه([210]) وغيرهم، وقال ابوداود: هكذا الرواية الصحيحة، وقال الألباني: صحيح علی شرط البخاري([211])، وصححه الحاکم ووافقه الذهبي وابن القطان وابن دقيق العيد وابن الترکماني وابن القيم وابن حجرالعسقلاني واستحسنه الامام أحمد)
یعنی جو اپنی عورت سے حالت حیض میں جماع کرے وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے ، اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے بسند صحیح اس کی تفسیر اس طرح وارد ہے :
”إِذَا أَصَابَهَا فِى أَوَّلِ الدَّمِ فَدِينَارٌ، وَإِذَا أَصَابَهَا فِى انْقِطَاعِ الدَّمِ فَنِصْفُ دِينَارٍ “ (رواه ابوداود([212])وغيره)
یعنی اگر خون کی ابتدا میں مجامعت کی تو ایک دینا راور اگر انقطاع دم کی حالت میں جماع کیا تو نصف دینار ہے ۔
علامہ البانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ بعض روایات میں صدقہ کرنے والے کی مالداری اور تنگدستی پر اختیار وارد ہے، مگر وہ روایت ضعیف ہے ۔ ([213]) اس واسطے راجح پہلا قول ہے ۔
مانع حیض دوا کا استعمال
سوال(64- 251): کیا عورت حیض کو مؤخر کرنے کے لئے دوا کا استعمال کرسکتی ہے؟
جواب: اگر عورت کا شوہر دوا کے استعمال کرنے کی اجازت دے دے اور وہ اس کی صحت کے لئے باعث ضرر اور نقصان نہ ہو تو بوقت ضرورت اس کے استعمال کی گنجائش ہے ، لیکن درحقیقت ایسی دوائیں عموما ضرر اور نقصان سے خالی نہیں ہوتی ہیں ،اور یہ بھی معلوم ہے کہ دم حیض طبیعی طور پر خارج ہوتا ہے اور اگر کسی طبیعی چیز کو اس کے وقت سے مؤخر کرایا جائے تو اس سے جسم میں نقصان کا لاحق ہونا ایک بدیہی امر ہے ، علاوہ ازیں ایسی ادوایات کا استعمال عورت کے لئے مزید پریشانی اور اضطراب کا باعث ہوتا ہے ۔
اس واسطے اس کو انتہائی شدید ضرورت اور مجبوری کے وقت ہی استعمال کرنا چاہئے۔
حائضہ کامیت کے قریب جانا
سوال(65- 252): کیا حائضہ عورت میت کے قریب جاسکتی ہے ؟ جبکہ معاشرہ میں اس کو برا مانا جاتا ہے۔
جواب: حائضہ عورت میت کے قریب جاسکتی ہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ، کیونکہ اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں میرے علم کے مطابق کوئی ممانعت وارد نہیں ہے ۔
اور علامہ البانی رضي الله عنه نے وفات کے بعد میت کے پاس سے حائضہ ، نفساء اور جنبی کو نکالنے اور بھگانے کو اپنی کتاب تلخیص احکام الجنائز ( ص:97)میں جنازہ کی بدعتوں میں شمار کیا ہے ۔
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس گھرمیں حائضہ عورت رہتی ہے اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ،اور اس بناء پر اس کو جس گھر میں میت ہو اس میں داخل ہونے اور میت کے قریب جانے سے روکتے ہیں ، ان کا یہ عمل صحیح نہیں ہے ، کیونکہ صحیح حدیث میں صرف یہ ہے کہ فرشتے ایسے گھر وں میں داخل نہیں ہوتے جن میں کتا اور تصویر ہوتی ہے ، اس میں حائضہ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ }، عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلاَ صُورَة “([214])
ابو طلحہ رضي الله عنه رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو،اور نہ ایسے گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں جاندار کی تصویر ہو۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس حدیث میں گھروں میں فرشتوں کے عدم دخول کا باعث کتے اور تصاویر کا ہونا قرار دیا ہے ، اور حائضہ عورت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ، تو پھر کیسے اسے منحوس کہا جا سکتا ہے، اور میت کے قریب جانے سے کیسےمنع کیا جا سکتا ہے ، جبکہ حالت حیض میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضي الله عنها نے رسول اللہ ﷺ کومسجد کے اندر چٹائی لا کردی ۔
حضرت عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے مسجد کے اندر سےفرمایا:”نَاوِلِينِى الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ“ مجھے چٹائی لا کر دو ، انہوں نے کہا: ”إِنِّى حَائِضٌ“میں حالت حیض میں ہوں، (اس واسطے مسجد میں نہیں جاسکتی) آپ نے فرمایا: ”إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِى يَدِكِ“تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں لگا ہوا ہے ۔([215])
اور جب حائضہ عورت مسجد میں جا سکتی ہے تو میت کے قریب کیوں نہیں جاسکتی ہے ؟
آ پ ﷺ نے حضرت عائشہ رضي الله عنها کے گود میں سررکھ کرقرآن کی تلاوت کی ہے ، جب کہ وہ حالت حیض میں تھیں۔
”عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَّكِئُ فِى حِجْرِى وَأَنَا حَائِضٌ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ“([216])
اسی طرح حالت حیض میں ہوتے ہوئے حضرت عائشہ رضي الله عنها نے آپ ﷺ کے سر کو دھویا اور آپ ﷺ کے سر میں کنگھی کی ۔
”عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَغْسِلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا حَائِضٌ“([217])
”وعنها قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُدْنِى إِلَىَّ رَأْسَهُ وَأَنَا فِى حُجْرَتِى فَأُرَجِّلُ رَأْسَهُ وَأَنَا حَائِضٌ “([218])
یہ ساری احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ حائضہ عورت منحوس نہیں ہوتی ، اوراس کا پورا بدن ناپاک نہیں ہوتا اور اس کےمیت کے قریب جانے اور بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حالت حیض میں مہندی لگانا
سوال(66- 253): کیا عورت حالت حیض میں مہندی لگاسکتی ہے ؟ اس میں کوئی حرج تو نہیں؟
جواب: عورت حالت حیض میں مہندی لگاسکتی ہے،حضرت معاذہ رضي الهه عنه سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضي الله عنها سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں اور مہندی لگاتی تھیں ، مگر آپ ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا ۔([219])
اورحضرت نافع رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضي الله عنه کی عورتیں حالت حیض میں بھی خضاب لگاتی تھیں۔([220])
مستحاضہ کے لئے ہر نماز کے لئے غسل کرنا ؟
سوال(67- 254): ایک مستحاضہ عورت ہرنماز میں غسل کرتی ہے ، لیکن اس غسل سےاسے نقصان پہونچتاہے ، یعنی اس کو بیماری لاحق ہے ، ایسی صورت میں اس قسم کی عورت کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب: مستحاضہ عورت پرہر نماز کے لئے غسل کرنا واجب نہیں ، اس پر صرف دم حیض کے انقطاع کے بعد ایک مرتبہ غسل کرنا واجب ہے، اس کے بعد وہ ہر نماز کے لئے وضو کرے گی اور نماز پڑھے گی ، حضرت عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی جحش رضي الله عنها آپ ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسول : مجھےاستحاضہ کی شکایت ہے، میں پاک نہیں ہوتی ( یعنی خون آنے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا) تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، یہ ایک رگ کا خون ہے حیض کا نہیں ،اس واسطے جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہوجائے تو غسل کرو اور نماز پڑھو۔([221])
اور بعض روایتوں میں ہے کہ اورہر نمازکے لئے وضو کرو۔([222])
اس واسطے جمہورسلف و خلف کا مذہب یہی ہے کہ مستحاضہ پر صرف انقطاع دم حیض کے بعد ایک مرتبہ غسل کرنا واجب ہے، اور اس کے بعدوہ ہر نماز کے لئے وضو کرے گی اور نماز پڑھے گی ، یعنی ایک وضو سے دو نمازیں نہیں پڑھے گی ، بلکہ ہر نماز کے لئے وضو کرے گی ، ہر نماز کے لئے غسل کرنا، یا شب وروز میں تین مرتبہ غسل کرنا، یاروزانہ غسل واجب نہیں ہے ، بلکہ صرف مستحب ہے، علامہ سید سابق رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
”للمستحاضة أحكام نلخصها فيما يأتي:
أنه لا يجب عليها الغسل لشئ من الصلاة ولا في وقت من الأوقات إلا مرة واحدة، حينما ينقطع حيضها.وبهذا قال الجمهور من السلف والخلف “([223])
اس واسطے اس مستحاضہ عورت کوجب ہر نماز میں غسل کرنےسے ضرر لاحق ہوتا ہے تو اسے انقطاع دم کے بعد صرف ایک مرتبہ غسل کرنے پر اکتفاکرنا چاہئے ، اور پھر ہر نماز کے لئے وضو کر کے نماز پڑھنا چاہئے ،مستحاضہ کے لئے ویسے بھی ہر نماز کے لئے غسل کرنا ضروری نہیں اور نقصان ہونےکی صورت میں تو یہ افضل اور مستحب بھی نہیں ہے۔
سفید پانی ( لکوریا) مانع صلاۃ نہیں
سوال(68- 255): دو سال گزر گئےمیرا خون بند نہیں ہورہا ہے ، جبکہ ایک سال سے زیادہ عرصہ اس کے علاج میں گزرچکا ہے ، چند دن نماز پڑھتی ہوں ، آٹھ دن خون جاری رہتا ہے ، اس کے بعد سادہ پانی آتا رہتاہے ، بمشکل نودس دن بند رہتا ہے ، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ مرض بغیرآپریشن کے ٹھیک نہیں ہوگا آپریشن کرا کے بچے دانی نکالنی پڑے گی ، کیا ایسی حالت میں آپریشن جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب: اگر آپ کا مسئلہ صرف آٹھ دن خون آنے کا ہو تو اس کی وجہ سے آپریشن کی ضرورت نہیں ، کیونکہ بعض عورتوں کی طبیعی طور سے بھی دس دن تک حیض کا خون آتا رہتا ہے ،اور اس مدت میں اس کے لئے نماز معاف ہے ،اورخون بند ہونےکے بعد جب سادہ پانی آئے تو غسل کر کے نماز پڑھنا چاہئے، یہ سادہ پانی نماز سے مانع نہیں ہے ، البتہ اگر پہلے خون کم دن آتا تھا اور اب آٹھ دن آنے لگا ہو اور اس قدر زیادہ مقدار میں آتا ہو کہ وہ دم حیض نہیں ہوسکتا بلکہ بیماری کی وجہ سے ہے اور اس کی وجہ سے آپ کی زندگی خطرہ میں ہو، یا ضرر بلیغ پہونچنے کا خطرہ ہو اور آپریشن کے بغیر صحت ممکن نہیں ،اور اگر ایسے چھوڑ دیں تو استقرار حمل اور ولادت بھی نہیں ہوگی اور آپ کی صحت بھی خراب ہوگی تو ایسی صورت میں شوہر سے مشورہ کر کے آپریشن کرانا جائز ہوگا، کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے :
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ ([224])
اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
اور ارشاد نبوی ہے:
”لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ“([225])
نہ خود نقصان اٹھانا ہے نہ دوسرے کو نقصان پہونچانا ہے ۔
مگر جب تک بچہ دانی نکالے بغیر علاج ممکن ہو یا تھوڑی سی تکلیف کے ساتھ ولادت کی توقع ہو تو بچہ دانی نکلوانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
دم حیض کا مختلف صورتوں میں جاری رہنا
سوال(69- 256): فاطمہ نامی خاتون کو حیض کی یہ صورت ہمیشہ لاحق ہوتی رہتی ہے کہ دو روز سرخ خون بالکل تھوڑا آتا ہے ،پھر چار روز دم(خون) بہت زیادہ جاری رہتا ہے ، اور پھر دو روز بالکل خون آنا بند رہتا ہے ، اور اس کے بعد دو روز سرخ خون آتا ہے ، ایسی صورت میں شرعا اس عورت کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ خاتون ان دس دنوں میں اپنے آپ کو حائضہ سمجھے گی اور اس کے بعد غسل کر کے روزے رکھے گی ، اورنمازیں پڑھے گی ، یعنی اس کے بعد وہ طاہر ہ اور پاک مانی جائے گی۔
ایام حیض میں عموما عورتوں کو مسلسل اور برابر خون نہیں آتا ، بلکہ کبھی کم آتا ہے ، کبھی زیادہ اور کبھی بالکل نہیں آتا ، مگر بعد میں پھر آنے لگتا ہے ، مگر ان تمام ایام کو راجح قول کے مطابق ایام حیض شمار کیا جاتا ہے ۔
اگر حائضہ کوغسل طہارت کے دوسرے دن خون آجائے تو؟
سوال(70- 257): اگر حائضہ عورت طہارت کرے اور پھر دوسرے دن اس کو معمولی سا خون آجائے تو کیا وہ دوبارہ غسل طہارت کرے گی یا صرف خون کی جگہ دھو لے گی؟
جواب: اگر عادت کے ایام پورا کرنے اور انقضاء دم کے بعد اس نے غسل طہارت کیا اورپھر اس کے بعد دوسرے دن اس کو معمولی سا خون آجائے تو اس کے لئے غسل کرنا مستحب ہے ، اور اگر صرف دم کی جگہ دھو لے تو بھی کافی ہے، کیونکہ یہ دم حیض نہیں ، بلکہ استحاضہ ہے ، اور غسل صرف دم حیض کے اختتام پر واجب ہے ، جمہور سلف و خلف کا یہی موقف ہے ۔ ([226])
اور اگر حیض کے ایام پورے نہیں ہوئے تھے اور درمیان میں دم حیض نہ آنے کی وجہ سے اس نے غسل کر لیا تھا تو جب مکمل طور سے پاک ہوجائے گی تب دوبارہ غسل کرے گی۔
باب النجاسات وازالتھا (نجاستوں اور ان کے ازالہ کا بیان)
انسان کا خون پاک ہے یا ناپاک؟ اوراس کے نکلنے سے وضو کا حکم
سوال (71- 258): انسان کا خون پاک ہے یا ناپاک؟ اورخون نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے یانہیں ؟
جواب:انسان کا عام خون پاک ہے ،اور حیض و نفاس اور استحاضہ کے خون کے علاوہ دیگر خون کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، خواہ قلیل مقدار میں نکلے یا کثیر مقدار میں ، حضرت جابر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ ہم غزوۂ ذات الرقاع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، رسول اللہ ﷺ نے ایک منزل پر قیام فرمایا اور کہا کہ ہماری حراست اور نگرانی کا کام کون انجام دے گا ؟ اس کے لئے ایک مہاجر (حضرت عمار بن یاسر رضي الله عنه) اور ایک انصاری (حضرت عبادہ بن بشر رضي الله عنه) تیار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں وادی کے دہانے کے پاس رہو، جب یہ دونوں وادی کے دہانے پر پہونچے تو باری باری سونے اور نگرانی کرنے کی بات طے کرکے مہاجر صحابی سوگئے، اور انصاری صحابی کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے، دشمنوں میں سے ایک شخص آیا اور انصاری صحابی کوکھڑے دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ قوم کا حارس اور نگراں ہے ، اس نے ایک تیر چلایا جو جاکر ان کے جسم میں پیوست ہوگیا، انصاری صحابی نے اسے نکالااور نماز جاری رکھی ، دشمن نے دوسرا تیر چلایا ، انصاری صحابی نے اسے بھی نکالا اور نماز جاری رکھی، پھر جب دشمن نے تیسرا تیر چلایا تو انہوں نے رکوع و سجدہ کرکے نماز ختم کی اور اپنے مہاجر ساتھی کوبیدار کیا ، یہ دیکھ کر دشمن فرار ہوگیا ، مہاجر نے جب انصاری کا اس قدر خون دیکھا تو تعجب کرتے ہوئے کہا: جب اس نے پہلی مرتبہ تیر چلایا تھاتبھی آپ نے مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟انصاری نے جواب دیا:میں ایک سورہ (کہف) کے پڑھنے میں مشغول تھا اور میں نے اسے منقطع کرنا پسند نہیں کیا۔(رواه أحمد في المسند([227])، وابوداود في السنن([228])والدارقطني([229])وصححه ابن خزيمة وابن حبان والحاکم، وذکره البخاري في صحيحه تعليقا([230])، انظر:نيل الأوطار([231])وتمام المنة([232]))
دیکھئے انصاری صحابی کے جسم سے کثیر مقدار میں خون نکلا،جو بظاہر ان کے بدن اور کپڑے میں ضرور لگا ہوگا ، مگر انھوں نے نماز منقطع نہیں کی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خون ناپاک نہیں ہے، اور اس کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ورنہ خون نکلنے کے بعد یہ صحابی نماز جاری نہیں رکھتے۔
یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے ، اس لئے کہ بظاہر یہ مستبعدہے کہ اس کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو نہ ملی ہو ،پس اگر خون ناپاک ہوتا اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے اور وضاحت فرماتے کہ اس انصاری صحابی نے غلطی کی اور اس کی نماز نہیں ہوئی ، کیونکہ بوقت ضرورت مسئلہ کو بیان نہ کرنا جائز نہیں ،قاعدہ ہے: ”تَاخِيْرِ البَيَانِ عَنْ وَقْتِ الحَاجَةِ لايَجُوْزُ“
اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے (جیسا کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں ) کہ ہو سکتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع نہ ملی ہو تو اللہ تعالیٰ پر تو یہ بات مخفی نہیں تھی ،اگر خون ناپاک یا ناقض وضو ہوتا تو وہ اپنے نبی ﷺ کو بذریعہ وحی ضرور اس سے مطلع فرماتا اور آپ صحابہ کرام رضي الله عنه سے بیان فرماتے ،اس سے ثابت ہوا کہ انسان کا عام خون پاک ہے، اور اس کا نکلنا ناقض وضوء نہیں ۔
امام بخاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ حسن بصری رحمة الله عليه نے فرمایا :
” مسلمان برابر اپنے زخموں میں نماز پڑھتے رہے ہیں ، اور طاؤس،محمد بن علی ،عطاء رحمة الله عليه اور اہل حجاز کہتے ہیں کہ خون کے نکلنے سے وضو واجب نہیں ہوتا ، حضرت ابن عمر رضي الله عنهما نے ایک پھنسی نچوڑی ، اس سے خون نکلا مگر انھوں نے وضو نہیں کیا ، حضرت ابن ابی اوفی نے خون تھوکا اور نماز جاری رکھی“ ([233])
اورعلامہ شوکانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ یہی حضرت ابن عباس رضي الله عنه،ناصر، مالک،شافعی،ابن ابی اوفیٰ،ابو ہریرہ رضي الله عنه، جابر بن زید ، ابن المسیّب، مکحول اور ربیعہ کامذہب ہے۔([234])
اور حافظ ابن حجر العسقلانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ بظاہر امام بخاری رحمة الله عليه کی رائے بھی یہی تھی کہ دوران نماز خون نکلنے سے نماز باطل نہیں ہوتی،کیونکہ حدیث کے بعد انہوں نے حسن بصری کا یہ اثر بھی ذکر کیا ہے کہ مسلمان برابر اپنے خون میں نماز پڑھتے رہے ہیں ،اور صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضي الله عنه نے نماز اس حالت میں پڑھی کہ ان کے زخم سے خون ابل رہا تھا ۔ ([235])
یہی علامہ ابن حزم اور البانی رحمة الله عليه وغیرہ محققین کی بھی رائے ہے ، ([236])اور یہی اس مسئلہ میں راجح ہے ۔
ڈبہ کادودھ پینے والے بچے کے پیشاب پرچھینٹے مارنے کاحکم؟
سوال(72- 259):ہمارا لڑکا ابھی دو ماہ کا ہے ، مگر ماں کا دودھ نہ ہونے کی وجہ سے ڈبہ کا دودھ پیتا ہے ، کبھی کبھی جوس ( پھلوں کا رس) بھی دے دیتے ہیں، ایسی صورت میں اس کے پیشاب پر چھینٹے مار دینا کافی ہوگا یا دھونا ضروری ہوگا؟
جواب: جب تک آپ کا بچہ اناج نہیں کھاتا اس کے پیشاب پر چھینٹے مار سکتے ہیں ، یہ رضیع ( شیر خوار) ہی مانا جائے گا ، اگر چہ ڈبہ کا دودھ پیتا ہو، اور کبھی کبھی آپ اسے کسی پھل کا رس بھی پلادیتے ہوں ، حضرت علی رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”بَوْلُ الْغُلامِ الرَّضِيعِ يُنْضَحُ، وَبَوْلُ الْجَارِيَةِ يُغْسَلُ، قَالَ قَتَادَةُ: وَهَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا الطَّعَامَ فَإِذَا طَعِمَا الطَّعَامَ غُسِلا جَمِيعًا “(رواه أحمد([237])والترمذي([238])وقال: هذا حديث حسن صحيح)
شیر خوار لڑکے کے پیشاب پر پانی کاچھینٹا مارا جائے گا اور شیر خوار لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے گا، حضرت قتاہ رضي الله عنه فرماتے ہیں : یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک وہ اناج نہ کھائیں ، جب وہ اناج کھانے لگیں توان کے پیشاب دھوئے جائیں گے۔
اور ام قیس بنت مِحصَن سے روایت ہے کہ وہ اپناایک لڑکا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں جو ابھی اناج نہیں کھاتاتھا ، اسے رسول اللہ ﷺ کی گود میں بٹھا دیا ، اس نے آپ پر پیشاب کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر پانی چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ (رواه مسلم([239]))
بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست کا بیان
سوال(73- 260): لڑکے کاپیشاب کب ناپاک ہوتا ہے؟ اور لڑکی کا پیشاب کب ناپاک ہوتا ہے؟
جواب: داؤد ظاہری کے علاوہ اکثر وبیشتر ائمہ کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کا پیشاب ابتداء ہی سے ناپاک ہوتا ہے، البتہ جب تک لڑکے کی غذا صرف دودھ ہو تب تک اس کے پیشاب سے پاکی حاصل کرنے کے لئے شریعت نے صرف اس پر چھینٹیں مارنے کی رخصت دی ہے، جب کہ لڑکی کے پیشاب کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے، یعنی اس کے پیشاب کو ہر حال میں دھونا ضروری ہے، حضرت علی رضي الله عنه سے مرفوعا روایت ہے کہ:
”بَوْلُ الْغُلامِ يُنْضَحُ عَلَيْهِ، وَبَوْلُ الْجَارِيَةِ يُغْسَلُ، قَالَ قَتَادَة: هَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا فَإِذَا طَعِمَا غُسِلَ بَوْلُهُمَا“(رواه أحمد([240]) وصححه الألباني([241]))
لڑکے کے پیشاب پر چھینٹا مارا جائے گا، اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے گا ،حضرت قتادہ رضي الله عنهفرماتے ہیں یہ اس وقت کے لئے ہے جب تک وہ کھانا نہیں کھاتے اور جب کھانا کھانے لگیں تو دونوں کے پیشاب کو دھویا جائےگا۔
خواب میں پیشاب ہو جائے تو کیا کمر سے نیچے دھو کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
سوال(74- 261):کوئی رات کے وقت سونے کی حالت میں خواب میں پیشاب کررہا تھا، مگر نیند کھل گئی فوراً اٹھ کراس نے کمر سے نیچے کا حصہ دھو ڈالا اور نماز پڑھ لی تو کیااس کی نماز درست ہے؟
جواب: اگر حالت خواب یا بیداری میں پیشاب کرتے ہوئے کسی کے کپڑے یا بدن میں پیشاب لگ جائے تو اس پر غسل تو واجب نہیں لیکن ایسی صورت میں جسم اور کپڑے کے ہر اس حصے کو دھونا ضروری ہے جہاں پیشاب لگا ہو، یا جہاں شک ہو کہ پیشاب لگا ہے،اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے:
”تَنَزَّهُوا مِنَ الْبَوْلِ، فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ “(رواه الدار قطني([242])وحسنه)
پیشاب سے بچو، اس لئے کہ زیادہ تر عذاب قبر پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اور اس قسم کی گندگیوں سے پاک وصاف رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴾ ([243])
اور اپنے کپڑوں کو پاک وصاف کرو۔
اس لئے اگر بدن یا کپڑے میں کہیں بھی پیشاب لگا رہ گیا اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی تو وہ نماز درست نہیں ہوگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ “(رواه مسلم([244]))
بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں ہوتی۔
اوربدن اور کپڑے کو پاک وصاف کر کے نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا، اور اگر بدن اور کپڑے میں کہیں بھی پیشاب نہیں لگا رہ گیا تھا تو نماز درست ہے، اور اعادہ کی ضرورت نہیں۔
کپڑے میں منی یا مذی لگ جائے توکتنا کپڑا دھوئیں؟
سوال(75- 262):اگر کپڑے میں منی یا مذی وغیرہ لگ جائے تو جتنے حصے میں منی وغیرہ لگی ہے اتنے کا ہی دھونا ضروری ہے یا پورے کپڑے کو دھونا پڑے گا؟
جواب:جتنے حصے میں منی یامذی لگی ہے اتنے ہی کپڑے کا دھونا واجب ہے، پورے کپڑے کو دھونا ضروری نہیں،سلیمان بن یسار رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضي الله عنه سے کپڑے میں منی لگ جانے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے کپڑے سے اسے(منی) دھو دیتی تھی پھر آپ نماز کے لئے نکلتے اس حال میں کہ کپڑے میں اس کے دھونے کا اثر ظاہر رہتا۔ (متفق عليه([245]))
اور معلوم ہے کہ کپڑے میں دھونے کا اثر یا دھبہ اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب اس کا کچھ حصہ دھویا جائے اور کچھ نہ دھویا جائے ،اور پورے کپڑے کو دھونے سے سب ایک طرح کا ہوجاتا ہے اس میں دھبے نہیں پڑتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضي الله عنه پورے کپڑے کو نہیں دھوتی تھیں بلکہ جہاں جہاں منی لگی رہتی تھی انھیں جگہوں کو دھوتی تھیں۔
گھر اور آنگن کو پیشاب وغیرہ سے پاک کرنے کا طریقہ
سوال(76- 263):گھر اور آنگن وغیرہ میں چھوٹے بچے عموماً پیشاب کرتے رہتے ہیں، ان کے پاک کرنے کی شرعا کیا صورت ہے؟
جواب: اگر گھر اور آنگن کا فرش کچا (یعنی مٹی کا) ہے تو اس پر اتنا پانی ڈال دینے سے پاک ہوجائے گا، جس سے کہ جذب ہونے کے بعد اس کی بدبو ختم اور اثر زائل ہوجائے، حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ایک اعرابی(دیہاتی) مسجد میں (جس کا فرش کچا تھا) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام رضي الله عنهم اسے ڈانٹنے اور روکنے کے لئے آگے بڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”دَعُوهُ وَهَرِيقُوا عَلَى بَوْلِهِ سَجْلًا مِنْ مَاءٍ، أَوْ ذَنُوبًا مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِين“(رواه الجماعة([246]) الامسلما)
یعنی اس کو چھوڑ دواور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی ڈال دو، تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو،اور تم سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔
اور اگر پختہ فرش ہو جس میں پانی جذب نہیں ہوتا تو پانی سے اس قدر دھوئیں کہ اس سے پیشاب کا اثر زائل ہوجائے۔
باتھ روم میں پیشاب کرنے کا حکم
سوال(77- 264): باتھ روم میں پیشاب کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر باتھ روم سے مراد غسل خانہ ہے تو اس میں پیشاب کرنا ممنوع ہے ،سنن ابی داؤد وغیرہ میں بسند صحیح وارد ہے:
”نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَمْتَشِطَ أَحَدُنَا كُلَّ يَوْمٍ، أَوْ يَبُولَ فِى مُغْتَسَلِهِ “([247])
یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہر روز کنگھی کرنے سے اور غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔
نیز غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وہ ناپاک ہوجاتا ہے ، اور غسل کرتے وقت اس سے پانی کے ناپاک چھینٹے اڑ کر بدن پر پڑتے ہیں ، جس سے بسا اوقات طہارت حاصل نہیں ہوپاتی ۔
اور اگر باتھ روم سے مرادپیشاب خانہ اور لیٹرنگ ہے تو ان میں پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ یہ اسی کے لئے بنائے جاتے ہیں ، اور ان میں پیشاب کرنے کی نہ احادیث میں ممانعت ہے نہ کوئی اور خرابی لازم آتی ہے۔
کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا حکم
سوال(78- 265):کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آج پینٹ بوشرٹ کے پہننے والے اکثر کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں۔
جواب: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی عادت نہیں بنانی چاہئے ، عموما رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے ،البتہ کسی مجبوری اور ضرورت کے وقت کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی گنجائش ہے ، حضرت حذیفہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے گھور کے پاس آئے اور کھڑے ہوکر پیشاب کیا ۔ (رواه الجماعة([248]))
البتہ پیشاب کرتے وقت اس کا خیال کرنا بہت ضروی ہے کہ پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن اور کپڑوں پر نہ پڑنے پائیں ، کیونکہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے پر سخت وعید آئی ہے ۔
اسی طرح کسی دیوار وغیرہ کی آڑ میں ہوکرپیشاب کرے اور بےپردگی اور لوگوں کے سامنے کشف ستر نہ ہو ۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت
سوال(79- 266): ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا کیسا ہے ؟
جواب: ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے ،ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِى الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ“([249])
تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئےپانی میں پیشاب نہ کرے پھر اسی سے غسل کرے ۔
اور اس میں بڑی حکمتیں اور فائدے ہیں، کیونکہ اگر لوگ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کریں تو وہ پاک و صاف رہتا ہے ، اور اخیر تک لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ، اور اگر لوگوں کو اس میں پیشاب کرنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ پانی بہت جلد خراب ہوجائے گا ، اور لوگ اس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر پائیں گے ، اور یہ پانی خراب اور ضائع ہوجائے گا، اس واسطے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے اجتناب کرناچاہئے ۔
کاٹنCotten Celloles) (سے تیار شدہ ٹکیہ سےاستنجاء کا حکم
سوال(80- 267):کاٹن ( Cotton Celloles)سے تیار کی گئی ٹکیہ جو کہ مخصوص طور پر مٹی یا اینٹ کے ڈھیلے کے بجائے طہارت کے لئے ہے، کیا پانی کی غیر موجودگی میں سفر، تجارت اور دیگر ایسی مصروفیات کے دوران جہاں یہی ایک ذریعہ طہارت ہو ، کیا اس کا استعمال بطور طہارت استنجاء کے لئے کرسکتے ہیں؟
جواب: صورت مسؤلہ میں سفر وغیرہ کے دوران پانی اور پتھر کی عدم موجودگی میں بوقت ضرورت پتھر کے مقام پر ایسی چیز سے استنجاء کرنا جائز ہے جو جامد طاہر اور نجاست کو زائل کرنے والی ہو، اور جو شرعا محترم ومقدس نہ ہو،نیز لید (گوبر) ہڈی اور کھائے جانے والی چیز نہ ہو، کیونکہ حضرت خزیمہ بن ثابت رضي الله عنه سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ سے استنجاء کرنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”بِثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ لَيْسَ فِيهَا رَجِيعٌ“ایسے تین پتھروں کے ساتھ استنجاء کرو جن میں گوبر نہ ہو۔([250])
اور حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه سے روایت ہے کہ:
”لَقَدْ نَهَانَا ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَنْ لاَ نَسْتَنْجِىَ بِالْيَمِينِ، وَأَنْ لاَ يَسْتَنْجِىَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ يَسْتَنْجِىَ بِرَجِيعٍ أَوْ عَظْمٍ “(رواه أحمد([251]) ومسلم([252]) وابوداود([253]))
نبی کریم ﷺ نے ہمیں قبلہ رخ ہو کر پیشاب و پاخانہ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے ، تین پتھروں سے کم سے استنجاء کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”لاَ تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ،وَلاَ بِالْعِظَامِ،فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ“(رواه الترمذي([254]))
گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔
ان احادیث اور اس معنی کی دوسری حدیثیں جن میں گوبر، ہڈی اور کھائی جانے والی اشیاء وغیرہ سے استنجاء کرنے سے ممانعت ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اشیاء کے علاوہ پتھر اور اس کے مثل پاک اشیاء سے استنجاء کرنا درست ہے ،ورنہ ان اشیاء کے خصوصی طور سے ذکر اور ان سے استنجاء کی ممانعت کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
رہی ان چیزوں سے استنجاء کی ممانعت جو کھائی جاتی ہیں تو ہڈی سے استنجاء کی ممانعت مذکورہ حدیث کی روشنی میں اس بنا پر ہے کہ وہ جنوں کی خوراک ہے، تو انسان کی خوراک سے بدرجۂ اولیٰ استنجاء جائز نہیں ہوگا۔
اسی طرح مقدس اور محترم اشیاء سے بھی استنجاء کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ یہ ان کی حرمت اور تقدس کے خلاف ہے۔
اسی طرح بہت قیمتی چیزوں (جیسے کاغذ کے نوٹ، سونا، چاندی وغیرہ) سے استنجاء درست نہیں ،کیونکہ اس میں اسراف ہے جوممنوع ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26 اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا﴾([255])
اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو، بیشک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔
اور کاٹن سے تیار کردہ جس ٹکیہ سے استنجاء کرنے کی بابت آپ سوال کر رہے ہیں، چونکہ وہ ان تمام اشیاء سے خارج ہے جن سے استنجاء کرنا ممنوع ہے، اس واسطے بوقت ضرورت اس سے استنجاء کر نے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
آدمی کی قے پاک ہے یا ناپاک ؟
سوال (81- 268): آدمی کی قے پاک ہے یا ناپاک ؟
جواب:آدمی کی قے پاک ہے ،اس واسطے کہ اصل اشیاء میں طہارت ہے ، اور جب تک کسی چیز کی نجاست دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو اسے پاک ہی مانا جائے گا ، اور قے کی نجاست کی کوئی صحیح دلیل نہیں، اس واسطے اسے پاک ماناجائے گا۔
کیا گائے بھینس کا گوبرناپاک ہے؟
سوال(82- 269):ہمارے یہاں لوگ گائے ،بیل اور بھینس کے گوبر سے گھر وغیرہ لیپتے ہیں، اوراسے سکھا کر ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اس سے کھانا پکاتے ہیں ، اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گوبر ناپاک ہوتا ہے؟
جواب :گائے، بیل ،اونٹ اوربھینس وغیرہ ماکول اللحم(جن کا گوشت کھانا حلال ہے) جانوروں کے پیشاب وپاخانے پاک ہیں، حضرت انس رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے پھر انھیں پیٹ کی بیماری لاحق ہوگئی ،تو رسول اللہ ﷺنے انھیں اونٹوں کے ریوڑ میں جاکر ان کے دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا ۔ (رواه أحمد([256])والشيخان([257]))
یہ حدیث اونٹ کے پیشاب کی طہارت کی دلیل ہے ،اور اسی پر دوسرے ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب وپاخانے کو بھی قیاس کیا جائے گا،اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے بکری کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے ۔(اخرجه أحمد([258]) ومسلم([259])وغيره من حديث جابر بن سمرة وغيره)
اور امام شوکانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ قاعدہ:” اصل اشیاء میں طہارت ہے“ کو لیتے اور برأة اصلیہ کے استصحاب کو مد نظر رکھتے ہوئے راجح تمام ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب وپاخانے کی طہارت ہے، نجاست”اصل“اور ”برأة“ کے مقتضی حکم کو بدلنے والا ایک شرعی حکم ہے،اس واسطے اس کے دعویٰ کرنے والے کی بات بلا دلیل قبول نہیں کی جائے گی ، اور اس کی نجاست کے قائلین کی ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی“ ۔ ([260])
اور امام ابن تیمیہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ان کی نجاست کاقائل صحابہ کرام میں کوئی نہیں،بلکہ ان کی نجاست کا قول محدث ہے ،صحابہ کرام میں سے کوئی ان کا سلف نہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب وپاخانہ ناپاک ہے،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھنے سے ممانعت اس واسطے ہے کہ یہ نمازی کو اس حالت میں ضرر اور تکلیف پہونچاسکتا ہے اس لئے اس سے اس کے پیشاب وپاخانے کی نجاست ثابت نہیں ہوتی۔
مرے ہوئے بیل کے چمڑے سے استفادہ کی شکل
سوال(83- 270): مرے ہوئے بیل کا چمڑا پاک ہے یا ناپاک ؟ اور اس سے استفادہ کی کیا شکل ہوگی؟
جواب: وہ جانور جن کا گوشت کھانا حلال ہے اگر انھیں شرعی طریقے پر ذبح کیا جائے تو ان کا چمڑا پاک ہوتا ہے ،اور دباغت سے پہلے اور دباغت کے بعد دونوں صورتوں میں ان سے استفادہ جائز ہے ، لیکن اگر کوئی ماکول اللحم جانور مرجائے اور ذبح نہ کر سکیں تو وہ ناپاک ہوجاتا ہے ،اور دباغت کے بعد اس کے چمڑا سے استفادہ کر سکتے ہیں ، دباغت سے قبل نہیں ،حضرت میمونہ رضي الله عنها کی ایک لونڈی کی بکری مر گئی اور اسے چمڑے کے ساتھ پھینک دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”هَلاَّ أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا فَدَبَغْتُمُوهُ فَانْتَفَعْتُمْ بِهِ “تم لوگوں نے اس کا چمڑا کیوں نہیں لے لیا کہ دباغت دےکر اس سے استفادہ کرتے۔ (رواه مسلم([261]))
اس سے معلوم ہوا کہ مرے ہوئے ماکول اللحم جانور کے چمڑے سے استفادہ دباغت دینے کے بعد کر سکتے ہیں، اس سے قبل نہیں۔
یہی حکم آپ کے مرے ہوئے بیل کے چمڑے کا ہے ، دباغت سے قبل وہ ناپاک ہے اور دباغت دینے کے بعد وہ پاک ہوجائے گا ، اور اس سے آپ استفادہ کر سکیں گے۔
مشرک کی نجاست حکمی یا حقیقی؟
سوال(84- 271):اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾([262])مشرک لوگ ناپاک ہیں، تو کیا ایک مشرک نہانے دھونے کے بعد بھی ناپاک رہتا ہے؟اور اس سے ہاتھ ملانے سے اپنا ہاتھ بھی ناپاک ہوجاتا ہے؟
جواب:یہاں آیت کریمہ میں نجاست سے مراد ان کے جسم اور بدن کی ظاہری نجاست نہیں ہے، بلکہ ان کے عقیدہ اور شرک وکفر کی نجاست ہے،بالفاظ دیگر یہاں معنوی نجاست مراد ہے،ظاہری اور جسمانی نجاست مراد نہیں ہے،ورنہ رسول اللہﷺ ایک مشرکہ عورت کے مشکیزے سے پانی لے کر استعمال نہ فرماتے اور ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے قبل مسجد نبوی کے کھمبے میں نہ باندھتے۔
اس واسطے غیر مسلم کا بدن وغیرہ مطلق نجس نہیں ہوتا ہے ،بلکہ نہانے دھونے سے وہ جسمانی طور پرپاک ہوجاتا ہے ،اور اس سے ہاتھ ملانے یا اس کی چھوئی ہوئی کسی چیز کے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
الکوحل کی نجاست ظاہری یا باطنی
سوال(85- 272):الکوحل جسے روح الخمر کہا جاتا ہے،اگر کسی بدن میں لگانے والی دوا میں آمیز ہو توکیا اس کو استعمال کر سکتے ہیں ؟اگر الکوحل اور شراب کا صرف پینا ممنوع ہے ،تو ایسی صورت میں:﴿ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ﴾ ([263]) کا کیا مطلب ہے؟
جواب:میری رائے میں ایسی دوا کے بدن میں لگانے کی بوقت مجبوری و اضطرار گنجائش ہے جس میں الکوحل آمیز ہو ،اور شراب کے بدن یا کپڑے میں لگ جانے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا ، کیونکہ شراب کی نجاست معنوی ہے، ظاہری نہیں،اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ:
﴿ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ﴾
میں شراب،جوا،تھانوں،فال کے تیروں کو نجس کہا ہے ،اور سب کو خمر(شراب)پر عطف کیا ہے، اور جب معلوم ہے کہ فال کے تیروں اور تھانوں کی نجاست ظاہری اور حسی نہیں معنوی ہے،اسی طرح جُو ابھی کوئی ٹھوس جسم والی چیز نہیں ہے کہ اس کی نجاست کو جسمانی اور حسی کہا جائے ،اس واسطے اس کی نجاست کو معنوی ماننا پڑے گا۔
لہذا جیسے آیت کریمہ میں ان سب اشیاء کی معنوی نجاست مراد ہے ،اسی طرح شراب کی بھی معنوی نجاست مراد ہوگی ،یعنی یہ بہت ہی نقصان دہ اور مہلک چیز ہے اور اس کا پینا انتہائی گناہ کا عمل ہے، یہ نہیں کہ شراب حسی طور پر ناپاک ہے۔
البتہ اضطرار نہ ہو تو اس کے ظاہری استعمال سے بھی احتراز کرنا چاہئے ، کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ حرام میں شفا نہیں۔([264])
بھول کر ناپاک چٹائی یا مصلی پر نماز پڑھ لی گئی تو ؟
سوال(86- 273): اگر کسی شخص نے لاعلمی میں ایسی چٹائی یا مصلی پر نماز پڑھنا شروع کیا جس میں پیشاب یا اس طرح کی کوئی دوسری گندگی لگی ہوئی ہے، تو کیا وہ اس جگہ پر کھڑا رہتے ہوئے اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا یا دوران نماز سلام پھیردے؟
جواب: صورت مسئولہ میں اس کو ناپاکی اور گندگی کی اطلاع ملتے ہی ناپاک مصلی یا چٹائی کو ہٹا کر یاخود اس سے ہٹ کر پاک و صاف جگہ پر اپنی بقیہ نماز مکمل کرنی چاہئے ،ناپاکی کی اطلاع ملنے کے باوجود بھی اس پر بقیہ نماز مکمل کرنا جائز نہیں، اس طرح کی اطلاع کے بعد فوراً سلام پھیرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت ابوسعیدخدری رضي الله عنه سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضي الله عنهم کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے دونوں جوتوں کو نکال دیا اور انھیں اپنے بائیں طرف رکھ دیا، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے آپ کو ایسا کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتوں کونکال دیا، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا:
”مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ؟ قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ، فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ :إِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا “(رواه أحمد([265]) وابوداود([266]) والدارمي([267]) والحاکم([268])وصححه الألباني([269]))
تم کو کس چیز نے جوتوں کو اتارنے پر آمادہ کیا؟ صحابہ کرام رضي الله عنه نے کہا: ہم نے آپ کو اپنا جوتا نکالتے ہوئے دیکھاتو ہم نے بھی اپنے جوتے نکال کر الگ رکھ دئے، آپ نے فرمایا: جبرئیل عليه السلام میرے پاس آئے اور مجھے خبردار کیا کہ دونوں جوتوں میں گندگی لگی ہوئی ہے، یعنی اس کی بناء پر جوتے نکالے تھے، تمہارے جوتے میں گندگی نہیں تھی اس واسطے ان کے نکالنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لاعلمی میں اگر کوئی کسی ناپاک کپڑے ،یا ناپاک جگہ،یا ناپاک جوتے وغیرہ میں نماز پڑھ رہا ہو تو معلوم ہونے کے فوراً بعد اسے گندگی لگے ہوئے کپڑے یا جوتے کو نکال دینا چاہئے، اسی طرح ناپاک جگہ سے ہٹ کر پاک وصاف جگہ میں نماز پڑھنی چاہئے، ایسا کرنے سے پڑھی ہوئی نماز فاسد نہیں ہوتی، اور مصلی کے لئے صرف باقی نماز پڑھ لینا کافی ہوگا، لیکن معلوم ہونے کے بعد اسی حالت میں برقرار رہنا جائزنہیں۔
تم بفضل الله و توفيقه المجلد الأول من نعمة المنان، تقبله الله ونفع به المسلمين، وسهل إتمام المجلدات الباقية، وصلى الله وسلم على عبده ورسوله محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
خخخخخ
([1]) صحيح البخاري:1/72[160] كتاب الوضوء، باب الإستجمار وترا، صحيح مسلم: 1/160 [665] کتاب الطهارة، باب کراهية غمس المتوضئ.
([3]) صحيح البخاري:1/54 [172]كتاب الوضوء،باب إذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعا، صحيح مسلم:1/162 [677] کتاب الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب.
([4]) مسند أحمد: 5/ 309 [22689]، سنن ابي داود: 1/28 [75]كتاب الطهارة، باب سؤر الهرة، سنن الترمذي:1/153 [92] كتاب الطهارة،باب سؤر الهرة، سنن النسائي: 1/55 [68] كتاب الطهارة، باب سؤر الهرة، سنن ابن ماجه: 1/ 131 [367] کتاب الطهارة وسننها، باب الوضوء بسؤر الهرة والرخصة في ذلك، وقال الألباني: صحيح.
([6]) سنن ابي داود:4/540 [ 5273] كتاب الأدب، باب ما جاء في الختان.
([7]) مسند البزار: 12/318[6178].
([8]) المعجم الکبير: 8/299 [8173].
([9]) سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2/253-385[722].
([10]) سنن ابي داود: 1/230[4175] كتاب الترجل، باب ما جاء فى المرأة تتطيب للخروج، وقال الألباني: حسن.
([11]) مسند أحمد: 4/413[19711] .
([12]) سنن الترمذي: 4/17[2786] كتاب الأدب، باب ماجاء في كراهية خروج المرأة متعطرة، وقال الألباني: حسن.
([13]) سنن النسائي: 8/153[5126] کتاب الزينة، باب ما يكره للنساء من الطيب، وقال الألباني: حسن.
([14]) صحيح ابن خزيمة:3/91[1681]كتاب الصلاة، باب التغليظ في تعطر المرأة عند الخروج ليوجد ريحها.
([15]) سنن الترمذي: 4/17 [2787]کتاب الأدب، باب ما جاء في طيب الرجال والنساء، وقال الألباني: صحيح.
([17]) صحيح مسلم: 2/33[1024]کتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة، وأنها لا تخرج مطيبة.
([18]) صحيح مسلم: 2/33 [1025]کتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة، وأنها لا تخرج مطيبة.
([19]) شرح النووي علی مسلم: 4/163.
([20]) صحيح البخاري:1/912 [5079]كتاب النكاح، باب الثيبات، صحيح مسلم: 6/55 [5073] كتاب الإمارة، باب كراهة الطروق وهو الدخول ليلا لمن ورد من سفر.
([22]) صحيح البخاري:10/334 [5889]كتاب اللباس،باب قص الشارب، صحيح مسلم: 1/152 [620] كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([23]) صحيح البخاري:7/206 [5890]ٍ كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار.
([24]) انظر فتح الباري:10/344.
([25]) مسند أحمد: 6/137[25060].
([26]) صحيح مسلم:1/153 [627]كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([27]) سنن النسائي: 8/126 [5040]كتاب الزينة، باب من سنن الفطرة، وقال الألباني: حسن.
([28]) سنن الترمذي:5/91 [2757]كتاب الادب،باب ما جاء فى تقليم الأظفار،وقال الألباني: حسن.
([29]) انظر نيل الاوطار: 1/136.
([30]) صحيح البخاري: 7/206[5892]كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار، صحيح مسلم: 1/153 [625] کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([31]) مسند أحمد: 2/366 [8785].
([32]) صحيح مسلم: 1 /153 [626] کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([33]) انظر: نيل الأوطار: 1/142.
([34]) صحيح مسلم: 1 /153 [623] کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([35]) صحيح مسلم: 1/153 [625] کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة.
([36]) شرح النووي علی مسلم:3/151.
([39]) صحيح البخاري:7/205[5885]كتاب اللباس،باب المتشبهين بالنساء والمتشبهات بالرجال.
([41]) صحيح البخاري:7/212[5934]كتاب اللباس، باب الوصل في الشعر، صحيح مسلم: 6/166 [5690]كتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة.
([42]) صحيح البخاري:10/ 379 [5943] كتاب اللباس، باب الموصولة، صحيح مسلم: 6/166 [5695] كتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة.
([43]) صحيح مسلم:6/183[5555]كتاب اللباس والزينة، باب النهي عن لبس الرجل الثوب المعصفر.
([44]) مسند أحمد: 2/162[6513].
([47]) سنن الترمذي: 4/11 [2762]كتاب الأدب، باب ما جاء في الأخذ من اللحية.
([49]) صحيح البخاري:10/349[٥٨٩٢ ]كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار.
([50]) فتح الباري:10/350، تحفة الأحوذي:4/11.
([54]) صحيح البخاري:1/6[1]كتاب بدء الوحی،باب كيف كان بدء الوحي إلىٰ رسول الله @.
([55]) انظر:صحيح البخاري: 3/ 263[1395] كتاب الزكاة،باب وجوب الزكاة، صحيح مسلم: 1/196[19] كتاب الإيمان، باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام.
([56]) مسند أحمد : 6/100[24694].
([57]) سنن ابي داود:4/245 [4405] کتاب الحدود، باب ما جاء فی المجنون يسرق أو يصيب حدا، وقال الألباني: صحيح.
([58]) سنن النسائي: 6/156 [2432] کتاب الطلاق، باب من لا يقع طلاقه من الازواج، وقال الألباني: صحيح.
([59]) مؤطا مالك:1/19 [33]كتاب الطهارة، باب العمل في الوضوء.
([60]) صحيح البخاري :1/52 [162]كتاب الوضوء، باب الإستجمار وترا.
([61]) سنن ابي داود: 1/55 [144]کتاب الطهارة، باب في الإستنثار، وقال الألباني: صحيح.
([63]) سنن ابي داود: 1/56 [145]كتاب الطهارة، باب تخليل اللحية.
([64]) السنن الکبری :1/54 [250]كتاب الطهارة، باب تخليل اللحية.
([65]) ارواء الغليل:1/130[ 92].
([67]) صحيح مسلم:1/149[602]کتاب الطهارة،باب استحباب إطالة الغرة،والتحجيل فى الوضوء.
([69]) صحيح البخاري:1/473 [363] کتاب الصلاة، باب الصلاة في الجبة الشامية.
([70]) سنن الدارمي:1/268 [1091]كتاب الطهارة، باب في المرأة الحائض تختضب والمرأة تصلي في الخضاب.
([71]) السنن الکبری:1/77[368]كتاب الطهارة،باب في نزع الخضاب عند الوضوء إذا كان يمنع الماء.
([72]) سنن الدارمي:1/268 [1095]كتاب الطهارة،باب في المرأة الحائض تختضب والمرأة تصلي في الخضاب.
([73]) مصنف عبد الرزاق: 4/318 [7930]كتاب الصيام، باب خضاب النساء.
([74]) سنن ابي داود : 1/132[ 336]كتاب الطهارة، باب في المجروح يتيمم، وقال الألباني: حسن دون قوله: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ.
([75]) سنن ابن ماجه: 1/189[572]كتاب الطهارة، باب في المجروح تصيبه الجنابة فيخاف على نفسه إن اغتسل.
([76]) سنن الدارقطني:1/349 [729]كتاب الطهارة، باب جواز التيمم لصاحب الجراح مع استعمال الماء وتعصيب الجرح.
([78]) سنن ابن ماجه: 2/784 [2340]كتاب الأحكام ،باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، وقال الألباني: صحيح.
([79]) موطا امام مالك:2/745[31]كتاب الأقضية، باب القضاء في المرفق.
([83]) صحيح البخاري:1/58 [185]کتاب الوضو، باب مسح الرأس كله، صحيح مسلم: 1/145 [580]کتاب الطهارة، باب في وضوء النبي @، سنن ابي داود:1/45 [118] کتاب الطهارة،باب صفة وضوء النبي @، سنن الترمذي: 1/47 [32]کتاب الطهارة، باب ماجاء في مسح الرأس أنه يبدأ بمقدم الرأس الى مؤخره.
([84]) صحيح البخاري:1/58 [185] کتاب الوضوء، باب مسح الرأس كله،صحيح مسلم: 1/145 [580] کتاب الطهارة، باب في وضوء النبي @.
([85]) صحيح البخاري:1/297 [192] کتاب الوضوء، باب مسح الرأس مرة.
([86]) سنن ابي داود:1/18 [110]کتاب الطهارة،باب صفة وضوء النبي @،وقال الألباني: صحيح.
([87]) صحيح مسلم: 1/159 [659] کتاب الطهارة، باب المسح علی الناصية والعمامة.
([88]) صحيح البخاري: 1/62 [205]کتاب الوضو، باب المسح علی الخفين.
([89]) مسند أحمد: 3/410[15384].
([90]) سنن ابي داود: 1/65 [168]کتاب الطهارة، باب في الإنتضاح.
([91]) سنن النسائي: 1/86 [135]كتاب الطهارة، باب النضح.
([92]) سنن ابن ماجه:1/157 [461] کتاب الطهارة، باب ماجاء في النضح بعد الوضوء.
([93]) صحيح ابن ماجه: 1/77 [376].
([95]) سنن ابن ماجه:1/157 [462] کتاب الطهارة، باب ماجاء في النضح بعد الوضوء.
([96]) سنن الدار قطني:1/198 [390]كتاب الطهارة،باب في نضح الماء على الفرج بعد الوضوء.
([97]) مشکاة: 1/69-70،صحيح ابن ماجه: 1/77[377].
([98]) سنن ابن ماجه:1/157[461]كتاب الطهارة وسننها،باب ما جاء في النضح بعد الوضوء.
([99]) صحيح ابن ماجه: 1/77 [376].
([100]) سنن الترمذي:1/71 [50] کتاب الطهارة، باب في النضح بعد الوضوء.
([102]) سنن الترمذي:1/122[82]کتاب الطهارة،باب الوضوء من مس الذكر،وقال الألباني: صحيح.
([103]) سنن النسائي:1/216 [447] كتاب الغسل والتيمم ،باب الوضوء من مس الذكر، وقال الألباني: صحيح الإسناد.
([104]) سنن الترمذي: 1/142 [85] کتاب الطهارة، باب ترك الوضوء من مس الذكر، وقال الألباني: صحيح.
([105]) سنن النسائي:1/101[165]كتاب الطهارة،باب ترك الوضوء من ذلك،وقال الألباني: صحيح.
([106]) مجموع فتاوی ابن تيمية:21/241.
([107]) تمام المنة في التعليق علی فقه السنة:ص103.
([108]) مجموع فتاوی ورسائل لابن عثيمين:4/203.
([111]) سنن ابي داود:1/243 [638]کتاب الصلاة، باب الإسبال في الصلاة، وقال الألباني: ضعيف.
([112]) مسند أحمد: 4/67 ، 5/379.
([114]) مشکوٰةالمصابيح مع تعليق الشيخ الألباني:1/238.
([116]) سنن ابي داود:1/243[638]کتاب الصلاة،باب الإسبال في الصلاة،وقال الألباني:ضعيف.
([117]) تقريب التهذيب:ص 629 [ 5701].
([118]) سنن ابي داود: 1/243 [637]کتاب الصلاة، باب الإسبال في الصلاة.
([119]) ضعيف ابي داود : 1/218 [97] کتاب الصلاة، باب الإسبال في الصلاة.
([120]) مسند أحمد:6/210[ 25766] .
([121]) سنن ابي داود:1/70 [179]كتاب الطهارة، باب الوضوء من القبلة، سنن الترمذي:1/133 [86] كتاب الطهارة، باب ما جاء في ترك الوضوء من القبلة، سنن النسائي: 1/104 [170] كتاب الطهارة، باب ما جاء فى ترك الوضوء من القبلة، سنن ابن ماجه: 1/168 [502]كتاب الطهارة وسننها، باب الوضوء من القبلة، وقال الألباني: صحيح.
([122]) مسند إسحاق بن راهويه: 2/172، وقال الألباني: ضعيف، انظر: سلسلة الاحاديث الصحيحة: 2/427 [999].
([123]) صحيح أبي داود: 1/323 .
([124]) صحيح مسلم: 2/51 [1118] كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود.
([125]) سنن الترمذي: 5/524 [ 3493] كتاب الدعوات، باب رقم 76، وقال الألباني: صحيح.
([127]) صحيح البخاري: 1/79 [282]كتاب الغسل، باب إذا احتلمت المرأة،صحيح مسلم: 1/172 [738] كتاب الحيض، باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها.
([128]) صحيح البخاري: 1/44 ،كتاب العلم، باب الحياء فى العلم.
([129]) سنن ابن ماجه:1/100 [273] كتاب الطهارة وسننها، باب لا يقبل الله صلاة بغير طهور، وقال الألباني: صحيح.
([131]) صحيح البخاري: 1/79 [282] كتاب الغسل، باب إذا احتلمت المرأة،صحيح مسلم: 1/172 [738]كتاب الحيض، باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها.
([132]) صحيح البخاري: 8/29 [6091] كتاب الأدب، باب التبسم والضحك، صحيح مسلم: 1/172 [738] كتاب الحيض، باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها.
([133]) صحيح البخاري:1/288 [282]كتاب الغسل، باب إذا احتلمت المرأة،صحيح مسلم: 1/172 [738] کتاب الحيض، باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها.
([134]) مصنف عبدالرزاق:2/347 [3644] کتاب الصلاة، باب الرجل يصلی وهو جنب.
([135]) مصنف عبدالرزاق:2/347 [3645] کتاب الصلاة، باب الرجل يصلی وهو جنب.
([136]) مصنف عبدالرزاق:2/347[3646]کتاب الصلاة، باب الرجل يصلی وهو جنب.
([137]) صحيح مسلم: 1/185 [ 802] كتاب الحيض،باب إنما الماء من الماء.
([138]) صحيح البخاري: 1/79 [282] كتاب الغسل، باب إذا احتلمت المرأة،صحيح مسلم: 1/172 [738] كتاب الحيض، باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها.
([139]) صحيح البخاري:1/72 [248-249] كتاب الغسل، باب الوضوء قبل الغسل.
([142]) صحيح مسلم: 4/11 [770] کتاب الحيض، باب حکم ضفائر المغتسلة.
([143]) سنن الترمذي:1/175 [105] کتاب الطهارة، باب هل تنقض المرأة شعرها عند الغسل؟ وقال الألباني: صحيح، مشکاة: 1/37 [٤٣٨] باب الغسل، فقه السنة:1/74.
([145]) موطا امام مالك: 2/278[ 680]كتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن، وقال الألباني: صحيح، انظر: ارواء الغليل: 1/ 158 [ 122].
([148]) صحيح البخاري: 1/79 [283] كتاب الغسل، باب عرق الجنب، وأن المسلم لا ينجس، صحيح مسلم:1/194 [851] کتاب الحيض، باب الدليل على أن المسلم لا ينجس.
([150]) صحيح البخاري: 4/68 [2990] كتاب الجهاد والسير، باب كراهية السفر بالمصاحف إلىٰ أرض العدو، صحيح مسلم: 6/30 [4946] کتاب الإمارة، باب النهي أن يسافر بالمصحف إلى أرض الكفار.
([151]) صحيح البخاري: 1/82 ، كتاب الحيض، باب قراءة الرجل فى حجر امرأته وهي حائض.
([153]) صحيح البخاري: 1/96 [348]كتاب التيمم، باب التيمم ضربة، صحيح مسلم:2/140 [1595] كتاب المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها.
([155]) مسند أحمد: 4/203 [17812].
([156]) سنن ابي داود:1/132 [334] کتاب الطهارة، باب إذا خاف الجنب البرد أيتيمم، وقال الألباني: صحيح.
([157]) سنن الدار قطني: 1/329 [681] کتاب الطهارة، باب التيمم.
([158]) مسند أحمد: 5/146[21304].
([159]) سنن ابي داود: 1/130 [333] کتاب الطهارة، باب الجنب يتيمم، وقال الألباني: صحيح.
([160]) انظر المغني:1/276، المحلی:2/192.
([162]) صحيح مسلم:1/172[738]کتاب الحيض،باب وجوب الغسل علی المراة بخروج المني منها.
([163]) مسند أحمد: 5/180[21568].
([164]) سنن الترمذي: 1/211[124]کتاب الطهارة، باب التيمم للجنب إذا لم يجد الماء، وقال الألباني: صحيح.
([166]) سنن ابي داود : 1/133 [338] کتاب الطهارة، باب في المتيمم يجد الماء بعد ما يصلي في الوقت، وقال الألباني: صحيح.
([167]) سنن النسائي: 1/213 [433] كتاب الغسل والتيمم ،باب التيمم لمن يجد الماء بعد الصلاة، وقال الألباني: صحيح.
([168]) موطا امام مالك: 1/62 [105] كتاب الطهارة، باب المستحاضة.
([170]) مسند أحمد: 6/ 320 [26716]، سنن ابي داود: 1/111 [274] كتاب الطهارة، باب في المرأة تستحاض،سنن النسائي:1/182[355]كتاب الحيض والإستحاضة، باب المرأة يكونلها أيام معلومة تحيضها كل شهر، سنن ابن ماجه: 1/ 204 [623] کتاب الطهارة وسننها، باب ما جاء في المستحاضة التي قد عدت ايام اقرائها قبل أن يستمر بها الدم، وقال الألباني: صحيح.
([171]) سنن ابي داود:1/121[304]كتاب الطهارة،باب من قال توضأ لكل صلاة،وقال الألباني: حسن.
([172]) سنن النسائي: 1/185[362]كتاب الحيض والإستحاضة،باب الفرق بين دم الحيض والإستحاضة، وقال الألباني: حسن صحيح.
([173]) صحيح ابن حبان: 4/180 [1348]كتاب الطهارة، باب الحيض والإستحاضة.
([174]) سنن الدار قطني: 1/383 [789] كتاب الحيض.
([175]) المستدك للحاکم:1/281 [618] کتاب الطهارة.
([176]) موطا امام مالك:1/ 59 [97] كتاب الطهارة، باب طهر الحائض، وقال الألباني: صحيح، انظر ارواء الغليل:1/ 218 [198].
([177]) موطا مالك برواية امام محمد:1/53 [85] كتاب الصلاة، باب المستحاضة.
([178]) صحيح البخاري:1/87 ،كتاب الحيض، باب إقبال المحيض وإدباره.
([179]) مسند أحمد:6/439[27474].
([180]) سنن ابي داود: 1/116 [287] كتاب الطهارة، باب من قال إذا أقبلت الحيضة تدع الصلاة، وقال الألباني: حسن.
([181]) سنن الترمذي: 1/221 [128] كتاب الطهارة، باب ما جاء في المستحاضة تتوضأ لكل صلاة، وقال الألباني: حسن.
([182]) انظر فقه السنة:1/84 ،87، 88 ، اتحاف الکرام: ص٤٠.
([183]) مسند أحمد: 6/ 303 [26584]، سنن ابي داود:1/123 [311] کتاب الطهارة، باب ما جاء في وقت النفساء، سنن الترمذي: 1/256 [139] کتاب الطهارة، باب ما جاء في كم تمكث النفساء، سنن ابن ماجه: 1/ 213 [648] کتاب الطهارة وسننها، باب النفساء کم تجلس، وقال الألباني: حسن صحيح.
([184]) سنن ابن ماجه:1/213 [649] كتاب الطهارة وسننها، باب النفساء كم تجلس، وقال الألباني: ضعيف جدا.
([185]) انظر نيل الأوطار: ١/ ٣٣١، ومابعده.
([186]) صحيح البخاري:1/84 [307] كتاب الحيض، باب غسل دم المحيض.
([188]) صحيح مسلم:1/196 [720] کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([189]) صحيح مسلم:1/167 [707] کتاب الحيض، باب مباشرة الحائض فوق الإزار.
([190]) صحيح البخاري:2/28 [938]كتاب العيدين، باب اعتزال الحيض المصلى، صحيح مسلم: 3/20 [2093]کتاب صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلىٰ المصلى.
([191]) صحيح مسلم: 1/194 [852]كتاب الحيض، باب ذكر الله تعالى في حال الجنابة وغيرها.
([192]) مسند ابي عوانه: 1/185[578].
([194]) سنن الترمذي:1/236 [131] كتاب الطهارة، باب ما جاء فى الجنب والحائض، وقال الألباني: ضعيف، انظر: ارواء الغليل: 1/206 [192] کتاب الطهارة، باب الحيض.
([195]) انظر مجموع فتاوی ابن تيمية: 26/191.
([196]) صحيح البخاري:1/407 [305] کتاب الحيض، باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت.
([198]) موطا امام مالك: 1/199 [ 469] كتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن، سنن الدار قطني: 1/219 [437] كتاب الطهارة، باب في نهي المحدث عن مس القرآن، وقال الألباني: صحيح، انظر: ارواء الغليل: 1/ 158 [122].
([203]) صحيح مسلم: 1/196 [720] کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([204]) شرح النووی لمسلم: ٣/ ٢٠٤.
([205]) صحيح البخاري:٩/ ٢٣٢ [٥١٧٠] كتاب النكاح، باب الوليمة ولو بشاة.
([206]) صحيح البخاري: ٩/٢٣٠ [٥١٦٦] کتاب النکاح، باب الوليمة حق.
([207]) سنن ابي داود:1/108 [264] کتاب الطهارة، باب في إتيان الحائض.
([208]) سنن النسائي:1/153[289]كتاب الطهارة،باب ما يجب على من أتى حليلته في حال حيضتها.
([209]) سنن الدارمي: 1/720 [1147]كتاب الطهارة، باب من قال: عليه الکفارة.
([210]) سنن ابن ماجه: 1/210 [640]كتاب الطهارة وسننها، باب في كفارة من أتى حائضا.
([212]) سنن ابي داود:1/108 [265]کتاب الطهارة،باب في إتيان الحائض، وقال الألباني: صحيح.
([214]) صحيح البخاري: 6/359 [3322] كتاب بدء الخلق، باب إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه.
([215]) صحيح مسلم:3/ 249 [715] کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([216]) صحيح مسلم: 3/ 246 [719]کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([217]) صحيح مسلم: 3/ 244 [714]کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([218]) صحيح مسلم: 3/ 244 [713]کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.
([219]) سنن ابن ماجه: 1/215[ 656]كتاب الطهارة وسننها،باب الحائض تختضب، وقال الألباني: صحيح.
([220]) سنن الدارمي: 1/252[1094]كتاب الطهارة، باب في المرأة الحائض تختضب والمرأة تصلي في الخضاب.
([221]) صحيح البخاري: 1/84 [306] کتاب الحيض، باب الإستحاضة، صحيح مسلم:1/180 [779] کتاب الحيض، باب المستحاضة وغسلها وصلاتها.
([222]) صحيح البخاري: 1/66[ 228] كتاب الوضوء، باب غسل الدم.
([226]) انظر فقه الحديث شرح الدر البهية: 1/ 257.
([228]) سنن ابي داود :1/77 [١٩٨] کتاب الطهارة، باب الوضوء من الدم.
([229]) سنن الدارقطني:1/415 [869] كتاب الحيض،باب جواز الصلاة مع خروج الدم السائل من البدن.
([230]) صحيح البخاري:1/280،كتاب الوضوء، باب من لم ير الوضوء إلا من المخرجين من القبل والدبر.
([233]) صحيح البخاري:1/280كتاب الوضوء، باب من لم ير الوضوء إلا من المخرجين من القبل والدبر.
([236]) انظر المحلی:1/ ٣٤٨ ، ٣٥٤،٣٥٥.
([237]) مسند أحمد:1/137[ 1148].
([238]) سنن الترمذي: 2/509 [610] كتاب السفر، باب ما ذكر في نضح بول الغلام الرضيع، وقال الألباني: صحيح.
([239]) صحيح مسلم:1/164 [691]كتاب الطهارة،باب حكم بول الطفل الرضيع وكيفية غسله.
([241]) ارواء الغليل: 1/188 [166].
([242]) سنن الدار قطني:1/231 [459]كتاب الطهارة، باب نجاسة البول والأمر بالتنـزه منه، وقال الألباني: صحيح، انظر: ارواء الغليل: 1/ 310 [280].
([244]) صحيح مسلم:3/102 [557] كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة.
([245]) صحيح البخاري: 1/67 [230] كتاب الوضوء،باب غسل المني وفركه وغسل ما يصيب من المرأة، صحيح مسلم: 1/165[698] کتاب الطهارة، باب حكم المني.
([246]) صحيح البخاري: 1/65 [220] كتاب الوضوء، باب صب الماء على البول في المسجد، سنن أبي داود:1/145 [380] كتاب الطهارة، باب الأرض يصيبها البول، سنن الترمذي: 1/275 [147] كتاب الطهارة، باب ما جاء في البول يصيب الأرض، سنن النسائي:1/175 [330] كتاب المياه، باب التوقيت في الماء، سنن ابن ماجه:1/ 176 [529]كتاب الطهارة وسننها،باب الأرض يصيبها البول كيف تغسل.
([247]) مسند أحمد:4/110،سنن ابي داود:1/12[28]کتاب الطهارة، باب في البول في المستحم، سنن النسائي:1/130 [238] كتاب الطهارة، باب ذكر النهي عن الإغتسال بفضل الجنب.
([248]) صحيح البخاري:3/177 [2471]كتاب المظالم، باب الوقوف والبول عند سباطة قوم، صحيح مسلم: 1/175 [47] كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين.
([249]) صحيح مسلم: 1/162 [682] کتاب الطهارة ،باب النهي عن البول في الماء الراكد.
([250]) سنن ابي داود:1/15 [41]کتاب الطهارة،باب الإستنجاء بالحجارة، وقال الألباني:صحيح.
([251]) مسند أحمد : 5/437[23708].
([252]) صحيح مسلم: 1/154 [629] کتاب الطهارة، باب الإستطابة.
([253]) سنن ابي داود: 1/6 [7]کتاب الطهارة، باب كراهية استقبال القبلة عند قضاء الحاجة، وقال الألباني: صحيح.
([254]) سنن الترمذي:1/29[18]کتاب الطهارة،باب كراهية ما يستنجى به،وقال الألباني:صحيح.
([256]) مسند أحمد: 3/287[14061].
([257]) صحيح البخاري:1/67 [233]كتاب الوضوء، باب أبوال الإبل والدواب والغنم ومرابضها، صحيح مسلم: 5/101 [4445]كتاب القسامة، باب حكم المحاربين والمرتدين.
([259]) صحيح مسلم:1/189 [ 828]کتاب الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل.
([260]) نيل الأوطار: 1/ 50 ، باب الرخصة في بول مايؤکل لحمه.
([261]) صحيح مسلم:1/190 [832] کتاب الحيض، باب طهارة جلود الميتة بالدباغ.
([264]) صحيح البخاري: 7/143 ،کتاب الأشربة، باب شراب الحلواء والعسل.
([265]) مسند أحمد:3/92[11877].
([266]) سنن ابي داود:1/247[650]کتاب الصلاة، باب الصلاة في النعل .
([267]) سنن الدارمي:2/867[1418] كتاب الصلاة، باب الصلاة في النعلين.
([268]) المستدرك للحاکم: 1/391 [955]كتاب الصلاة، باب التأمين.