عیدین کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

فھرست

سوال(5- 51): عیدین کی نماز کے بعد امام  صاحب ہاتھ اٹھا کر دعا کریں اور مقتدی حضرات ہاتھ اٹھا کر ان کی دعا پر آمین کہتے جائیں، اس سلسلے میں جامعہ سلفیہ بنارس سے فتوی طلب کیا گیا جس سے دعا کی مذکورہ ہیئت کو غیر ثابت شدہ قرار دیا گیا، لیکن ہمارے یہاں کا ادارہ جامعہ شمس الہدی سلفیہ دلال پور صاحب گنج، جھارکھنڈ کی جانب سے ہندی زبان میں ایک اشتہار دیا گیا جس میں مذکورہ ہیئت کی دعا مانگنے کو مستحب قرار دیا گیا ،اس لئے ہمارے علاقہ کے لوگ تذبذب میں پڑ گئے ہیں کہ کون سا فتویٰ درست ہے۔

  اس سوال نامہ کے ساتھ دونوں فتوے ارسال کئے جارہے ہیں ۔

          موصوف سے گذارش ہے کہ دونوں کو پڑھ کر صحیح جواب سے مطلع کریں ، اللہ تعالی  آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

 مسئلہ : نماز عیدین کے بعد اجتماعی دعا کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو صحیح بخاری :ج1 /کی حدیث نمبر [915] کے اندر آنے والی اس عبارت کا کیا مفہوم ہوگا :

          ”فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ“

          اور دعا میں رفع الیدین کا کیا حکم ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں بالتفصیل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے، عین نوازش ہوگی۔

 جامعہ سلفیہ بنارس کا جواب:

الجواب بعون اللہ الوہاب وھو الموفق للصواب:

          صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ  عیدین میں نہ نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور نہ خطبہ کے بعد،اورسوال میں مذکور حدیث اور اس معنی کی دیگر حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں مسلمان مردوں کے ذکر و اذکار و تسبیح وغیرہ میں شامل ہوکر خود بھی ذکر و اذکار کریں ، اورا س دن کی برکات وفیوض سے خود بھی مستفیض ہوں ، ان احادیث کے الفاظ کے عموم سے عیدین کی نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کے لئےاستدلال بالکل صحیح نہیں ہے ۔

          اس لئے عیدین میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا کئے بغیر خطبہ دیا جائے اور خطبہ کے بعد دعا کئے بغیر لوگ اپنے  اپنے گھروں کو پلٹ جائیں ، جو کچھ دعائیں مانگنی ہوں امام صاحب خطبہ کے دوران ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کریں ، اور مقتدی و سامعین  حضرات ان کے دعائیہ کلمات پر آمین کہہ لیں ، اس سے زائد مسنون نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لئے :فتاوی رمضان ، استقبال رمضان ،مرعاۃ المفاتیح :5/31، فتاوی اسلامیہ،فتاوی الحج والعمرہ والصیام وغیرہ دیکھیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ابو عفان نور الہدی عین الحق سلفی مالدہی

جامعہ سلفیہ بنارس

اشتہار  جامعہ شمس الھدی سلفیہ:

دونوں عیدوں کے بعد ساموہک دعا کرنا بدعت نہیں بلکہ مستحب ( پسندیدہ ) عمل ہے

          صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دوسری احادیث کی کتابوں میں لکھا گیا حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ کی روایت  (بیان ) سے دونوں عیدوں کی نماز کے  پشچات ( بعد )ساموہک(اجتماعی ) دعا کرنے کی روشن و صاف دلیل ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا گیا ہے :

          ”قَالَتْ: كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ“(صحيح بخاري: ج:1، ص: 132)

          صحیح بخاری بھاگ  1/ پارٹ 132، ارتھ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ ہم آدیشت ہوتے تھے کہ ہم عید کے دن باکرہ ، بالغہ کو یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی نکال کر عید گاہ لے جائیں ، پس حائضہ عورتیں ہم لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور وہ لوگوں کے ساتھ تکبیرات پڑھیں گی اور ان کے ساتھ دعائیں کریں گی اور وہ امید کریں اس دن کی برکت اور پاکی کی ، اور بھی حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے صحیح مسلم میں بیان  کیا گیا ہے :

          ”قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِى الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاَةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِين“(صحيح مسلم :ج1،ص: 291)

 صحیح مسلم بھاگ :1/ پارٹ 291، ارتھ :حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو آدیش  دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں بالغہ ، حائضہ پردے میں رہنی والی عورتوں کو نکال کر عیدگاہ لے جائیں، لیکن حائضہ عورتیں نماز عیدین سے الگ رہیں گی ، اور وہ شریک رہیں گی بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں ۔

          اور دعا کے سمے  ہاتھ اٹھانے کا پرمان  وِبھنن صحیح حدیثوں سے بھی ہے ، جیسا کہ امام بخاری  رحمۃ اللّٰہ علیہ﷫ صحیح بخاری بھاگ 2/ پارٹ 938 باب رفع الایدی فی الدعاء ج2 ص938 میں ادھیائے لا کر اس ادھیائے میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ اور انس  رضی اللہ عنہ کے کتھن کو لپبندھ  کرتے ہوئے فرمایا ہے : جس سے صاف ہوتا ہے کی دعا کے سمے ہاتھ اٹھانا مستحب ( پسندیدہ ) ہے ۔

          اتہ: یللکھت پرمانوں کے آلوک میں عید کے دونوں نمازوں میں ہاتھ اٹھا کر سامووہک دعا کرنا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے۔

پرکاشن و پرچار وبھاگ

جامعہ شمس الہدی السلفیہ

دلال پور ، صاحب گنج ، جھارکھنڈ

جواب:مذکورہ بالا مسئلہ میں جامعہ سلفیہ کا فتویٰ درست ہے ،اور عیدین کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا اور مقتدی حضرات کا ہاتھ اٹھاکر اس کی دعا پر آمین کہنا احادیث سے ثابت نہیں، اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞کی جس حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے اس میں:”وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ“([1]) ہے ،جس کا مطلب نماز عیدین کے بعد امام کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اورمقتدیوں کا اس پر آمین کہنا نہیں ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور خطبے کے دوران دعا واذکار میں شرکت ہے۔

          مرعاة المفاتیح (5/31)میں ہے:

          ”واستدل بقوله:”دعوة المسلمين“ على مشروعية الدعاء بعد صلاة العيد، كما يدعىٰ دبر الصلوات الخمس،وفيه نظر؛لأنه لم يثبت عن النبي ﷺ دعاء صلاة العيدين، ولم ينقل أحد الدعاء بعدها، بل الثابت عنه ﷺ أنه كان يخطب بعد الصلاة من غير فصل بشيء آخر،فلا يصح التمسك بإطلاق قوله”دعوة المسلمين“والظاهر أن المرادبها الأذكار التي في الخطبة وكلمات الوعظ والنصح،فإن لفظ الدعوة عام،والله تعالى أعلم“

          یعنی حدیث کے الفاظ”دعوة المسلمین“ سے جیسے پانچوں نمازوں کے بعد دعا کی جاتی ہے اس طرح نماز عید کے بعد کی دعا کی مشروعیت پر استدلال کیاگیا ہے جو محل نظر ہے، اس واسطے کہ نبی ﷺ سے صلاة العیدین (کے بعد) کی دعا ثابت نہیں ہے، اور کسی نے بھی اس کے بعد آپ سے دعا مانگنا نقل نہیں کیا ہے ،بلکہ آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز کے بعد بغیر کسی اور چیز کے ذریعہ فصل کئے خطبہ دیا کرتے تھے، اس واسطے لفظ ”دعوة المسلمین“ کے اطلاق سے استدلال درست نہیں اور بظاہر اس سے مراد خطبے میں وارد اذکار اور وعظ و نصیحت کے کلمات ہیں کیوں کہ لفظ دعوة عام ہے۔

          مختصر یہ کہ کسی بھی روایت سے نماز عیدین کے بعد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اٹھا کر دعا کا مانگنا اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر آپ کی دعا پر آمین آمین کہنا ثابت نہیں، اس واسطے اس کو مسنون کہنا درست نہیں ہے۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح مسلم: 3/20[2093]کتاب صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top