جادو کا علاج جادو سے درست نہیں

فھرست

سوال(14- 60): ہمارے یہاں کچھ لوگ صحیح بخاری کے حوالہ سے جادو کا علاج بذریعہ جادو جائز اور درست کہتے ہیں ، تو کیا ان کی بات درست ہے کہ اس پر عمل کیا جائے ؟ یا درست نہیں ہے ؟

جواب: اگر جادو کا علاج قرآن مجید اور ادعیہ ماثورہ و مُباحہ کے ذریعہ کیا جائے تو درست ہے اور جادو کے ذریعہ کیا جائے تو درست نہیں ہے ، کیونکہ جادو ان سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک ہے جن سے اللہ کے رسول  ﷺنے اپنی امت کو آگاہ کیا ہے ،صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

          اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ([1])

سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کرنا ، ایسے نفس کو ناحق قتل کرنا جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، کافروں سے لڑائی کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگنا، اور پاکدامن بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

          اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

          مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، ثُمَّ نَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ(رواه النسائي([2]) مرفوعا، وحسنه ابن مفلح([3]))

          جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونکا تو اس نے جادو کیا ، اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا ، اور جو اللہ کو چھوڑ کر کسی چیز سے چمٹا وہ اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔

          اس روایت میں جادو کے عمل کو شرک سے تشبیہ دی گئی ہے ، اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت ہے کہ جو شخص اس سے تعلق رکھتا اور اس پر بھروسہ  کرتا ہے وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے ۔

          اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ:

           لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ أَوْ تُطِيَّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكِهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، أَوْ قَالَ: مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ(رواه البزار([4])، وقال محمد بن عبد الوهاب:اسناده جيد([5]))

            وہ ہم میں سے نہیں ہے جس نے بد شگونی لی ، یا جس کے لئے فال بد نکالا گیا ، یا جس نے کہانت کی یا جس کے لئے کہانت کی گئی ، یا جس نے جادو کیا، یا جس کے لئے جادو کیا گیا ،اور جس نے گرہ لگایا، اورجس نے کسی کاہن  کےپاس جا کر اس کے قول کی تصدیق کی ، اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ چیزوں کا انکار کیا۔

          شیخ عبد الرحمن بن حسن  بن محمد بن عبد الوہاب فرماتے ہیں :

          فكل من تلقى هذه الأمور عمن تعاطاها فقد بريء منه رسول الله ﷺ لكونها إما شركا كالطيرة، أو كفرا كالكهانة والسحر، فمن رضي بذلك وتابع عليه فهو كالفاعل لقبوله الباطل واتباعه([6])

            ہر وہ شخص جس نے ان امور کو ان کے کرنے والے سے حاصل کیا تو رسول اللہ ﷺ اس سے بری ہیں یا توا ن کے شرک ہونے کی وجہ سے جیسے طیرہ ہے ، یا کفر ہونے کی وجہ سے جیسے کہانت اور جادو ہے ، کیونکہ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اس کی متابعت  کی تو باطل کے قبول  کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی وجہ سے وہ ان سب امور کے کرنے والے ہی کی طرح ہوا ۔

          ایک حدیث میں ہے :

           مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ سَاحِرًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أَنْزَلَ اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ (رواه البزار([7]))

           جس نے کسی کاہن یا ساحر (جادو گر) کے پاس جا کر اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ باتوں کا انکار کیا ۔

           اور عبد الرحمن بن حسن نے فرمایا:

          وَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلَىْ كُفْرِ الكَاْهِنِ وَالسَّاحِرِ؛ لأنَّهُمَا يَدَّعِيَانِ عِلْمَ الغَيْبِ، وَذَلِكَ كُفْرٌ، وَالمُصَدِّقُ لَهُمَا يَعْتَقِدُ ذَلِكَ وَيَرْضَى بِهِ، وَذَلِكَ كُفْرٌ أيضاً([8])

          اس میں کاہن اور ساحر کے کافر ہونے کی دلیل ہے ،کیونکہ یہ دونوں علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور علم غیب کا دعوی کرنا کفر ہے ، اور ان دونوں کی تصدیق کرنے والا اس کے عالم الغیب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اور اس سے خوش ہوتا ہے اور یہ بھی کفر ہے ۔

            اور یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص کسی جادو گر کے پاس جادو کا علاج کرانے کی غرض سے جاتا ہے تو وہ اس کے بارے میں ان سب باتوں کا اعتقاد رکھتا ہے ۔

          دوسری بات یہ بھی ہے کہ جادو ایک حرام چیز ہے اور حرام چیز سے علاج کرنا ممنوع ہے، کیونکہ کوئی بھی بیماری ایسی نہیں ہے جس کا جائز علاج اللہ رب العالمین نے نازل نہ فرمایا ہو ، مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :

           قَالَ رَسُولُ اللهِ : مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ دَاءً، إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ دَوَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ(رواه احمد([9])،  وصححه ابن حبان والحاکم([10]))

          رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ اللہ نے کوئی بیماری نازل نہیں کی ہے مگر اس کا علاج بھی نازل کیا ہے ، جس کو معلوم ہے وہ جانتا ہے اور جسے نہیں معلوم وہ نہیں جانتا ہے۔

          اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

          مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ([11])

           کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اللہ رب العالمین نے کوئی بیماری نہیں نازل کی ہے مگر اس کا علاج بھی نازل کیا ہے ۔

          معلوم ہوا کہ ہر بیماری کی دوا ضرور موجود ہے ،لہذا علاج کرتے وقت شریعت میں بتائے گئے علاج کے طریقوں ہی کا استعمال کرنا چاہئے ، اور ناجائز اور حرام طریقے سے علاج کرنے سے گریز کرنا چاہئے ، کیونکہ حرام چیزیں د رحقیقت دوا نہیں بلکہ بیماری ہیں۔

          حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

          أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَيْدٍ الْجُعْفِىَّ سَأَلَ النَّبِىَّ ﷺ عَنِ الْخَمْرِ فَنَهَی أَوْ كَرِهَ أَنْ يَصْنَعَهَا، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ([12])

          طارق بن سوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  ﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں  اس کے بنانے سے منع فرمایا: طار ق نے کہا: میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں ،تو آپ نے فرمایا: یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے۔

          حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

           إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً، فَتَدَاوَوْا وَلاَ تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ (رواه ابوداود([13]وصححه العلامة محمد بن علي الشوکاني([14])) 

          اللہ نے بیماری اور دوا دونوں نازل فرمایا ہے اور ہر بیماری کی دوا بھی مقرر کیا ہے تو تم علاج کرو ، اور حرام چیزوں سے علاج مت کرو۔

          اور صحیح بخاری میں ہے :

          ”وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِي السَّكَرِ: إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُم([15])

          عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نشہ آور اشیاء کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے اُن چیزوں میں تمہاری شفا  نہیں رکھی ہے جن کو تمہارے لئے حرام قرار دیا ہے۔

          ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ بیماری کا علاج جائز شکل میں موجود ہے او رحرام چیزوں سے علاج کرانا اور کرنا ناجائز ہے ، لہذا جادو کا علاج جادو سے جائز نہیں ہے ، کیونکہ جادو حرام ہے ۔

            اور جو لوگ صحیح بخاری کے حوالہ سے جادو کا علاج جادو کے ذریعہ درست کہتے ہیں ان کی با ت صحیح نہیں ہے۔

          امام بخاری رحمة الله عليه نے  باب هَلْ يُسْتَخْرَجُ السِّحْرُ قائم کرکے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ  سے ایک اثر نقل کی ہے ،وہ اس طرح ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

          قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ: رَجُلٌ بِهِ طِبٌّ، أَوْ يُؤَخِّذُ عَنِ امْرَأَتِهِ أَيُحَلُّ عَنْهُ، أَوْ يُنَشَّرُ؟ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا يُرِيدُونَ بِهِ الإِصْلاَحَ، فَأَمَّا مَا يَنْفَعُ فَلَمْ يُنْهَ عَنْهُ([16])

          میں نے سعید بن مسیب رحمة الله عليه سے کہا کہ ایک آدمی کو جادو کرادیا گیا ہے ( یا اسے اس کی بیوی سے جادو کے ذریعہ مجامعت کرنے سے روک دیا گیا ہے ) کیا جادو کو کُھولوایا اور اس کا علاج کیا جاسکتا ہے ؟ تو سعید بن مسیب﷫ نے فرمایا: کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بیشک ان کا ارادہ اصلاح کا ہوتا ہے اور جو چیز فائدہ مند ہوتی ہے تو اس سے نہیں روکا گیا ہے ۔

          اس سے معلوم ہوا کہ حضرت قتادہ، سعید بن المسیب سے صرف یہ پوچھ رہے تھے کہ کیا جادو کا علاج کیا جاسکتا ہے ؟تو اس پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ نفع بخش چیزوں میں سے ہے ۔

          امام بخاری رحمة الله عليه نے اس باب کے ذریعہ جادو کے علاج کے سلسلے میں اختلاف کی جانب اشارہ کیا ہے ، یعنی کہ بعض لوگ جادو کے علاج کے قائل ہیں ، اور بعض لوگ سرے سے علاج ہی کے قائل نہیں ہیں ، اور جو لوگ جادو کے علاج کے قائل ہیں حضرت قتادہ ﷜ نے اپنے قول کے ذریعہ ان کے قول کو ترجیح دی ہے ، اس سے امام بخاری ﷫ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جادو کا علاج جادو کے ذریعہ درست ہے ۔

          اور فتح الباری میں ہے :

          وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ عَمَّنْ يُطْلِقُ السِّحْرَ عَنِ الْمَسْحُورِ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَهَذَا هُوَ الْمُعْتَمَدُ، وَيُجَابُ عَنِ الْحَدِيثِ وَالْأَثَرِ بِأَنَّ قَوْلَهُ النُّشْرَةُ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِشَارَةٌ إِلَى أَصْلِهَا، وَيَخْتَلِفُ الْحُكْمُ بِالْقَصْدِ فَمَنْ قَصَدَ بِهَا خَيْرًا كَانَ خَيْرًا، وَإِلَّا فَهُوَ شَرٌّ، ثُمَّ الْحَصْرُ الْمَنْقُولُ عَنِ الْحَسَنِ لَيْسَ عَلَى ظَاهِرِهِ، لِأَنَّهُ قَدْ يَنْحَلُّ بِالرُّقَى وَالْأَدْعِيَةِ وَالتَّعْوِيذِ، وَلَكِنْ يُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ النُّشْرَةُ نَوْعَيْنِ ([17])

          امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو جادو کئے گئے شخص سےجادو اتارتا ہے ، تو انہوں نے فرمایا : کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور یہی قابل اعتماد بھی ہے ، اور حدیث اور اثر کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول: النُّشْرَةُ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ([18]) سے اشارہ نشرہ کی اصل کی طرف ہے ، اور نشرہ کا حکم مقصد کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ، چنانچہ نشرہ سے جس نے خیر کا ارادہ کیا تو خیر ہوگا ورنہ شر ہے ۔

          پھر حسن بصری رحمة الله عليه کے قول کو اس کے ظاہر پر محمول نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ جادو کو رقیہ ، ادعیہ اور تعوذ ( اللہ کی پناہ طلب کرنا ) کے ذریعہ بھی کھولا جاتا ہے ، لیکن اس بات کا احتمال ہے کہ نشرہ کی دو قسمیں ہوں، یعنی حسن بصری ﷫ نشرہ کو اس وجہ سے ناجائز کہتے ہیں کہ ان کا یہ خیال ہے کہ  اسے  جادوگر کے علاوہ کوئی نہیں اتارسکتا ہے اور سعید بن المسیب﷫ وغیرہ نے جو جائز قرار دیا ہے وہ اس بنیاد پر کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جادو کو جادو کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی اتارا جاسکتا ہے ۔

                    علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :

          النُّشْرَةُ حَلُّ السِّحْرِ عَنِ الْمَسْحُورِ، وَهِيَ نَوْعَانِ: حَلُّ سِحْرٍ بِسِحْرٍ مِثْلَهُ، وَهُوَ الَّذِي مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ؛ فَإِنَّ السِّحَرَ مِنْ عَمَلٍ فَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِ النَّاشِرُ وَالْمُنْتَشِرُ بِمَا يُحِبُّ، فَيُبْطِلُ عَمَلَهُ عَنْ الْمَسْحُورِ، وَالثَّانِي: النَّشْرَةُ بِالرُّقْيَةِ وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالدَّعْوَاتِ وَالْأَدْوِيَةِ الْمُبَاحَةِ، فَهَذَا جَائِزٌ ([19])

          نشرہ جادو کو جادو کئے گئے شخص سے ہٹانے کو کہتے ہیں، اور اس کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم یہ ہے کہ جادو کو جادو ہی کے ذریعہ دور کیا جائے  اور اسی کو شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے ، دوسری قسم یہ ہے کہ نشرہ رقیہ ، تعوذات ، دعوات اور ادویہ مباحہ کے ذریعہ ہو، تو یہ درست اور جائز  ہے ۔

                    علامہ عبد الرحمن بن حسن بن محمد فرماتے ہیں :

          ”وعليه يحمل كلام من أجاز النشرة من العلماء، والحاصل: أن ما كان منه بالسحر فيحرم، وما كان بالقرآن والدعوات والأدوية المباحة فجائز.والله أعلم“([20])

     علماء میں سے جنہوں نے نشرہ کی اجازت دی ہے ان کے قول کو اسی پر محمول کیا جائے گا ، اور حاصل کلام یہ ہے کہ جادو کا علاج اگر جادو سے ہو تو حرام ہے ،اور اگر قرآن ، دعوات اور ادویہ مباحہ کے ذریعہ ہو تو جائز ہے ۔ واللہ اعلم .

          اس واسطے جادو کا علاج شریعت میں بتائے گئے طریقوں کے ذریعہ سے ہی کرنا چاہئے، اور جادو کے ذریعہ علاج کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح البخاري: 4/ 12[2766]کتاب الوصايا، باب قول الله تعالی: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾.

([2]) سنن النسائي:7/112[4079]كتاب تحريم الدم،باب الحكم في السحرة،وقال الألباني: ضعيف.

([3]) انظر: فتح المجيد شرح کتاب التوحيد:ص351.

([4]) مسند البزار:9/52[3578]، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغيروزيادته: 2/ 956 [5435].

([5]) انظر: کتاب التوحيد مع فتح المجيد: ص258.

([6]) فتح المجيد شرح کتاب التوحيد: ص 257، باب ما جاء في الکهانة ونحوهم.

([7]) مسند البزار:5/256[1873]،وقال الألباني: صحيح، انظر غاية المرام: ص 173[285].

([8]) فتح المجيد شرح کتاب التوحيد:ص351.

([9]) مسند أحمد:1/377[3922]، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/ 371 [1809].

([10]) انظر: نيل الاوطار: 8/ 201.

([11]) صحيح البخاري: 10/134[5678]کتاب الطب، باب ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء.

([12]) صحيح مسلم: 3/ 1573[1984] کتاب الأشربة، باب تحريم التداوی بالخمر .

([13]) سنن ابي داود:4/206 [3847]کتاب الطب،باب في الأدوية المکروهة،وقال الألباني: ضعيف.

([14]) انظر: نيل الأوطار: 4/204[3770]کتاب الطب، باب ما جاء في التداوي بالمحرمات.

([15]) صحيح البخاري: 10/78، کتاب الأشربة، باب شراب الحلواء والعسل.

([16]) صحيح البخاري: 10/ 232،كتاب الطب، باب هل يستخرج السحر.

([17]) فتح الباري: 10/233.

([18]) مسند أحمد:3/294[14167]،وقال الألباني:صحيح،انظر مشکاة المصابيح:2/ 1284[4553].

([19]) إعلام الموقعين: 4/396، فتح المجيد : ص263-264.

([20]) فتح المجيد: باب ما جاء في النشرة، ص289.

کتاب العقیدہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top