سوال(7- 53):کیا صلاة الحاجہ کا ثبوت ہے ؟ اور اگر ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے ؟ براہ کرم دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں ۔
جواب : صلاة الحاجہ کے سلسلہ میں فقہ السنہ (1/213) میں سید سابق نے لکھا ہے کہ :
”امام احمد نے بسند صحیح حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے وضو کیا ، اور مکمل طور سے وضو کیا، پھر دو رکعت نماز پڑھی اور ان کو مکمل کیا تو وہ جو کچھ مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے دیر سویر ضرور عطا فرمائے گا“۔
مگر علامہ البانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تمام المنۃ:(ص٢٦٠) میں اس پر باین الفاظ تعلیق لگائی ہے :
”أنّىٰ لَهُ الصِّحَةُ وَفِي سَنَدِهِ رَجُلٌ مُجْهُولٌ؟ فَإنَّهُ فِي ”المسند“(6/ 442 – 443) مِنْ طَرِيقِ مَيمُون أبي محمد المرائى التميمي قَالَ ابن معين:”لا أعرِفُهُ“ قَالَ ابن عدي: ”فَعَلَى هَذَا يَكُونُ مَجهُولا“ وَلِذَلِكَ قَالَ الذهبي:”لا يُعْرَفُ“ وَرَاجِع إنْ شِئتَ”الميزان“و”اللسان“و”مجمع الزوائد“(2/ 278)“
”یہ حدیث کہاں سے صحیح ہو گی جب کہ اس کی سند میں ایک مجہول شخص موجود ہے !؟ کیونکہ یہ حدیث المسند (6/442-443) میں میمون ابو محمدالمرائی التمیمی کے طریق سے وارد ہے ، اس کے بارے میں ابن معین کا قول ہے: ”لاأعرفہ“میں اسے نہیں جانتا ، اور اس پر ابن عدی نے فرمایا :”فعلی هذا يکون مجهولا“پس اس کی بناء پر وہ مجہول ہوگا ، اور اسی وجہ سے امام ذہبی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول ہے:”لا یعرف“ یہ معروف نہیں ، تفصیل چاہیں تو میزان الاعتدال للذہبی، لسان المیزان لابن حجر اور مجمع الزوائد: (2/278) کا مراجعہ کریں“ ۔
اس سے معلوم ہوا کہ صلاة الحاجہ کا ثبوت نہیں ہے، رہا اس کا طریقہ تو وہ مندرجہ بالا ضعیف حدیث میں مذکور ہے۔