کیا فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے ؟

فھرست

سوال(3- 49):کیا فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے ؟ جب میں نے امام کو کہا کہ رسول اللہﷺ ہر نماز کے بعد ذکر و اذکار کے بعد انفرادی دعا مانگتے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ ایسا ہمیشہ نہیں کرتے تھے ، بلکہ آپ کبھی کبھی ایسا کرتے تھے ، کیا ان کا یہ کہنا صحیح ہے ؟

جواب:اس طرح کے سوالات کے جوابات کئی دفعہ تفصیل سے دئے جاچکے ہیں ، اس میں راجح یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین سے فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی یا انفرادی دعا کے التزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا :

          ”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الَّذِي نُقِلَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ ذَلِكَ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إنَّمَا هُوَ الذِّكْرُ الْمَعْرُوفُ،كَالْأَذْكَارِ الَّتِي فِي الصِّحَاحِ،وَكُتُبِ السُّنَنِ وَالْمَسَانِدِ، وَغَيْرِهَا([1])

تما م تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے ، فرض نماز کے  بعد نبی کریم ﷺ سے جو منقول ہے وہ مشہور و معروف اذکا ر ہیں ، جیسے وہ اذکا ر جو کتب صحاح ، سنن اور مسانید وغیرہ میں موجود ہیں ۔

رہا آپ کا یہ کہنا کہ رسول اللہﷺ ہر نماز کے بعد ذکرو اذکار سے فارغ ہوکر ہمیشہ انفرادی دعا مانگتے تھے تو اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے ، کیونکہ آپ سے نمازکے بعد ”اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِك وَشُكْرِك وَحُسْنِ عِبَادَتِك“وغیرہ کہنا تو ثابت ہے، مگر آپ ہمیشہ ہی اس کا اہتمام کرتے رہے اور کبھی بھی اسے ترک نہیں کیا ایسا دعوی کرنا محل نظر ہے ، اور اگر آپ کی مراد یہ ہو کہ رسول اللہﷺسلام اور اذکار کے بعد ہمیشہ انفرادی طور سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے تو قطعا درست نہیں ہے، اور اگر یہی مقصد امام صاحب کا یہ کہنے سے ہو کہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہمیشہ نہیں کرتے تھے ، بلکہ آپ کبھی کبھی ایسا کرتے تھے،تو وہ بھی درست نہیں ، رسول اللہ ﷺ سے سلام پھرنے کے بعد جو اذکار و ادعیہ منقول ہیں ان میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں ملتا ، البتہ اگر کوئی ذکر و اذکار سے فارغ ہونے کے بعد بوقت ضرورت دعا کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے فرض نماز کے بعد دعا مانگنا نہیں کہیں گے ، بلکہ عام حالات میں جیسے آدمی ضرورت کے وقت دعا مانگتا ہے ویسے ہی یہاں بھی عام حالات پر محمول کرتے ہوئے دعامانگنا ہوگا ۔

          علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اسی مسئلہ میں آگے فرماتے ہیں :

          ”وَبِالْجُمْلَةِ فَهُنَا شَيْئَانِ: أَحَدُهُمَا: دُعَاءُ الْمُصَلِّي الْمُنْفَرِدِ، كَدُعَاءِ الْمُصَلِّي صَلَاةَ الِاسْتِخَارَةِ، وَغَيْرِهَا مِنْ الصَّلَوَاتِ، وَدُعَاءُ الْمُصَلِّي وَحْدَهُ، إمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا. وَالثَّانِي: دُعَاءُ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِينَ جَمِيعًا، فَهَذَا الثَّانِي لَا رَيْبَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَفْعَلْهُ فِي أَعْقَابِ الْمَكْتُوبَاتِ، كَمَا كَانَ يَفْعَلُ الْأَذْكَارَ الْمَأْثُورَةَ عَنْهُ، إذْ لَوْ فَعَلَ ذَلِكَ لَنَقَلَهُ عَنْهُ أَصْحَابُهُ، ثُمَّ التَّابِعُونَ، ثُمَّ الْعُلَمَاءُ، كَمَا نَقَلُوا مَا هُوَ دُونَ ذَلِكَ([2])

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس میں دو باتیں ہیں :

1- تنہا نماز پڑھنے والےکا دعا کرنا جیسے نماز استخارہ وغیرہ پڑھنے والے کا دعا کرنا اور جیسے مصلی کا تنہا دعا کرنا خواہ وہ اما م ہو یا مقتدی ( تو یہ جائز ہے )۔

          2- امام اور مقتدی دونوں کا ایک ساتھ دعاکرنا تو بلاشبہ نبی کریم ﷺ فرض نمازوں کے بعد اسے نہیں کرتے تھے ، جس طرح آپ اذکار ماثورہ کا اہتمام کرتے تھے ، اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام اسے آپ سے نقل فرماتے ، پھر تابعین اور علماء کرام اسے نقل کرتے ، جیسا کہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی آپ سے نقل کی ہیں ، اور آگے فرماتے ہیں :

           ”أَمَّا دُعَاءُ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِينَ جَمِيعًا عَقِيبَ الصَّلَاةِ فَهُوَ بِدْعَةٌ([3])

رہا فرض نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اجتماعی دعاکرنا تو بدعت ہے ۔

          اس واسطے صرف اتنے پر اکتفاء کرنا چاہئے جتنا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور جو رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے اس کے کرنے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہئے ۔

کتاب العقیدہ

([1]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/ 514.

([2]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/517.

([3]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/ 519.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top