سوال(13- 59):گذارش خدمت اینکہ تعویذ کے سلسلہ میں مدلل شرعی حکم بیان فرمائیں ،مولانا تھانوی صاحب نے اعمال قرآنی میں بہت وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ تعویذ جائز ہے ، بتائیے کہ قرآنی آیات سے تعویذ لکھی جائے اور اسے بازو یا گلے میں لٹکایا جائے؟ جیسے آیۃ الکرسی، یا احادیث میں وارد کوئی دعا مثلاً :”أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ، رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، أَنْ يَشْفِيكَ“الخ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ بخاری شریف سے جھاڑ پھونک کا ثبوت ملتا ہے ۔
جواب:آیات قرآنیہ اور ادعیۃ و اذکا رمسنونہ سے جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنا جائز ہے ،حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں ایک بچی کو دیکھا جس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا تو آپ نے فرمایا :
”اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ“([1])
یعنی اس کو نظر بدلگی ہے اس کو جھاڑ پھونک کراؤ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَى مِنَ الْعَيْن“([2])
یعنی نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم نظر بد سے جھاڑ پھونک کرائیں ۔
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنے جھاڑ پھونک مجھ کو بتاؤ، جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں ، جب تک کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ ([3])
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اپنا ہاتھ اس مقام پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے اور تین بار بسم اللہ کہواور سات بار یہ دعا پڑھو :
”أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ“([4])
میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز کی شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے میں خوف کھاتا ہوں ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار پڑتے تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے، اور جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو میں پڑھ کر آپ کے ہاتھ پر دم کرتی اور اسے آپ کے جسم پر پھیرتی تاکہ آپ کے ہاتھ کی برکت حاصل ہو ۔ ([5])
اور علامہ سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
”قَدْأَجْمَعَ العُلْمَاءُ عَلَى جَوَازِالرُّقِى عِنْدَ اِجْتِمَاعِ ثَلَاثَةِ شُرُوْطٍ:
(1) أَنْ تَكُوْنَ بِكَلَامِ اللهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ.
(2) وَبِاللِّسَانِ العَرَبِيِّ أَوْ مَايُعْرَفُ مَعْنَاهُ.
(3) أَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لَا تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَلْ بِإِذْنِ اللهِ تَعَالَى.“([6])
یعنی علماء کا تین شروط کے ساتھ جھاڑ پھونک کے جواز پر اجماع ہے:
(١) قرآنی آیات یا اللہ کے اسماء و صفات سے کیا جائے ۔
(٢) عربی زبان میں ہو ، یا ایسے کلمات ہوں جن کا مفہوم معلوم و معروف ہو ۔
(٣) یہ عقیدہ ہو کہ جھاڑ پھونک فی نفسہ مؤثر نہیں، بلکہ تاثیر پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے، اور جو اللہ نے مقدر کیا ہے وہی ہوگا ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جس کو عربی زبان معلوم نہ ہو اس کے لئے عجمی زبان میں جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے، جب اس میں کفریہ کلمات نہ ہوں،رہا غیرعربی زبان کو شعار بنالینا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دین اسلام میں سے نہیں ہے ([7])۔
ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے جھاڑ پھونک کرنا مشروع ہے ،اور جھاڑ پھونک میں دعاؤں کو پڑھ کر ہتھیلیوں میں پھونکنا اور انھیں جسم پر پھیرنا یا مریض پر دم کرنا احادیث سے ثابت ہے، مگر کاغذ وغیرہ پر لکھ کر تعویذ بنانا اور اسے بازو یاگلے میں لٹکانا احادیث سے ثابت نہیں ۔
ایک روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہم کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نیند میں ڈرے اسے یہ دعا پڑھنا چاہئے :
”أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينَ، وَأَنْ يَحْضُرُونِ“([8])
اس کی وجہ سے اسے کوئی ضرر نہیں پہونچے گا،بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھاتے تھے اور نابالغ بچوں کو کسی ٹکڑے پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے ۔ ([9])
مگر اس حدیث کا مرفوع حصہ، جس میں دعا پڑھنے کی تلقین ہے ثابت ہےاور درجہ حسن تک پہونچتا ہے ،لیکن موقوف حصہ جس میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہمکا عمل ذکر کیا گیا ہے وہ ثابت نہیں ،بلکہ ضعیف ہے ،اس کی سند میں ایک مدلس راوی ہے اور مدلس راوی کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے، لہٰذا اس سے تعویذ کے جواز پر استدلال صحیح نہیں ۔
علاوہ ازیں روایت کے الفاظ ہیں:
”وكان يحفظه أولاده الكبار، ويكتبه في ألواح ويعلقه في عنق الصغار“([10])
اسے اپنے بڑے بچوں کو یاد کرادیتے اور چھوٹے بچوں کے گلے میں تختیوں میں لکھ کر لٹکا دیتے۔
اس سے بظاہریہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تختیوں میں لکھ کر یاد کرنے کے لئےان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے، نہ کہ وہ تعویذ ہوتی تھی، اس واسطے کہ تعویذ عموماً اوراق میں لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں میں ،اور ایسا اس لئے کرتے تھے کہ بڑوں کو تو دو چار بار زبان سے تلقین کرنے سے ہی سے دعا یاد ہوجاتی تھی مگر چھوٹے بچوں کو یاد کرانے کے لئے تختیوں پر لکھ کر پڑھانا اور رٹانا پڑتا تھا ۔واللہ اعلم .
بہر حال یہ احتمال قوی طور سے موجود ہے ،واذا جاء الإحتمال بطل الإستدلال۔
پھر یہ عمل درج ذیل ارشادات نبویہ کے خلاف بھی ہے، اور صحابی کا کوئی قول یا فعل ارشاد نبوی کے خلاف ہوتو وہ حجت نہیں، وہ احادیث جن میں تعویذ گنڈے لٹکانے کی ممانعت ہے یہ ہیں :
(١) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيمَةً فَلاَ أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً فَلاَ وَدَعَ اللَّهُ لَهُ“(رواهأحمد([11])والحاکم([12])وصححه،ووافقه الذهبي)
جو تعویذ لٹکائے اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جو کوڑی لٹکائے اللہ اس کو سکون نصیب نہ کرے۔
ایک روایت میں ہے :
”مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ“(رواه أحمد([13])وصححه الألباني([14]))
جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔
(٢) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
”إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ“([15])
جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا شرک ہے ۔
اس حدیث میں اگر چہ جھاڑ پھونک کو مطلقا شرک کہا گیا ہے مگر آیات قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ ، غیر شرکیہ کلمات اور ذکر و اذکارسے جھاڑ پھونک کے جواز میں مذکورہ بالا دلیلوں کی روشنی میں یہاں ممنوع جھاڑ پھونک سے مراد کفریہ و شرکیہ یا غیر واضح و مبہم کلمات سے جھاڑ پھونک کرنا لیا جائے گا۔
(٣) حضرت ابو بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ نے ایک شخص کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ:
”أَنْ لاَ يُبْقِيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةً مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةً إِلاَّ قَطَعْتَ“(متفق عليه([16]))
کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا پٹہ یا اور کسی چیز کا پٹہ نہ رہنے دینا بلکہ سب کو کاٹ دینا ۔
(٤) حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”يَا رُوَيْفِعُ، لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِيْ، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا بَرِيءٌ مِنْهُ“([17])
اے رویفع شاید تمہاری عمر دراز ہوتو تم لوگوں کو یہ خبر کردینا کہ جو اپنی داڑھی میں گرہ لگاتے ہیں یا تانت لٹکاتے ہیں یا لید یا ہڈی سے استنجاء کرتے ہیں ان سے محمدﷺ بری ہیں ۔
ان احادیث سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ و گنڈے ، تانت ، کوڑی اور گھونگھے وغیرہ لٹکانا درست نہیں، اور یہ حدیث عام ہے، ہر طرح کی تعویذ و گنڈے کو شامل ہے، خواہ وہ قرآنی آیات یا ادعیۃ ماثورہ پر مشتمل ہوں یا دوسرے کلمات پر ،خواہ ان کی گرہوں پر قرآنی آیات پڑھ کر پھونکا گیاہو یا غیر قرآنی ۔
عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن حکیم ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ، اور دیگر بہت سے اسلاف کا یہی مذہب ہے ،اور یہی قابل اختیار اور راجح ہے ، اس لئے کہ تعویذ لٹکانے کی ممانعت عام ہے، اور کسی قسم کی تعویذ کی تخصیص ثابت نہیں، اگر قرآنی آیات اور ادعیہ ماثورہ پر مشتمل تعویذ جائز ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کی تخصیص ضرور فرماتے، جیسا کہ جھاڑ پھونک کے سلسلہ میں آپ نے تخصیص فرمائی ہے۔
بعض لوگوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی کے نا م پر قرآن کی ہر سورت کا من گھڑت نقشہ بنایا ہے اور اس کے فوائد وبرکات وضع کئے ہیں، مگر آپ پورا ذخیرۂ حدیث چھان ڈالئے کہیں بھی آپ کو تعویذ کا کوئی نقشہ نہیں ملے گا ،حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسلمانوں کا بلکہ پوری انسانیت کا کوئی بھی خیر خواہ نہیں تھا اور حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:
”إِنَّ قَوْمًا يَحْسِبُونَ أَبَا جَادٍ، وَيَنْظُرُونَ فِي النُّجُومِ، وَلَا أَرَى لِمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ خَلَاقٍ“(رواه عبد الرزاق([18]) والبيهقي([19])، وسنده صحيح)
یعنی کچھ لوگ ابجد کا حساب لگاتے ہیں اور علم نجوم پر عمل کرتے ہیں، میرے نزدیک جو ایسا کرے اس کے لئے خیر میں کوئی حصہ نہیں۔
علاوہ ازیں خلفائے راشدین کے عمل سے بھی اس کا ثبوت نہیں ،بلفظ دیگر یہ ان کے طریقے کے بھی مخالف ہے، جب کہ ہمارے لئے حکم نبوی ہے:
”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ،تَمَسَّكُوا بِهَا،وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ،وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ،وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ“(رواه أحمد([20])وابوداود([21])والترمذی([22]) وابن ماجه([23]) وقال الألباني:صحيح([24]))
تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑلو ،اس پر جمے رہو اور مضبوطی کے سا تھ اپنے دانتوں سے اسے تھام لو، اور اپنے آپ کو (دین میں) نئی باتوں سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے ،اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
نیز اس سے شرکیہ تعویذوں کا بھی دروازہ کھلتا ہے، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل تقریباً ٪٩٩فیصد تعویذیں شرکیہ کلمات ،طلمسات، الٹی سیدھی لکیروں، نمبرات، مبہم کلمات وحروف اور جن وشیاطین وغیرھم سے استمداد پر مشتمل ہوتی ہیں،اور فقہ اسلامی کاقاعدہ ہے:”مَا أدَّی ٰإِلَیٰ الْحَرَامِ فَهُوَ حَرَامٌ“جو حرام کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے۔
علاوہ ازیں عام طور سے تعویذ لٹکانے والوں کی توجہ اللہ سے ہٹ کر تعویذ کی طرف ہو جاتی ہے، چنانچہ جب تک تعویذ رہتی ہے سمجھتے ہیں کہ وہ ہر بلا سے محفوظ ہیں اور جیسے تعویذ ٹوٹتی ہے آفتوں اور بلاؤں سے ڈرنے لگتے ہیں، اس طرح ان کا اللہ پر اعتماد اور قضاء وقدر پر ایمان ختم ہو جاتا ہے اور شرک کی وادی میں بھٹکنے لگتے ہیں۔
بہت سے لوگ تعویذ گنڈے پر اعتماد کرکے ایسی بیماریوں میں بھی ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے جن کا علاج دواؤں میں ہے، بہت سے لوگ مسنون ادعیہ واذکار کو چھوڑ کر تعویذ وگنڈے پر کلی اعتماد کر لیتے ہیں، اس طرح دواؤں اور جائز جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کا جو حکم ہے اس کے تارک ہوتے ہیں اور خسارہ اٹھاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ میرے علم میں تعویذ گنڈے کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں، خواہ قرآنی آیات پر مشتمل ہوں یا اور کسی دعا پر، اس واسطے ان کے بنانے اور استعمال کر نے سے احتراز کر نا چاہئے البتہ مذکورہ بالاشروط کا لحاظ کر کے جھاڑ پھونک کر سکتے ہیں([25])۔
([1]) صحيح البخاري:10/199[5739] كتاب الطب، باب رقية العين، صحيح مسلم: 4/1725 [59] کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة.
([2]) صحيح البخاري:10/199[5738]کتاب الطب، باب رقية العين، صحيح مسلم: 4/1725 [55-56]کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة.
([3]) صحيح مسلم: 4/ 1727 [64] کتاب السلام، باب لا بأس بالرقی مالم تکن فيه شرك.
([4]) صحيح مسلم:4/1728[67]کتاب السلام،باب استحباب وضع يده علی موضع الألم مع الدعاء.
([5]) صحيح البخاري: 10/ 195[5735]کتاب الطب،باب الرقی بالقرآن والمعوذات، صحيح مسلم: 4/ 1723 [50] کتاب السلام، باب رقية المريض بالمعوذات والنفث.
([8]) سنن ابي داود: 4/218[3893]کتاب الطب، باب کيف الرقی ، وقال الألباني: حسن.
([10]) انظر فتح المجيد: ص109، مع حاشية رقم :1، للشيخ محمد حامد الفقی.
([11]) مسند أحمد:4/154[17440]، وقال الألباني: ضعيف.
([12]) المستدرك للحاکم:4/216[7501]کتاب الطب.
([13]) مسند أحمد:4/156[17458].
([14]) صحيح الجامع الصغيروزيادته: 2/ 1092[6394].
([15]) سنن ابي داود: 4/212[3883]کتاب الطب، باب في تعليق التمائم، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/336 [1632].
([16]) صحيح البخاري: 4/59 [3005] كتاب الجهاد والسير، باب ما قيل في الجرس ونحوه في أعناق الإبل، صحيح مسلم: 3/1662 [105]کتاب اللباس والزينة، باب کراهية قلادة الوتر في رقبة البعير.
([17]) سنن النسائي: 8/135[5067]کتاب الزينة، باب عقد اللحية، وقال الألباني: صحيح.
([18]) مصنف عبدالرزاق:11/26[19805]کتاب الجامع للإمام معمر بن راشد، باب الشهادة وغيرها والفخذ.
([19]) السنن الکبری:8/139[16956]کتابالقسامة،بابماجاء في کراهية اقتباس علم النجوم.
([21]) سنن ابي داود: 5/15 [4607] کتاب السنة، باب في لزوم السنة.
([22]) سنن الترمذي: 5/43 [2676]کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع.
([23]) سنن ابن ماجه: 1/15[42-43]مقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين.
([24]) انظر: ارواء الغليل :8/107[2455].
([25]) تفصیل کےلئےدیکھئے: تیسیرالعزیزالحمیداور فتح المجید: باب من الشرک لبس الحلقۃ، وباب ماجاءفی الرقی والتماتم اور شیخ شمیم احمد سلفی کا گراں قدر رسالہ ”تعویذوگنڈہ کی حقیقت“.