کتاب العلم

فھرست

مدارس اسلامیہ کے متعلق چند سوالات اور ان کے جوابات


سوال(1- 160): کیا مدارس اسلامیہ کے موجودہ نصاب کے ساتھ سائنس کی تعلیم کے امکانات ہیں؟

جواب: جی ہاں!اس کے امکانات ہیں اور صرف امکانات ہی نہیں،بلکہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں عربی کے مکمل کورس کے ساتھ سائنس وغیرہ کی تعلیم بھی کامیابی کے ساتھ دی جارہی ہے، قدیم فلسفہ اور منطق کی کتابوں کو نکال کر یا مناسب تخفیف کر کے جدید سائنس کو بآسانی نصاب میں داخل کیا جاسکتا ہے۔


سوال(2- 161): کیا مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لئے سائنس کی تعلیم ضروری ہے ،اور اگر ہاں تو کیوں؟

جواب: مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لئے سائنس کی تعلیم کی یقیناً ضرورت ہے، سائنس سے ہمیں ان چیزوں کے متعلق بڑی مفید معلومات ملتی ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے ہے،اس سے آفاق وانفس میں غور وفکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں،نیز علوم دینیہ میں جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی ہے اس سے ان کی حکمتیں اور مصلحتیں سمجھ میں آتی ہیں اور ان کی حقانیت کے لئے نئے دلائل میسر آتے ہیں اور احکام شرعیہ پر موثر طریقہ سے کاربند رھنے  اور ان کی تبلیغ وتفہیم کے لئے بھی سائنس ممدومعاون ہے ،اس لئے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لئے سائنس کی تعلیم کی یقینا ضرورت ہے۔

          اس سے قبل مدارس اسلامیہ میں قدیم فلسفہ داخل نصاب تھا، اس کے بھی اہداف ومقاصد تقریباً یہی تھے، اب اس کی افادیت کے کم ہو جانے اور اس کے بہت سے نظریات کےباطل ہو جانے کے بعد اس کی جگہ جدید سائنس کو رکھنا چاہئے۔


سوال(3- 162):کیا تعلیم کے ہر مرحلہ میں سائنس کی تعلیم دی جائے یا کسی خاص مرحلہ تک؟

جواب: دور حاضر میں سائنسی ایجادات ومعلومات کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اگر ممکن ہو تو تخصص کو چھوڑ کر تعلیم کے ہر مرحلہ میں اس کی تعلیم دینی چاہئے، ورنہ کم از کم عالمیت تک تو اسے ضرور داخل نصاب کرنا چاہئے۔


سوال(4- 163):کیا سائنس کے علاوہ دیگر عصری علوم کی تعلیم بھی ضروری ہے،اگر ہاں تو کن علوم کی؟

جواب:میرے خیال میں سائنس کے علاوہ ریاضی،انگریزی،ہندی اورجس علاقہ میں مدرسہ واقع ہو،وہاں کی علاقائی زبان کی تعلیم بھی ہونا چاہئے،تاکہ ان مدارس کے فارغ علماء اسلام کا پیغام لوگوں تک انھیں کی زبان میں پہنچا سکیں ، اور اسلام کے عقائد وتعلیمات پر ہونے والے اعتراضات کو سمجھ کر اعتراض کرنے والوں کی زبان میں مدلل جواب دے سکیں، دنیوی ترقی کے لئے بھی ان علوم کی معرفت ضروری ہے، قرآن کریم کے متعدد احکامات اور سیاق کلام میں دنیا کے مفید صنعتوں اور علم و فن کے سیکھنے کی ترغیب و تعلیم موجود ہے ، جیسے﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾([1]) دشمنوں کے لئے اسباب و آلات کی تیاری رکھنے کا یہ حکم ان آلات کے بنانے اور تیار کرنے کی جانکاری کا متقاضی ہے ، اسی طرح اللہ تعالی نے مختلف انبیاء کرام کو حسب ضرورت بعض صنعتوں کا علم اور مہارت عطا فرمائی ، جیسے نوح عليه السلام﷤ نے بڑی کشتی بنائی ، داؤد عليه السلام﷤ کے لئے لوہا نرم کر دیا گیا تھا ۔


سوال(5- 164):کیا اس سلسلہ میں حکومت کی مجوزہ اسکیم سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے،کیا اس سے آئندہ مدارس میں حکومت کی مداخلت کا امکان نہیں؟

جواب:امکان تو بہر حال موجود ہے، اس واسطے حکومت کی جن اسکیموں سے مدارس اسلامیہ یا ان کے اہداف ومقاصد کو نقصان پہونچے یا آئندہ ان سے ان مدارس میں حکومت کی مداخلت کا اندیشہ ہو،ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا چاہئے،مثلاًاگر حکومت کچھ اساتذہ سائنس یا عصری علوم کی تدریس کے لئے دیتی ہے مگر یہ اساتذہ ان مدارس میں تعلیم وتدریس کا صحیح کام کرنے کے بجائے وہاں افرا تفری پیدا کرتے ہیں،یا حکومت کی جانب سے تنخواہ پانے کی وجہ سے وہ وقت اور نظام کی پابندی نہیں کرتے، طلبہ کو محنت سے تعلیم نہیں دیتے، اس طرح طلبہ،مدرسہ کے نظام اور دوسرے اساتذہ کی محنت،امانت اور دیانت سے کام کرنے کے جذبہ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی شکایت اور نصیحت سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا،تو اس کو ہر گز قبول نہ کرنا چاہئے،اسی طرح کچھ ایڈ دے کر حکومت کی جانب سے مداخلت کا اندیشہ ہو تو اس کے لینے سے بھی احتراز کرنا چاہئے،البتہ ایسی اسکیمیں اور پرو گرام،جن سے ان مدارسِ اسلامیہ کو نقصان پہونچنے کا اندیشہ نہ ہو ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔


غیر اقامتی مدرسہ میں زکاۃ کی رقم کے استعمال کا حکم

سوال(6- 165):کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے مدرسہ میں دو سو طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، ہر بچہ سے پچاس روپئے  ماہانہ فیس لی جاتی ہے ،اس حساب سے ہر ماہ کل دس ہزار روپئے جمع ہوتے ہیں،لیکن اتنے پیسوں میں مدرسہ کا خرچ پورا نہیں ہوتا ،تو کیا ان اخراجا ت کی تکمیل کے لئے زکوة وخیرات کے پیسوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے ؟جبکہ :

 (١)مدرسہ میں قیام وطعام کا نظم نہیں ہے۔
(٢)مدرسہ میں مالدار اور غریب دونوں قسم کے بچے پڑھتے ہیں۔
(٣)مدرسہ میں صرف ابتدائی (مکتب کی) تعلیم دی جاتی ہے۔
 (٤)مدرسہ کا تعلیمی وقت روزانہ دو گھنٹہ ہوتاہے۔
(٥)مدرسہ کا نصاب اس طرح ہے:

١:-الف ،با،تا سے مکمل قرآن( ناظرہ ) پڑھایاجاتاہے۔
٢:-دینیات میں چمن اسلام اول تا پنجم پڑھایاجاتاہے۔
٣:-اردو پڑھنا اور لکھنا سکھایا جاتاہے۔
٤:-روز مرہ کی دعائیں،چنندہ احادیث اور سورتیں یاد کرائی جاتی ہیں۔
٥:-منھاج العربیہ جلد اول اور جلد دوم پڑھایاجاتاہے۔
٦:-نماز کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔

جواب:آپ کے مدرسہ میں جب امیر اور غریب دونوں قسم کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں تو زکوة کی جو رقم آپ لوگ جمع کریں اس کا الگ سے باقاعدہ حساب رکھیں اور اسے صرف غریب بچوں کی فیس اور کتاب،کاپی وغیرہ پر خرچ کریں،امیر بچوں پر زکوة کی رقم خرچ نہ کریں،بلکہ ان کے لئے زکوة کے علاوہ دوسرے نفلی صدقات وخیرات اور چندوں کے ذریعہ رقم حاصل کریں،اور مناسب سمجھیں تو ان کی فیس میں ا ن کے اخراجات کے مطابق کچھ اضافہ کردیں۔

          مسلمان بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے نفلی صدقات کی بھی بڑی فضیلت اور اجرو ثواب ہے ،پڑھ لکھ کر یہ بچے اپنے اساتذہ ووالدین کے علاوہ اپنے محسنین- جن کے مال ودولت اور جدو جہد کا ان کی تعلم وتربیت میں عمل دخل اور حصہ ہے- کے لئے صدقہ جاریہ ہوں گے اور جب تک وہ اور ان کے تلامذہ تدریس اور دیگر علمی کاموں وغیرہ کے ذریعہ دعوت واصلاح اور تعلیم و تربیت کا کام کریں گے تعاون کرنے والوں کو بھی اجر وثواب ملے گا ،اس واسطے ضرورت کے مطابق وقتا فوقتا اس کے لئے لوگوں کو نفلی صدقات کی بھی ترغیب دینی چاہئے اور ان  سے چندہ کرنا چاہئے ۔

          اگر آپ کے مدرسہ کی کارکردگی بہترین اور نتیجہ اطمینا ن بخش ہے تو باہر کے مدرسوں کو چندہ دینے والے آپ کے مدرسے کو کیوں چندہ نہ  دیں گے ؟یقینا دیں گے ،آپ لوگ محنت اور کوشش کرکے تو دیکھیں۔


غیر اقامتی مدرسہ میں زکاۃ کے استعمال کا حکم

سوال(7- 166):خدمت عالیہ میں معروض اینکہ میرے گاؤں میں مدرسہ محمدیہ نامی ایک غیر اقامتی ادارہ ہے، جس میں فی الحال مقامی طلبہ و طالبات کی تعداد 130 /ہے، اور پانچ اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس میں مستطیع طلبہ سے واجبی فیس بھی لی جاتی ہے ، لیکن فیس کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہ اور دیگر اخراجات پورے نہیں ہو پاتے ہیں ،جس کی وجہ سے مدرسہ مقروض رہتا ہے ، اور ذمہ داروں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذمہ داروں نے آپسی صلاح ومشورے سے یہ حل نکالا کہ ماہ رمضان المبارک میں صاحب حیثیت احباب سے تعاون کی درخواست کی جائے کہ وہ زکوۃ ، خیرات ، عطیات وغیرہ کے ذریعہ اس مدرسہ کا تعاون کریں ،تاکہ تنخواہ اور مدرسے  کی دیگر ضروریات کی تکمیل بحسن و خوبی انجام پاسکے ، جس پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ یہ مدرسہ غیر اقامتی (طلبہ کی رہائش کا نہیں)ہے ، کھانے پینے اور دیگر چیزوں کی کفالت کا فریضہ انجام نہیں دے رہا ہے ، اس لئے اس میں زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ہے۔

          حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا زکاۃ کی رقم تعلیم دینے والے اساتذہ کو بحالت مجبوری تنخواہ کے لئے دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اور مدرسے کے دوسرے مقاصد کی تکمیل میں اس کا خرچ  کرنادرست ہوگا یا نہیں؟

جواب:زکاۃکے مستحقین کا اللہ تعالی نے آیت کریمہ :﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ﴾([1])میں ذکر فرمایا ہے ، جویہ ہیں:

           1- فقراء۔
           2- مساکین ۔
3- عاملین:یعنی زکاۃ کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب و کتاب وغیرہ کے لئے حکومت کی جانب سے مامور لوگ۔
4- مؤلفۃ القوب:وہ کافر جن کا کچھ میلان اسلام کی طرف ہو اور ان کی مدد کرنے سے امید ہو کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے ،اسی طرح وہ نو مسلم جن کو اسلام پر قائم رکھنے کے لئے امداد کی ضرورت ہو اوروہ کافر لوگ جن کے مالی تعاون سے امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں گے۔

          5- الرقاب:یعنی غلاموں و لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لئے ، اسی طرح جو بے گناہ مسلمان جیلوں میں بند ہیں ان کو چھڑانے کے لئے۔
          6- الغارمین: وہ مقروض جن کے پاس قرض کی ادائیگی کی استطاعت نہ ہو۔
 7- فی سبیل اللہ: اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کے واسطے ۔

           اسی طرح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج و عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے ، بعض علماء کے نزدیک دعوت و ارشاد بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
           8- ابن السبیل: وہ مسافر جن کو دوران سفر زاد راہ ختم ہوجانے کی بناء پرمدد کی ضرورت ہو۔

          اس آیت کریمہ کی روشنی میں جو طلبہ و طالبات ان مستحقین زکاۃ میں سے ہیں ان کی کتاب و کاپی اور ان کے حصے کی تنخواہ وغیرہ اخراجات کے سلسلے میں زکاۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ، خواہ وہ مدرسہ کے ہاسٹل میں رہتے ہوں یا اپنے گھر پر ، اور جو طلبہ و طالبات مستحقین زکاۃ میں سے نہیں ہیں ان پر زکاۃ کی رقم خرچ نہیں کر سکتے ۔

           مدرسے کی عمارتوں : درسگاہ، ہاسٹل اور مطبخ وغیرہ کی تعمیر کے لئے بھی میرے نزدیک زکاۃ کی رقم خرچ کرنا مناسب نہیں ، کیونکہ ان سے عموما امیر و غریب سبھی طلبہ استفادہ کرتے ہیں ،صرف ایسے مقامات پر جہاں عمومی مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہواور زکاۃ کے علاوہ دیگر عطیات سے کسی طرح وہ بلڈنگ نہ بنا سکتے ہوں تو وہاں کے لئے بعض علماء نے عمارتوں کے لئے بھی زکاۃ کی رقم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے فی سبیل اللہ میں شامل کیا ہے ۔

           اس واسطے بلڈنگوں کی تعمیر اور اغنیاء کے بچوں کے اخراجات کا انتظام مناسب فیس اور زکاۃ کے علاوہ دوسرے عطیات و صدقات سے کرنا چاہئے ، فرمان الہی :﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾  ([2])الآیہ کی بنا پر ہر جگہ کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ زکاۃ کے علاوہ دیگر عطیات و صدقات سے اپنے بچوں و بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بند وبست کریں اور اس کے لئے مدرسہ کی عمارت بنوائیں اور اساتذہ و معلمات کی تنخواہوں کا بندو بست کریں ، گاؤں اور بستی کے مال دار لوگ اس کے لئے زمینیں وقف کریں ، بڑی بڑی رقمیں چندہ میں دیں ،یہ ان کے لئے صدقہ جاریہ اور پوری بستی والوں کے لئے دنیا و آخرت میں مفید ہوگا۔

نوٹ:مدرسہ کی عمارت کے لئے ضروری نہیں کہ بہت عالیشان ہو ، حالات و استطاعت کے اعتبار سے چھپر اور پترے کے مدرسے بنائے جا سکتے ہیں، بلکہ کسی پیڑ کے سایہ میں تعلیم ہوسکتی ہے ، اور زکاۃ کی رقم سے پختہ بلڈنگ بنوانے کی بنسبت یہ زیادہ بہتر ہے۔


خواتین کے چندے کی رقم اپنے مدرسے کے لئے رکھ لینے کا حکم

سوال(8- 167):مسجد میں سفراء آتے ہیں اور چندہ کا اعلان کرتے ہیں،مَردوں سے وصول ہونے والی رقم ہم انہیں دے دیتے ہیں،لیکن خواتین سے آنے والاچندہ ہم اپنے مدرسہ کے استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں، کیونکہ سفیر بھی اسے اپنے مدرسہ کے استعمال میں لیتے ہیں اور ہم بھی مدرسہ کے استعمال میں لیتے ہیں ،تو کیا اس طرح کرنا غلط ہے؟

جواب :ہاں،آپ لوگوں کا ایسا کرنا غلط ہے ،کیوں کہ سفراء چندے کا اعلان اور درخواست اپنے مدرسوں کے لئے کرتے ہیں، آپ کے مدرسہ کے لئے نہیں،اور مردو ں کی طرح خواتین بھی اپنے چندے انہی مدرسوں کے لئے دیتی ہیں جن کا اعلان ہوتا ہے ،اس واسطے جس طرح مردوں سے وصول ہونے والے چندے کے مستحق وہ مدارس ہوتے ہیں جن کے سفراء ان کے لئے چندے کا اعلان اور درخواست کرتے ہیں اسی طرح خواتین سے وصول ہونے والے چندے کے بھی مستحق وہی مدارس ہیں،اس لئے ان مدارس کے ذمہ داروں کی اجازت کے بغیر آپ لوگوں کا اسے اپنے مدرسہ کے استعمال میں لینا درست نہیں ہے۔


عیدانہ فنڈ کا مدرسے کے لئے استعمال کا حکم

سوال(9- 168): عیدگاہ میں عیدانہ فنڈ کا اعلان ہوتا ہے،لیکن خواتین سے آنے والا عیدانہ فنڈ ہم اپنے مدرسہ کے استعمال میں لیتے ہیں ،کیا ہمارا ایسا کرنا غلط ہے؟جبکہ ہم ان پیسوں کو بچوں کی تعلیم کے لئے خرچ کرتے ہیں۔

جواب:آپ لوگوں کا یہ عمل بھی غلط ہے ،عیدین کے موقع پر جو عیدانہ فنڈ مردوں کی جانب سے وصول ہوتا ہے اس کا جائز استعمال جہاں پر کیاجاتاہے وہیں پر خواتین سے وصول ہونے والے عیدانہ فنڈ کا استعمال بھی ہونا چاہئے ،الا یہ کہ ذمہ داران ِ عیدگاہ باہمی مشورے سے یہ طے کریں کہ اس فنڈ کی رقم میں سے غرباء ومساکین اور عیدگاہ کے اخراجات کے علاوہ آپ کے مدرسہ کو بھی دیا جائے گا، ایسی صورت میں آپ لوگ اپنے مدرسہ کے لئے اسے لے سکتے ہیں،کیونکہ ایسی صورت میں کوئی دھوکہ نہ ہوگا اور آپ لوگوں پر دھوکہ دہی اور خیانت کا الزام نہیں آئے گا۔


مدرسہ کے لئے چندہ وصول کرنے والوں کو 25٪ مع اخراجات سفر دینے کا حکم

سوال(10- 169):خدمت عالیہ میں معروض اینکہ میرے گاؤں میں مدرسہ محمدیہ نامی ایک غیر اقامتی ادارہ ہے، جس میں فی الحال 130 / طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، اور پانچ اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، مدرسہ کے اساتذہ اور دیگر تعلیم یافتہ حضرات کو مدرسہ کے تعاون کی فراہمی کے لئے ذمہ داران آپسی صلاح و مشورے کے ذریعے رمضان المبارک میں چندہ کرنے کے لئے مختلف شہروں میں بھیجتے ہیں ، جن کو چندے  کی رقم میں سے 25٪ فیصد حصہ اور سفر کا مکمل کرایہ بھی دیتے ہیں ، اور اساتذہ کو رمضان المبارک میں تعطیل کی تنخواہ بھی دی جاتی ہے ، اور دیگر افراد کو صرف 25٪فیصد حصہ دیا جاتا ہے۔

          حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اساتذہ اور دیگر افراد کے ذریعے مذکورہ بالاطریقے پر رمضان المبارک میں چندہ کروانا شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں ؟ اس کا صحیح طریقہ کیا ہوسکتا ہے ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مفصل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے اور سعادت دارین سے نوازے۔آمین.

جواب:سب سےپہلے ذمہ داران مدرسہ کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس غیر اقامتی مدرسہ کو چلانے کے لئے کیا مالدار طلبہ سے مناسب فیس اور اپنے گاؤں و علاقہ کے لوگوں کے صدقات و خیرات کے علاوہ باہر سے چندہ کرنے کی واقعی ضرورت ہے یا نہیں ؟ پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ چندہ سے حاصل ہونے والی رقوم کو ان کے صحیح مصارف میں شرع کے مطابق صرف کیا جارہا ہے یا نہیں ؟ اگر واقعی باہر سے چندہ کرنے کی ضرورت ہے اور ذمہ داران مدرسہ پوری امانت داری سے ان رقوم کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کر رہے ہیں تو باہر سے چندہ کرنا یا کرانا چاہئے ورنہ نہیں ۔

          رہا چندہ وصول کرنے والوں کی اجرت کا مسئلہ تو اس بارے میں ان حضرات کی کارکردگی اور اس میدان میں ان کی صلاحیت  کے اعتبار سے انہیں اجرۃ المثل دینا چاہئے ، یعنی اس قسم کےلوگوں کو اس طرح کےکام کے لئے عموما کتنی اجرت دی جاتی ہے یا دی جانی چاہئے جس سے نہ ان پر ظلم ہو اور نہ مدرسہ اور دیگر مستحقین زکاۃ کا نقصان ہو، اساتذہ رمضان کی تنخواہ کے مستحق اس اصول کی بنا پر ہوتے ہیں کہ انہیں تعطیل کی تنخواہ دی جائے گی اور چندہ اصولی کی تنخواہ ان کے اس عمل کے عوض ملتی ہے ، اس واسطے ان میں اور دوسرے لوگوں میں تفریق کرنا درست ہے۔

  1.           صدقات و زکوات کو وصول کرنے والوں اور ان کو ان کے صحیح مصارف میں اور مستحقین پر خرچ کرنے اور اس کا باقاعدہ حساب و کتاب رکھنے والوں کو جنھیں قرآن کی اصطلاح میں ”عاملین“ کہا جاتا ہے ان کے عمل کی اجرت تو دی جاسکتی ہے، کیونکہ مصارف زکاۃ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ﴿وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا﴾ کہا ہے ، مگر ان کی اجرت کتنی ہو اس کی کوئی خاص تحدید نہیں ہے ، مگر چونکہ زکاۃ کے آٹھ مصارف ہیں ،اس واسطے یہ کے دائرہ میں ہی ہو تو زیادہ بہتر ہے ، اور علامہ سید سابق رحمة الله عليه نے بقدر کفایت لکھا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :  وينبغي أن تكون الأجرة بقدر الكفاية ([1])مناسب ہے کہ اجرت بقدر کفایت ہو۔

           میں کہتا ہوں کہ اس میں اجرۃ المثل، ان کی کارکاردگی اور معاشرہ میں اس قسم کے لوگوں کے عموما اخراجات و ضروریات سب کو ملحوظ رکھنا چاہئے ، تاکہ ایسا نہ کہ یہ صرف کھانے کمانے کا دھندہ بن کر رہ جائے اور اس سے مدرسہ اور اس کے غریب طلبہ سے زیادہ چندہ وصول کرنے والے ہی مستفید ہوں۔


شیعہ سے مدرسے کی تعمیر کے لئے رقم لینا

سوال(11- 170): ہمارے یہاں  کے ایک مقامی شخص جو سلفی ہیں ، دبئی میں بر سرروزگار ہیں ، اور وہاں ایک شیعہ سے ان کے قریبی تعلقات ہیں اور ان کے تعلقاتی شیعہ خیراتی امور میں بکثرت اپنے مال خرچ کرتے ہیں ، ہمارے سلفی بھائی کا کہنا ہے کہ اس شخص سے ادارہ ”جامعہ دار السنۃ “کے لئے گراں قدر تعاون حاصل ہوسکتا ہے ، اگر ذمہ داران ادارہ  اس کو قبول کرنا چاہیں ۔

          اس سلسلے میں سوال یہ ہے کہ شیعہ حضرات سے تعاون لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر لے سکتے ہیں تو کن امور پر خرچ کر سکتے ہیں ؟

جواب: اگر شیعہ محسنین آپ کے ادارہ کو تعاون پیش کرنے کے لئے کوئی ایسی شرط نہیں لگاتے جس سے آپ کے سلفی عقیدہ و منہج کو نقصان پہونچتا ہو تو قبول کر سکتے ہیں ،ورنہ نہیں  ، مثلا  اگر وہ تعاون دینے کے لئے یہ شرط لگاتے ہیں کہ آپ جامعہ کے نصاب میں کچھ شیعہ عقائد یا مذہب کی کتابیں داخل کریں   ، یا ان کے کچھ اساتذہ کو جامعہ میں تدریس کے لئے رکھیں، یا ان کے مبلغین و دعاۃ کو جامعہ کے توسط سے دعوت و تبلیغ کی اجازت و رعایت دیں، یا ان کے مذہب کی کتابیں و رسائل اور مجلات و جرائد اور کیسٹیں وغیرہ منگائیں ،اور اپنے ادارہ کے  مکتبہ اور طلبہ کے دار المطالعہ میں رکھیں اور ان کی توزیع و تقسیم کریں، یا ان کے علماء و دعاۃ کے محاضرات و خطبات  کا اپنے یہاں نظم کریں ،یا ان کے دعوتی پروگراموں میں آپ کے اساتذہ  و طلبہ شریک ہوں وغیرہ وغیرہ ، تو ایسی صورت میں ان سے تعاون نہیں لینا چاہئے ، کیونکہ اس میں باطل کے ساتھ تعاون اور شیعیت کی نشر و اشاعت کے لئے اپنے یہاں دروازہ کھولنا ہوگا ،جب کہ اللہ تبارک و تعالی  کا حکم ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾([1])

          اورنیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ وظلم زیادتی میں مدد نہ کرو۔

          اور علامہ اقبال  نے سچ فرمایاہے     ؎

اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی        جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہ

          اور اگر ان کی اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے نہ تو شیعیت کی کسی طرح تائید و تقویت ہوتی ہے، نہ اہل تشیع سے موالاۃ و مؤدت ممنوعہ ہوتی ہے، تو لینے کی گنجائش ہے ، رسول اللہ ﷺ نے تو مشرکین کے ہدیے بھی قبول فرمائے ہیں ،صحيح البخاري:كتاب الهبة،باب قبول الهدية من المشركين میں کئی حدیثیں اس سلسلے میں مذکور ہیں ، اور حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے فتح الباری  (5/ 231) میں مشرک کے ہدیے کو رد کرنے کے سلسلے میں وارد حدیثوں میں سے بعض کی تضعیف کی ہے،  اور بعض کی ان کے ساتھ اس طرح تطبیق دی ہے کہ جس ہدیے سے مقصود موالاۃو تَو دُّد ہو اس کا لینا ممنوع ہے اور جس سے توقع ان کی اسلام سے اُنسیت و تالیف قلب ہو وہ مباح ہے ، اور شیعہ کا معاملہ بہر حال مشرکین سے اھون و اخف ہے ، اس واسطے اگر اس سے مسلک سلف اور جامعہ کے مقاصد کو نقصان پہونچنے کا اندشہ نہ ہو تو قبول کر سکتے ہیں  ورنہ نہیں ، اپنے عقیدے و مسلک اور منہج اہل سنت والجماعت اور جامعہ کے اہداف و مقاصد کی محافظت بہر صورت ضروری و مقدم ہے ، اس کا ہمیشہ خیال رکھیں ، اللہ آپ کی مدد فرمائے اور ہر قسم کے انحراف اور فتنے سے محفوظ رکھے ۔ آمین .

          یہ تعاون کسی بھی مد میں خرچ کر سکتے ہیں ، البتہ احوط یہ ہے کہ تعمیر مسجد میں خرچ نہ کریں ۔


تعلیم پر تنخواہ لینا جائز اور سود لینا حرام

سوال(12- 171): صحیح تعلیم کے متعلق قلم دراز کریں، کیونکہ ہمارے گاؤں میں تین تعلیم گاہیں ہیں۔

          (١)ایک اسکول   (٢)ایک مدرسہ بورڈ        (٣)سلفیہ مکتب

          بالتفصیل تحریر فرمائیں کہ مدرسہ بورڈ  میں رہ کر علم پڑھا کر کھانا، اور لوگوں سے باتیں بنا کر بینک سے دولت حاصل کرنا شریعت میں کیسا ہے؟

جواب: دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے،جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے:

           ”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ(رواه ابن ماجه([1]))

          طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔

          اس لئے اپنے بچوں کو دین کی کم زکم اتنی تعلیم دینا ضروری اورواجب ہے جس سے وہ دینی احکام جان سکیں اور حلال وحرام کی تمیز کر سکیں۔

          رہا عصری علوم کی تعلیم کا مسئلہ تو یہ حرام نہیں ہے، دین کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تعلیم بھی ہونی چاہئے،لیکن ایسے اسکولوں میں تعلیم دلانے سے پرہیز کرنا چاہئےجہاں ہمارے بچوں کے اسلامی ذہنوں کو بدلا جاتا ہو اور انھیں دین سے متنفر کیا جاتا ہو۔

          رہا بورڈ اسکول میں پڑھا کر تنخواہ لینے کا مسئلہ تو کسی بھی اسکول میں علوم پڑھا کر تنخواہ لینا جائز ہے،البتہ سود کا کاروبار کر کے یا کسی شخص کو سود کی ترغیب دلا کر اس کے ذریعہ روزی کمانا درست نہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

          ﴿ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾([2])

          اللہ نے بیع کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

          اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:

          لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ آكِلَ الرِّبَا،وَمُؤْكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ(رواه مسلم([3]))

          رسول اللہ ﷺ نے  سود کھانے والے پر ،اس کے کھلانے والےپر، اس کے دونوں گواہوں پر، اور اس کے لکھنے والے پر لعنت فرمائی ۔

          اس واسطے کسی اسکول میں مفید علوم کی تعلیم دے کر تنخواہ لینا توجائز ہے ،لیکن لوگوں کو سودی کاروبار کی ترغیب دے کر بینک سے اس کی اجرت لینا جائز نہیں۔


ایک تعلیم یافتہ خاتون کے چند سوالات اور ان کے جوابات

سوال(13- 172): 6/10/1991 ء  کو میری شادی ہوئی، اور میرے خاوند میری زندگی میں صرف دو ماہ ١٩ /دن رہے، اور پھر سعودی عرب چلے گئے، جہاں وہ روزی کماتے ہیں، میں شادی کے بعدسے اب تک اکیلی ہوں، میرے خاوند خطوط اور نان ونفقہ کے لئے روپئے دے دیتے ہیں ، خطوط میں اپنی غلطی کی معافی بھی مانگتے ہیں ، میں اپنے گھر میں اکیلی ہوں، رات اور دن بڑی بے چینی سے گذرتے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں ، میرا گریجویشن شادی سے پہلے ہی مکمل ہو چکا تھا ،میں شادی سے پہلے استاد کی سروس کرتی تھی، لیکن اب میرے خاوند نے مجھے سروس سے روک دیا ہے، مجھے بہت خواہش  ہے کہ میں معلمہ رہوں،لیکن شوہر کے حکم کی وجہ سے رکی ہوں،میں تھک چکی ہوں اور چہار دیواری کے اندر میں تنہا ہوں، ابھی میرے خاوند ڈیڑھ سال تک نہیں آنے والے ہیں،اب بتایئے کہ میں کیا کروں؟

          شوہر کے خاندان میں لیڈیز میں  کوئی بھی تعلیم یافتہ نہیں ہے، صرف میں ہوں جس سے مجھے روکا گیا ہے ،اور میں اپنی زندگی میں معلمہ کے پیشہ سے محبت کرتی ہوں ،اور پھر میرے خاوند سے دوری کی وجہ سےشب وروز میں سوچ وفکر میں مبتلا رہتی ہوں،جس کی وجہ سے میں ہمیشہ بیمار رہتی ہوں۔

          مجھے بتائیے کہ میں کس طریقہ پر زندگی گذاروں کہ مجھے سکون اور تسلی ہو،آپ کے جواب پر میں مشکور رہوں گی۔

جواب: (١) شوہر کے ذمہ صرف بیوی کا نان ونفقہ ہی واجب نہیں ہے، بلکہ اس کے حق زوجیت کو ادا کرنا اور اس کی جنسی خواہشات کو پورا کرنا بھی ضروری ہے،علامہ سید سابق رحمة الله عليه﷫فرماتے ہیں:

          ”ويجب على الزوج أن يصون زوجته،ويحفظها من كل ما يخدش شرفها، ويثلم عرضها،ويمتهن كرامتها، ويعرض سمعتها لقالة السوء،وهذا من الغيرة التي يحبها الله([1])

          یعنی شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حفاظت کرے،اسے ہر ایسی چیز سے محفوظ رکھے جس سے اس کے شرف کو ٹھیس لگے،اس کی عزت وآبرو کو نقصان پہونچے، اس کی کرامت پر آنچ  آئے اور اس کی نیک نامی اور شہرت پر کسی کو زبان کھولنے کا موقع ملے،یہ وہ غیرت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

          علامہ ابن حزم رحمة الله عليه آیت کریمہ:﴿ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾([2]) سے استدلال کر کے اگر قدرت ہو تو شوہر پر ہر طہر میں کم از کم  ایک مرتبہ اپنی بیوی سے مجامعت وہم بستری کو واجب قرار دیتے ہیں۔

          بعض علماء کرام نے مدة ایلاء پر قیاس کر کے اس کے لئے چار مہینے کی مدت مقرر کی ہے،بعض نے کہا کہ چار بیویاں ہونے کی صورت میں ہر بیوی کی باری چار دن پر آتی ہے ،اس واسطے چار دن میں ایک دن بیوی کا حق زوجیت ادا کرنا واجب کہا ہے۔

          اور شوہر کے باہر ہونے کی صورت میں بعض ائمہ نے حضرت عمر رضي الله عنه کے فیصلہ سے استدلال کر کے اس کے لئے چھ مہینے کی مدت رکھی ہے، کیونکہ انھوں نے غزوات میں جانے والے مجاہدین کے لئے اپنی بیویوں کے پاس واپس آنے کے لئے چھ ماہ کی مدت مقرر کی تھی،یہ ہیں ائمہ کے اقوال، لیکن مقصدِ نکاح کو ملحوظ رکھ کر یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کی جنسی خواہشات کو پورا کرنا اور اسے بہکنے،پھسلنے اور گناہ میں پڑنے سے محفوظ رکھنا واجب ہے،اس واسطے اسے اپنے گھر،اپنے بال بچوں کی مالی مصلحت کے ساتھ اپنی بیوی کے شباب، اس کی جنسی خواہش اور قلبی سکون کا لحاظ بھی کرنا چاہئے، اور اتنی مدت تک بیوی سے دور نہیں رہنا چاہئے جس سے اسے اپنے نفس پر کنٹرول کرنا مشکل ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف  اور خطرہ محسوس ہو، اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی عزت وآبرو کی حفاظت مال ودولت سے زیادہ اہم ہے، اگر شوہر کی طویل مدت تک غیر حاضری اور حق زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے بیوی کسی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے تو بیوی کے ساتھ یقینا شوہر بھی گنہگار ہوگا، کیونکہ بیوی کی حفاظت  وصیانت اوراس کے حق زوجیت ادا کرنے میں کوتاہی کر کے اس نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا ہے۔

          اس واسطے آپ کے شوہر اور اس قسم کے جتنے لوگ باہر رہتے ہیں ان کو چاہئے کہ یا تو اپنی بیویوں کو اپنے پاس رکھنے کی کوئی سبیل نکالیں ، یا طویل غیر حاضری کی بجائے جلد از جلد گھر آیا کریں، جتنی دولت اور روزی اللہ نے ان کی اور ان کے بال بچوں کی قسمت میں لکھی ہے وہ ضرور ملے گی ،مگر عزت  ایک مرتبہ چلی جائے تو پھر نہیں ملتی۔

          بہر حال آپ کے شوہر کو اپنے واجبات کی جانب توجہ دینا چاہئے ،اور آپ کو اس کی مجبوریوں کا لحاظ کر کے صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے۔

          (٢) رہا آ پ کی تدریس کا مسئلہ تو خواتین کے لئے کسی اسکول یا کالج میں تدریس کی اجازت اسی وقت ہو گی جبکہ اس میں صرف طالبات پڑھ رہی ہوں ، اگر لڑکے بھی ہوں تو وہ چھوٹے اور عورتوں کے مسائل سے نا واقف ہوں، اور اساتذہ اور اسٹاف کے مردوں سے بے حجابانہ اختلاط نہ ہو، آنے جانے کاراستہ مامون ہو،  اگر شوہر سے شادی کے وقت ہی تدریس کے لئے شرط نہیں رکھی ہے تو اس کی اجازت بھی ضروری ہے، اس لئے اگر مذکورہ بالا شرطیں پائی جائیں تو آپ اپنے شوہر کو راضی کریں اور وہ اجازت دیں تو تدریس کا کام کریں ، ورنہ علم کی خدمت اور خالی اوقات گذار نے کے لئے آپ دوسری تدبیریں کر سکتی ہیں، مثلاً آپ قرآن کریم کی تلاوت،فرض کے ساتھ نفل نمازوں اور روزوں کا اہتمام کریں ،اور زیادہ سے زیادہ وقت اس میں صرف کریں، ابھی آپ کی تعلیم بظاہر عصری علوم کی ہے، آپ دینی معلومات حاصل کرنے کے لئے دینی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیں ، سیرت،حدیث،فقہ،تفسیر اور خواتین کے موضوع پر الدار السلفیہ ممبئی،مکتبہ الجامعہ السلفیہ بنارس، مکتبہ ترجمان ،دار المعارف اعظم گڑھ وغیرہ سے اردو میں بہت اچھی اچھی کتابیں مل جائیں گی،آپ اپنی پسند کے مطابق کتابیں منگا سکتی ہیں، اگر منگانے کی استطاعت نہ ہو تو اپنے شہر کی کسی اسلامی لائبریری سے مستعار لے کر مطالعہ کر سکتی ہیں،اسلامی مجلات وجرائد کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔

          ویسے آپ تعلیم وتدریس کا کام کرنا چاہیں تو اپنے گھر بیٹھ کر بھی اپنے گھر اور محلہ کی بچیوں اور خواتین کو پڑھا سکتی ہیں، محنت واخلاص اور ہمدردی ومحبت سے ان میں علم کی روشنی عام کیجئے، انھیں پڑھنے کا شوق دلائیے اور صبح وشام پڑھائیے، اگر مضامین لکھنے کی صلاحیت ہو تو دینی،تعلیمی،ادبی اور اصلاحی مضامین لکھ کر بھی علم،دین اور معاشرہ کی خدمت کر سکتی ہیں۔

           بہر حال آپ جیسی پڑھی لکھی خاتون کے لئے کام کرنے کے بہت سے مواقع ہیں، اس واسطے تنہائی میں پڑے رہ کر ہر وقت سوچنے اور اپنی صحت خراب کرنے کی بجائے اپنے حالات، امکانات، صلاحیتوں اور ماحول کا جائزہ لیجئے، پھر اس غیر علمی ماحول سے جہالت کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے تدبیریں سوچئے اور گھر اور محلہ کی معزز اور ذی شعور خواتین کے ساتھ مل کر خواتین اور بچیوں میں علم،ثقافت اور دین داری کی روح پیدا کیجئے،تعلیم اور مذہب کی شمع روشن کیجئے،مطالعہ اور دینی اجتماعات کا شوق پیدا کیجئے،غلط قسم کے رسم ورواج اور عادات وعقائد جو معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں انھیں ختم کرنے کے لئے جدو جہد کیجئے، ان شاء اللہ آپ کو اجر وثواب بھی ملے گا اور آ پ کا وقت بھی بہت آسانی کے ساتھ کٹ جائے گا،  بلکہ ایسی صورت میں آپ وقت کی قلت محسوس کرنے لگیں گی ، اللہ آپ کے مسائل آسان کرے اور آپ سے دین اور معاشرے کے لئے مفید کام لے۔(آمین)


صبح کے ترانے میں سورہ فاتحہ کو لازم بنالینے کا حکم

سوال(14- 173): صبح کےترانے میں سورہ فاتحہ کو لازمی بنالینا کیساہے؟

جواب: صبح کے ترانے میں سورہ فاتحہ کو لازم نہیں بنانا چاہئے ، بلکہ بدل بدل کر دوسری سورتوں کی بھی تلاوت کرنی چاہئے ، اگر کہیں اس کا التزام سنت یا شرعی حکم سمجھ کر کیا جاتا ہے تو یہ بدعت ہوگا ، اور اگر ویسے کیا جارہا ہے تو مصلحت کے خلاف ہے کہ سورہ فاتحہ اکثر بچوں کو یاد ہوتا ہے ،اور جن کو یاد نہیں ہوتا ان کو بھی چند دنوں میں یاد ہوجاتا ہے ، اس واسطے برابر اسی کو پڑھنے کے بجائے جب سب کو یاد ہوجائے تو دوسری سورتیں جیسے سوۃ الاخلاص ، سورۃ الناس اور سورۃ الفلق وغیرہ کچھ دن پڑھیں ، اسی طرح بدل بدل کر سورتیں پڑھیں تو طلبہ کا زیادہ فائدہ ہوگا ، اور ایک ہی سورہ کا بلا دلیل التزام بھی نہیں ہوگا۔


ٹیلی ویژن کے ذریعہ بچیوں کی تعلیم

سوال(15- 174): کیا ٹیلی ویژن کے ذریعہ معلّمین واساتذہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اگر باصلاحیت معلمات کا انتظام ہو سکے تو یہ سب سے بہتر ہے، کیونکہ معلمات کے سامنے بچیوں کو پردہ کی ضرورت نہیں ہوگی،اور معلمات انھیں ہر قسم کے مسائل آسانی سے اور بغیر کسی جھجک کے سمجھالیں گی ، اور اگر کسی جماعت کے لئے باصلاحیت معلمات نہ مل سکیں تو ایسی صورت میں باصلاحیت اور بزرگ وثقہ معلّمین کے ذریعہ بچیوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے، مگر ایسی صورت میں پردہ کا اہتمام کرنا، نیز طالبات اور اساتذہ دونوں کو ان تمام آداب وشروط کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے جو ایک اجنبی مرد کے ساتھ عورتوں کو بات چیت کرتے وقت ملحوظ رکھنا چاہئے، جیسا کہ رسول اللہﷺ سے مسائل دریافت کرتے اور علم حاصل کرتے وقت صحابیات ملحوظ رکھتی تھیں۔

          مرد اساتذہ(جب وہ ثقہ،متدین اور بزرگ ہوں)سے عورتوں اور لڑکیوں کے علم حاصل کرنے کا ثبوت رسول اللہﷺکے عمل سے ملتا ہے، کیونکہ آپ کی مجالس میں حصول علم اور دریافت مسائل کے لئے صحابیات بھی آیا کرتی تھیں ، ایک مرتبہ ام سلیم رضي الله عنها رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ حق کے معاملہ میں شرم کا حکم نہیں دیتا،کیا عورت کو احتلام ہو جائے یعنی وہ رات میں ہم بستری کا خواب دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے؟نبی کریمﷺ نے فرمایا،اگرمنی دیکھے تو غسل واجب ہے،حضرت ام سلمہ رضي الله عنها (جو اس مجلس میں موجود تھیں)نے شرم سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا ،اور پھر کہا:اے اللہ کے رسول!کیا عورت کوبھی احتلام ہوتا ہے؟آپ نے فرمایا : ہاں،تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو اگر عورت کو احتلام(نزول منی)نہ ہوتا تو اس کے لڑکے کی اس سے مشابہت کیسے ہوتی؟(رواه البخاري([1]))

          اورحضرت ابو سعید خدری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ عورتوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ مرد آپ کی مجلسوں میں ہم پر غالب آگئے ہیں(یعنی وہ زیادہ استفادہ کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم کو بہت کم علمی استفادہ کا موقع ملتا ہے)اس واسطے آپ ہمارے لئے ایک دن الگ سے مقرر فرما دیجئے، چنانچہ آپ نے ان کے لئے ایک دن کا وعدہ فرمایا،جس میں ان سے ملاقات کرتے، انھیں اپنی نصیحت سے نوازتے اور اچھے کاموں کا حکم دیتے،  آپ کی اس مجلس کی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کے تین بچے انتقال کر گئے وہ اس کے لئے قیامت کے دن نار جہنم سے حجاب ہوں گے،ایک عورت(ام سلیم رضي الله عنها)نے عرض کیا:اور دو بچے؟آپ نے فرمایا :اور دو بھی۔(رواه البخاري([2]))

          اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں خواتین مردوں سے علم حاصل کرتی اور مسائل معلوم کرتی تھیں،مگر پردہ اور اسلامی آداب کی رعایت کرتے ہوئے۔

          بہر حال مناسب معلمات نہ ملنے کی صورت میں بزرگ اور ثقہ اساتذہ سے بچیوں کی تعلیم کا کام لیا جاسکتا ہے، اور اگر کسی بنا پر(جیسے مدرسۃ البنات کی کثرت،اور باصلاحیت ثقہ اساتذہ کی قلت وغیرہ)یہ شکل بھی نہ نکل سکے تو بدرجہ مجبوری ٹیلی ویژن سے بھی تدریس وتعلیم میں استفادہ کرسکتے ہیں، اور مرد معلّمین ٹیلی ویژن کے ذریعہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم دے سکتے ہیں، ٹیلی ویژن کے ذریعہ اچھے پروگرام پیش کرنے کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں اس میں لوگوں کو بہت سے غلط پروگراموں کے دیکھنے سے روکنا بھی ہے، کیونکہ اب تقریباً گھر گھر ٹیلی ویژن ہے،اوربہت کم گھر اس سے محفوظ ہیں، اور عموماً جو بھی پروگرام ٹیلی ویژن پر آتا ہے اسے کچھ نہ کچھ لوگ دیکھتے ہیں ، اب اگر اچھے اور مفید پروگرام(جیسے تعلیمی پروگرام)پیش کئے جائیں تو بہت سے لوگ غلط اور  بے کار پروگراموں کو چھوڑ کر ان پروگراموں کو دیکھیں گے، اس واسطے”أهون البليتين“کو اختیار  کرنے کے قاعدہ کی بنا پر تعلیمی واصلاحی پرو گرام ٹیلی ویژن پر پیش کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔


کیا  عالمہ بحالت حیض مسجد میں درس دے سکتی ہے ؟

سوال(16- 175): ایک  عورت عالمہ ہے  ، جو حائضہ ہے،کیا رمضان کی طاق راتوں میں مسجد میں جا کر عبادت کر سکتی ہے؟ اور وہاں موجود خواتین کو درس دے سکتی ہے؟

جواب: نہیں ، حائضہ عورت کے لئے مسجد میں جاکر بیٹھنا اوردیر تک وہاں قیام کرنا جائز نہیں ، اس واسطے اس  کو اس حالت میں مسجد میں جاکر یہ سب عمل نہیں کرنا چاہئے ، اگر اسے درس وغیرہ دینا اور ایسی عبادتیں جو حالت حیض میں بھی جائز ہیں کرنا ہے تو مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پر کرے، مسجد میں نہیں۔


مسجد میں حائضہ کی تدریس کا حکم

سوال(17- 176): اگر کہیں مسجد ہی میں مدرسہ قائم کیا گیا ہو اور اس مسجد میں  پانچوں وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کی جاتی ہو ،تو کیا ایسی صورت میں حائضہ عورت اس میں بیٹھ کر درس وتدریس کے فرائض انجام دے سکتی ہے ؟یہاں کئی لوگ حضرت ام عطیہ رضي الله عنها کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں حائضہ عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم ہے ،اور حضرت عائشہ رضي الله عنها کی اس حدیث سے بھی جس میں ذکر ہے کہ وہ حالت حیض میں مسجد میں جاکر چٹائی لائی تھیں، تو کیا ان حدیثوں سے استدلال کرتے ہوئے معلمہ حالت حیض میں مسجد میں بیٹھ کر درس و تدریس کے فرائض انجام دے سکتی ہے ؟مفصل جواب دیجئے، اللہ آپ کو جزاء خیر عطا فرمائے۔

جواب: مسجد میں کسی عورت کا حالت حیض میں بیٹھنا مناسب نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

          ”فَإِنِّى لاَ أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلاَ جُنُبٍ(رواه ابو داود([1]) وابن ماجه([2]) وحسنه ابن القطان وصححه ابن خزيمة([3]))

          میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کر تا ۔

          اور حضرت عائشہ رضي الله عنها کی ایک حدیث میں جو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے مسجد سے چٹائی لانے کے لئے کہا تو میں نے عرض کیا کہ میں حالت حیض میں ہوں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔(رواه مسلم([4]))

           تو وہ حائضہ کے مسجد میں جاکر کسی چیز کو وہاں سے اٹھاکر لے آنے کے سلسلہ میں ہے، وہاں بیٹھنے اور دیر تک رہنے کے سلسلہ میں نہیں ہے ۔

          اسی طرح ام عطیہ رضي الله عنها کی حدیث حائضہ کے عید گاہ میں پیچھے بیٹھنے کے بارے میں ہے، مسجد میں بیٹھنے کے بارے میں نہیں ہے، اس واسطے حدیث: فَإِنِّى لاَ أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلاَ جُنُبٍ“ کے ہوتے ہوئے اس پر قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ قاعدہ ہے:” لا قیاس مع النص“ یعنی نص کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ،اس واسطے حائضہ کا حالت حیض میں مسجد میں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام انجام دینا درست نہیں معلوم ہوتا۔


معلمہ کا حالت حیض میں مسجد میں قرآن پڑھانے کا حکم

سوال(18- 177): ایک عورت جو مسجد میں قرآن پڑھاتی ہے جب وہ حیض کی حالت میں ہو تو قرآن کس طرح پڑھائے گی؟

جواب: اس سوال میں دو شق ہیں : ایک تو حائضہ کے لئے قرآن کاپڑھنا اور پڑھانا ، دوسرے حیض کی حالت میں حائضہ کا مسجد میں بیٹھنا اور پڑھنا پڑھانا ،رہا حائضہ کے لئے قرآن پڑھنے کا مسئلہ تو اگر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یا ویسے ہی دل میں پڑھتی ہے اور زبان سے ادا نہیں کرتی ہے، جیسی بورڈ پر یا تختی پر کسی نے قرآنی آیات لکھ دی یا کسی نے مصحف کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا اوروہ اس میں دیکھ کر دل ہی دل میں پڑھتی ہو تو کوئی حرج نہیں ،امام نووی رحمة الله عليهشرح المہذب میں فرماتے ہیں: ”ایسا بلا اختلاف جائز ہے “ ([1])

          اور اگر وہ زبان سے پڑھتی ہو تو جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں ، اور امام بخاری، ابن جریر طبری، ابن ا لمنذر اور داود ظاہری رحمة الله عليهم  کے نزدیک جائز ہے، یہی امام شافعی رحمة الله عليه کا قدیم قول اور امام مالک رحمة الله عليه﷫کا بھی ایک قول ہے ، اور امام بخاری رحمة الله عليه﷫نے تعلیقاً امام نخعی رحمة الله عليه﷫سے نقل کیا ہے کہ ایک آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اسی کو ابن حزم ، ابن تیمیہ، شوکانی اورالبانی رحمة الله عليهم وغیرہ نے اختیار کیا ہے ۔

          جمہور کی اس کو حرام قرار دینے کے لئے درج ذیل دلیلیں ہیں :

          (١) حضرت ابن عمررضي الله عنهما کی حدیث:

          قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ(رواه الترمذي([2]) وغيره)

          یعنی حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھیں۔

          (٢)حضرت علی رضي الله عنه کی حدیث :

          لَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ -أَوْ قَالَ يَحْجُزُهُ- عَنِ الْقُرْآنِ شَىْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ (رواه ابوداد([3]) والنسائي([4]) وروی ابن ماجه([5])نحوه)

          یعنی رسول اللہﷺ کو جنابت کے سوا کوئی چیز قرأت قرآن سے نہیں روکتی تھی۔

          اس سے معلوم ہوا کہ آپ جنابت کی حالت میں قرآن نہیں پڑھتے تھے ،اس لئے دوسروں کو بھی نہیں پڑھنا چاہئے ۔

          (٣) حضرت علی رضي الله عنه کی دوسری حدیث:

          ”رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ تَوَضَّأَ، ثُمَّ قَرَأَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ، فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلا (رواه أحمد([6])وابو يعلی([7]))

          یعنی رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا کہ آپ نے وضوکیا پھر کچھ قرآن میں سے پڑھا، پھر فرمایا: اسی طرح اس کے لئے ہے جو جنبی نہ ہو، جنبی کے لئے نہیں۔

          معلوم ہوا کہ جنبی کے لئے قرآن کا پڑھنا جائز نہیں ، اس لئے حائضہ کے لئے بھی قرآن پڑھنا جائز نہیں ہوگا ، کیونکہ حائضہ کی نجاست جنبی کی نجاست سے شدید ہوتی ہے ۔

          فریق ثانی نے جمہور کے مذکورہ بالا ادلہ کی تضعیف کی اور کہا کہ اصل اباحت ہے اورجب تک اس کے مخالف قوی دلیل نہ ہو اصل پر ہی عمل کیا جائے گا۔

          پہلی دلیل جو حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے اس کو اس واسطے ضعیف قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسماعيل بن عياش عن موسی بن عقبة عن نافع عن ابن عمرکے طریق سے مروی ہے، اور اسماعیل بن عیاش کی حجازیوں سے روایت ضعیف ہوتی ہے ،اور یہ روایت اسی قبیل سے ہے، اسے دارقطنی نے عبد الملك بن مسلمة حدثني المغيرة بن عبدالرحمن عن موسی بن عقبة عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے بھی مرفوعا روایت کی ہے، اور حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے التلخیص الحبیر میں فرمایا کہ ابن سید النا س نے اس کی تصحیح کی ہے، لیکن ان سے اس معاملہ میں غلطی ہوئی ہے، کیونکہ عبدالملک بن مسلمہ ضعیف ہے ،اور انھوں نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضي الله عنهما کی یہ حدیث اپنے تمام طرق سے ضعیف ہے ، اور ابن ابی حاتم نے کہا : اسماعیل بن عیاش کی یہ روایت غلط ہے ، در حقیقت حضرت ابن عمر﷠رضي الله عنهما کا یہ موقوف قول ہے ، دارقطنی نے حضرت جابر رضي الله عنه﷜ سے اسی معنی کی دوسری روایت مرفوعاً نقل کی ہے، مگر اس میں محمد بن الفضل متروک راوی ہے ،انھوں نے اسے موقوفا بھی روایت کی ہے ، مگر اس میں یحیی بن انیسہ کذاب راوی ہے، اور امام بیہقی نے کہا کہ یہ اثر قوی نہیں ۔ ([8])

          جمہور کی دوسری دلیل جو حضرت علی رضي الله عنه سے مروی ہے اسے بعض اہل علم نے صحیح اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے ، چنانچہ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ الرحمانی المبارکپوری رحمة الله عليه امام ترمذی کی تصحیح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہی:

          ”وصححه أيضاً ابن حبان وابن السكن وعبدالحق والبغوي في شرح السنة والحاكم ووافقه الذهبي، وقال الحافظ في الفتح: وضعف بعضهم بعض رواته، والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة([9])

          اس حدیث کو ابن حبان، ابن السکن ،عبد الحق، بغوی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، اورعلامہ ذہبی نے اما م حاکم کی موافقت کی ہے ، اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے بعض راویوں کو ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ  یہ حدیث از قبیل حسن ، اور قابل احتجاج ہے ۔

           لیکن امام نووی رحمة الله عليه نے فرمایا ہے کہ امام ترمذی کی اکثر لوگوں نے مخالفت کی ہے اور اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے، اور علامہ البانی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے، کیونکہ اس میں عبد اللہ بن مسلمہ منفرد ہیں ،ان کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہوگیا تھا اور اسی حالت میں انھوں نے یہ حدیث بیان کی ہے ، اس واسطے احتجاج کے قابل نہیں ۔

           اور امام بخاری رحمة الله عليه نے عمرو بن مرہ کے واسطے سے بیان کیاہے کہ عبد اللہ بن مسلمہ ہم سے حدیث بیان کرتے ہیں تو وہ معروف اور منکر دونوں طرح کی ہوتی ہیں ، وہ بوڑھے ہوگئے تھے اس لئے اس حدیث کی متابعت جائز نہیں، امام شافعی رحمة الله عليه نے کہا کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں، اور امام بیہقی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمة الله عليه نے اس حدیث کے ثبوت میں اس وجہ سے توقف اختیار کیا کہ عبد اللہ بن مسلمہ کوفی پر اس کا دار ومدار ہے ،یہ بوڑھے ہو گئے تھے، ان کی حدیث اور عقل دونوں پر نکیر کی گئی ہے ،اس حدیث کو بھی انھوں نے بڑھاپے میں روایت کیا ہے۔

          چونکہ امام شافعی  ، امام احمد ،بیہقی اور خطابی رحمة الله عليهم نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، اوریہ حضرات تعدیل و تجریح میں امام ترمذی  اور ابن السکن سے زیادہ معتبر ہیں، نیز انھوں نے ضعف حدیث کی علت بھی بیان کی ہے ،علاوہ ازیں حضرت عائشہ رضي الله عنهاکی حدیث:

          ”كَانَ النَّبِىُّ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ(رواه مسلم([10])وابوعوانه([11])في صحيحهما)

          رسول اللہ ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔

           بھی اس کے مخالف ہے، اس لئے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضي الله عنه کی یہ حدیث ضعیف اور نا قابل احتجاج ہے ۔( انظر للتفصيل: تمام المنة: ص١٠٨، ١٠٩، ١١٦، ١١٧)

          جمہور کی تیسری دلیل جو حضرت علی رضي الله عنه سے مروی ہے اس کے متعلق علامہ ہیثمی مجمع الزوائد(١/ ٢٧٦)  میں فرماتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ،اورشیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمانی رحمة الله عليه لکھتے ہیں : امام احمد نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ۔([12])

          لیکن علامہ البانی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث ضعیف بھی ہے اور موقوف بھی، ضعیف اس وجہ سے کہ اس کی سند میں عامر بن السمط ابو الغریف نامی ایک راوی ہے ،جس کی ابن حبان کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی ہے، اور ابن حبان توثیق کے سلسلہ میں متساہل مشہور ہیں ،نیز ابو حاتم الرازی نے جو رجال کے بارے میں ابن حبان سے زیادہ علم رکھتے ہیں ،ان کی مخالفت کی ہے ،اور ابو الغریف کو متکلم فیہ بتایا ہے۔

          اور موقوف اس وجہ سے ہے کہ دارقطنی وغیرہ نے عن ابی الغریف عن علی کے طریق سے موقوفاً روایت کیاہے ، اس لئے یہ روایت حضرت علی رحمة الله عليه کی مرفوع روایت کے لئے شاہد نہیں بن سکتی ۔ ([13])

            جمہور کی تینوں دلیلوں کے سلسلہ میں آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک ضعیف ہے،غالبا اسی وجہ سے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمة الله عليه نے لکھا ہے کہ: حائضہ عورت کو قرأت قرآن سے روکنے کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ،کیونکہ علم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کا  اتفاق ہے کہ حدیث : لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِضعیف ہے ،اور بلا شبہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں حائضہ ہوتیں تھیں، اگر نماز کی طرح قرآن کی تلاوت بھی ان پر حرام ہوتی تو نبی ﷺ اپنی امت کے سامنے اس کو بیان فرماتے اور امہات المؤمنین اسے جانتیں ، اور لوگ ایک دوسرے کو بتاتے ،لیکن جب کسی نے اس بارے میں نبی ﷺ سے ممانعت نقل نہیں کی تو ممانعت معلوم نہ ہونے کے باوجو اس کو حرام قرار دینا جائز نہیں ، آپ کے زمانے میں حائضہ عورتوں کی کثرت کے باوجود جب ممانعت وارد نہیں ہوئی تو معلوم ہوا کہ حائضہ کے لئے قرآن کی تلاوت حرام نہیں ۔ ([14])

          اورشیخ محمدبن صالح العثیمین علماء کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” اہل علم کے اختلافات جان لینے کے بعد کہنا چاہئے کہ: بہتر یہ ہے کہ بلاضرورت حائضہ عورتیں قرآن نہ پڑھیں ، اگر اہم ضرورت ہو مثلا ً استانیوں کا طالبات کو قرآن پڑھ کر بتانا سکھانا،یا امتحان میں طالبات کو سوال سمجھاناوغیرہ تو جائز ہے۔ ([15])

          میرے نزدیک بھی احوط یہی ہے کہ حائضہ عورتیں بلا ضرورت قرآن نہ پڑھیں، مگر مخالف کے دلائل کمزور ہونے کی بنا پر بوقت ضرورت پڑھنے کی گنجائش ہے ،مطلق عدم جواز کا حکم لگانا درست نہیں معلوم ہوتا ۔

          رہاحائضہ عورتوں کا مسجد میں بیٹھنا اور پڑھنا پڑھانا تو یہ جائز نہیں ، حضرت عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد سے لگے ہوئے تھے، لوگ ان دروازوں سے مسجد میں داخل ہوتے اور آتے جاتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :

          ”وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنِ الْمَسْجِدِ فَإِنِّى لاَ أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلاَ جُنُبٍ(رواه ابوداود([16]))

          ان گھروں کے دروازوں کا رخ مسجد سے دوسری طرف پھیر دو، کیونکہ حائضہ اور جنبی کے لئے میں مسجد کو حلال نہیں کرتا ۔

          شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمة الله عليه لکھتے ہیں :امام ابوداود نے اس حدیث کو”افلث بن خليفة عن حرة بنت دجاجة عن عائشة کے طریق سے روایت کیا ہے ،اور ابن حزم نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افلث مجہول الحال ہے، لیکن ان کی تردید کی گئی ہے ،کیونکہ ابن حبان نے افلث کی توثیق کی ہے اور ابو حاتم نے کہا کہ وہ شیخ ہیں ،اور امام احمد نے فرمایا کہ ان کی روایت لینے میں  کوئی حرج نہیں ، سفیان ثوری ، اور عبد الواحد بن زیاد نے ان سے روایت کیا ہے ،اور کاشف میں ہے کہ وہ صدوق ہیں ،اور البدر المنیر میں ہے کہ وہ مشہور ہیں، ثقہ ہیں، عجلی نے کہا ہے کہ حرہ تابعیہ ہیں ثقہ ہیں ،اور ابن حبان نے بھی انھیں ثقات میں ذکر کیا ہے ، اور ابن قطان نے حرہ کی عائشہ سے اس روایت کو حسن قراردیا ہے، اور ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔([17])

          نیز قرآن کریم کی صراحت ہے :﴿ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ﴾([18])جنبی کا مسجدمیں ٹھہرنا جائز نہیں اگر صرف راستہ پار کر ناہوتو جائز ہے ، علامہ ابن قدامہ رحمة الله عليه حیض یا جنابت کی حالت میں مسجد میں آنے جانے اور گزر نے کے جواز سے متعلق چند آثار ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ ان تمام آثار پر اجماع ثابت ہوتا ہے ۔ ([19])

          مسجد میں ٹھہرنے کے عدم جواز پر ام عطیہ رضي الله عنها کی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے :

          ”أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُخْرِجُ الأَبْكَارَ، وَالعَوَاتِقَ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ، وَالحُيَّضَ في العِيدَيْنِ، فَأَمَّا الحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى، وَيَشْهَدْنَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ“ الحديث (رواه البخاري([20])ومسلم([21])وابوداود([22])والترمذي([23]) واللفظ له)

          رسول اللہ ﷺعیدین میں باکرہ بالغہ ،پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو لے جاتے تھے، حائضہ عورتیں نمازکی جگہ سے الگ ہوجاتیں ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں ۔

          اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورتوں کا مسجد میں بیٹھنا اور پڑھنا پڑھانا درست نہیں، کیونکہ جب حائضہ عورتوں کو عید گاہ میں نماز کی جگہ سے الگ رہنے کے لئے حکم دیا گیا تو مسجد سے بدرجہ اولیٰ باہر رہیں گی، اس واسطے حائضہ عورتوں کا مسجد میں تعلیم کے لئے بیٹھنا جائز نہیں ۔ ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب.


عالمہ کاحالت حیض میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر درس دینا

سوال(19- 178): ہمارے یہاں خواتین کا ایک دعوتی پروگرام مسجد میں رکھا گیا ،اتفاق سے اس میں خطاب کرنے والی ایک عالمہ   اس موقع پر حیض آجانے کی بنا پر ناپاک ہے،تو کیا مسجد میں صرف خطاب کے لئے جا سکتی ہے ؟ اگر اس کی گنجائش نہیں تو کیا مسجد کی سیڑھی پر جو مسجد کے حدود میں ہے یعنی آنگن میں ہے اور اس پر نماز نہیں پڑھی جاتی ہے بیٹھ کر وہ خطاب کر سکتی ہے؟

جواب: مسجد میں حائضہ عورت کے داخل ہوکر گزرنے کا جواز تو ثابت ہے ، حضرت عائشہ رضي الله عنها سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے مسجد کے اندر سے فرمایا:

          ”نَاوِلِينِى الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: إِنِّى حَائِضٌ، فَقَالَ: إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِى يَدِكِ ([1])

          مجھے  چٹائی لا کر دو ، میں نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: تمہاراحیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔

           لیکن  اس کے مسجد میں بیٹھنے اور ٹھہرنے کے بارے میں اختلاف ہے ، احوط اس سے اجتناب کرنے میں ہے ، اس واسطے  ایسی حالت میں وائرلیس مائکروفون کے ذریعہ مسجد کے بغل کے کسی گھر یا کمرے میں بیٹھ کر خطاب کرے تو زیادبہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

          ”فَإِنِّى لاَ أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلاَ جُنُبٍ ([2])

          میں مسجد کو حائضہ اور جنبی کے لئے حلال نہیں کرتا ۔

           اور ایک روایت میں ہے کہ :

          ”إِنَّ الْمَسْجِدَ لاَ يَحِلُّ لِجُنُبٍ، وَلاَ حَائِضٍ([3])

          حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد حلال نہیں ۔

          اگر بر وقت ایسے میکروفون کا انتظام نہ ہوتو بڑے وائر (تار)کے ذریعہ مائک کو مسجد کے باہر کےکمرے تک پہونچائیں اور یہ  وہاں سے خطاب کرے۔

           اور اگر یہ بھی بروقت نہ ہو سکے تو بدرجۂ مجبوری مسجد کی سیڑی پر بیٹھ کر خطاب کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک لونڈی مسجد میں رہا کرتی تھی ، جس سے بعض علماء نے حائضہ کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کو جائز کہا ہے ، کیونکہ جو عورت مسجد میں شب و روز قیام کرتی تھی تو بظاہر حالت حیض میں بھی وہ اس میں رہتی رہی ہو گی ، کیونکہ اس حالت میں خاص طور پر اس کےکسی دوسری جگہ  منتقل ہونےکا تذکرہ نہیں ملتا، اور : فَإِنِّى لاَ أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلاَ جُنُبٍوغیرہ حدیثوں پر کلام ہے ،مگر خطاب کے بعد فورا وہ مسجد سے چلی جائےاور وہاں نہ بیٹھے۔


موبائیل میں موجود قرآن و حدیث کے میسیج کا ڈیلیٹ کرنا

سوال(20- 179): کیا موبائیل میں موجود قرآن و حدیث کا میسیج(Massage)ڈیلیٹ (Delete)کر سکتے ہیں ؟ اگر ڈیلیٹ کریں تو کوئی حرج تو نہیں ؟

جواب: موبائیل میں موجود قرآن و حدیث کے میسیج (Massage) پڑھنے کے بعد جب ضرورت نہ ہو تو ڈیلیٹ کر سکتے ہیں ، استاد طلبہ کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر قرآنی آیات و احادیث لکھتا ہے ،اور سمجھانے کےبعد اسے مٹادیتا ہے ، اسی طرح جب قرآن کے صفحات پھٹ جاتےیا پرانے ہوجاتے ہیں تو ان کو جلا دیا جاتا ہے ، یا زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے ، یا کنویں میں ڈال دیا جاتا ہے ، حضرت عثمان غنی رضي الله عنه کے دور خلافت میں آپ کو قرآن کی تلاوت میں اختلاف کا خوف ہوا تو آپ نے قرآن کے متعدد نسخے تیار کرائے اور انہیں بڑےبڑےشہروں میں بھجوادیا اور دوسرے نسخوں کو جلادیا ۔

          اسی طرح موبائیل میں موجود قرآن و حدیث کے میسیج کو ضرورت ختم ہونے کے بعد ڈیلیٹ کر سکتے ہیں تاکہ دوسرے میسیج کی گنجائش نکل سکے۔


موبائیل کو پینٹ کے پیچھے پاکٹ میں رکھنا

سوال(21- 180): موبائیل کو پیچھے کے پاکٹ(جیب)میں رکھناکیسا ہے، اس حال میں کہ موبائیل میں قرآن و حدیث موجود ہے؟

جواب: قرآن و حدیث جس موبائیل میں ہو اسے پیچھے کے جیب میں رکھنے میں نیت اہانت کی نہیں بلکہ ضرورت کی بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت مصحف کی نہیں ہے ، جیسے حافظ جس کے سینے میں قرآن رہتا ہے وہ دوسرے کے پیچھے کھڑا ہوسکتا ہے اسی طرح موبائیل میں بھی قرآن ہونے کے باوجود  پیچھے کی پاکٹ میں بوقت ضرورت رکھا جاسکتا ہے ۔


اپنے مقصد کے لئے قرآن کی غلط تا ویل ناجائز

سوال(22- 181): زید اپنی بات کے لئے قرآن کا غلط استعمال کرے تو زید کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: زید اگر صرف اپنے مسلک کی تائید اور تعصب میں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے جان بوجھ کر قرآن کریم کی غلط تاویل کرتا ہے تو سخت گنہگار ہے، ایسا عمل اہل کتاب کا تھا ،جیسے کہ ارشاد باری ہے:

          ﴿اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ﴾([1])

          کیا تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ وہ تم پر ایمان لے آئیں ،حالانکہ ان میں سے ایک فریق ایسا ہے جو کلام اللہ کو سنتے ہیں پھر اس کو سمجھنے کے بعد بھی اس میں تحریف وتبدیلی کر دیتے ہیں حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں۔

          اس واسطے زید کو چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور ایسے عمل سے باز آجائے، اور اگر اس نے ایسا اپنے اجتہاد اور علمی تحقیق کی بنا پر کیا ہے تو وہ بہر حال مخطی ہے، اور ایسی صورت میں عند اللہ معذور ہوگا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:

          ”إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ (متفق عليه([2]))

          جب حاکم کسی مسئلہ میں اجتہاد کر کے صواب اور درستگی کوپہنچ جائے تو اس کو دو اجر ملے گا اور اگر اجتہادمیں غلطی کر جائے تو ایک اجر ملے گا۔

           لیکن لوگوں کو اس کے غلط فتویٰ پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔


فقہ الواقع کیا ہے ؟

سوال(23- 182):  فقہ الواقع کیا ہے ؟

جواب: فقہ الواقع کا صحیح مفہوم اورمطلب یہ ہے کہ فتوی اور رائے کے اظہار میں لوگوں کے احوال و ظروف ، زمان و مکان ، اور اصولوں کو سمجھا اور پھران کی رعایت کی جائے ، شریعت نے جو تیسیر اور آسانی دی ہے  ان کو ملحوظ خاطر رکھیں ،جن احکام میں تدریج ہے ان میں مفتی  تدریج پر عمل پیرا ہو ، یہ سب فقہ الواقع کے ضمن میں آتے ہیں ، اس کی تائید ان آیتوں سے ہوتی ہے :

           ﴿ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾([1])

          اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔

          ﴿ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ ﴾([2])

          اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا۔

          اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب بھی دو امور میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کو انتخاب کیا ، ہاں اگر گناہ کا کام ہوتا تو ایسی صورت میں آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے تھے ۔ ([3])

          جو لوگ غلو اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں آ پ نے فرمایا:  وہ ہلاک ہوئے،وہ برباد ہوئے، یہ بات آپ نے تین بار تاکید کے طور پر فرمائی  ۔ ([4])

          اسلام نے انسانوں کی مجبوریوں اور ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ، اور قرآن نے ایسے مخصوص حالات کے لئے یہ ضابطہ دیاہے :

          ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾([5])

          پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، تو اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔

          زمان و مکان کے اعتبار سے فتوی بدلتاہے ، ان  مخصوص حالات کی تعیین فقہاءکرام نے کی ہے ، اور انہوں نے ان کی بنیاد پر بہت سے فتاوے صادر کئے ہیں ۔

           بعض لوگوں کے نزدیک فقہ الواقع سے مقصود یہ ہے کہ حکم اور فتوی میں صرف واقع کا لحاظ کیا جائے اور شرعی ضوابط کو نہ دیکھاجائے ، اور قرآن و حدیث کے نصوص کی گردن توڑی اور مروڑی جائے تاکہ فتوی واقع کے مطابق ہوجائے مگر   فقہ الوقع کا یہ مفہوم مرفوض اور نا مقبول ہے ۔


ابتداع و ابتکار کی حد کیا ہے ؟

سوال(24- 183): ابتداع اور ابتکار کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے، اس کے حدود کیا ہیں ؟

جواب: وہ ابتداع مذموم اور ممنوع ہے جس کا تعلق عقیدہ ، عبادات اور حلت و حرمت سے ہو ، یعنی دین میں کسی بھی طرح کی نئی چیز کو ایجاد اور داخل نہیں کیا جاسکتا ، دین میں تصرف اور اس میں کمی یا زیادتی کرنا دین سے اعراض ، انحراف اور خروج ہے ، اور یہ ممنوع ہے ۔

          دنیوی امور میں ابتکارو اختراع یعنی نئی چیزوں کی ایجاد اور جدید وسائل کا استعمال مطلوب ہے ، تاکہ عصری تقاضے پورے ہوں ، مسلمان زمانہ کے شانہ بشانہ چلیں ، اور مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں کسی سے پیچھے نہ رہیں ، اس کی زندہ و جاوید مثال عمر بن خطاب رضي الله عنه کا فوجوں کا دیوان بنانا ، ان کا ریکارڈ رکھنا ، فوج کو منظم کرنا وغیرہ ہے ۔

          تعلیم و تربیت کی عمدہ تخطیط اور منصوبہ بندی ، جدید آلات کا استعمال اور ان سے استفادہ، اور ہر وہ چیزجو انسانیت کی خدمت کرے اور ان کو فائدہ پہونچائے مطلوب اور مقصود ہے ، البتہ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی طرح کی ایجاد، شریعت کے کسی قاعدہ اور ضابطہ سے ٹکراتا  نہ ہو ۔

          خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا بدعت ہے ، دین کے احکام منزّل من اللہ اور ثابت شدہ ہیں ، اور ان میں اتنی عمومیت اور لچک ہے کہ رہتی دنیا تک یہ سارے مسائل حل کرتے رہیں گے ، اس میں تغییر و تبدیلی جائز نہیں ۔

          اور دنیوی امور میں ہر اس چیز کی ایجاد محمود متصور ہوگی جو انسانیت کی خدمت کرے، ان کو فائدہ پہونچائے ،اور ان کے لئے مضرت رساں یا باعث ہلاکت نہ ہو ۔


ضعیف حدیثوں پر عمل اور ان سے استدلال کا حکم

سوال(25- 184):  کیا ضعیف احادیث پر عمل کرنا مطلقا ناجائز ہے؟

جواب: صحیح اور راجح مذہب یہ ہے کہ کسی ضعیف حدیث کا ضعف جب ایسا ہو کہ وہ کسی طرح بھی ختم نہ ہوتا ہو اور تعدد طرق وغیرہ کی وجہ سے بھی وہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک نہ پہونچتی ہو تو اس پر عمل کرنا مطلقا جائز نہیں، حافظ علائی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، علامہ نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:

           ”اتفق العلماء علی ان الحديث الضعيف اذا کان ضعفه فيه ناشئا من جمعه الطعن في عدالة الراوي، کرواية الکذاب، أو المتهم بالکذب، او المغفل فاحش الغلط فان حديث من هذا شانه لا يجوز العمل به لشدة ضعفه وتقاعد الجابر أوعدمه، وحکی الاتفاق علی ذلك الحافظ العلائي ([1])

          اور بعض ائمہ متقدمین سے جو یہ مروی ہے کہ ”ضعیف حدیث رائے سے بہتر ہے“ یا ”ضعیف حدیث قیاس سے بہتر ہے“ توان کی مراد ضعیف حدیث سے حسن لغیرہ ہے، اس لئے کہ متقدمین علماء کے نزدیک حدیث کی دو قسمیں ہیں: صحیح اور ضعیف، اور ضعیف کی دو قسمیں ہیں: متروک اور غیر متروک۔ مگر علماء متاخرین نے حدیث کی تین قسمیں کی ہیں صحیح، حسن، ضعیف، اور متاخرین کی اصطلاح میں جو حسن ہے وہی متقدمین کی اصطلاح میں حدیث ضعیف غیر متروک ہے، اور جو ان کی اصطلاح میں ضعیف ہے وہ متقدمین کی اصطلاح میں حدیث ضعیف متروک ہے۔([2])

          علامہ ابن تیمیہ رحمة الله عليه منھاج السنۃ النبویۃ میں فرماتے ہیں:

          ”وَأَمَّا نَحْنُ فَقَوْلُنَا: إِنَّ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ خَيْرٌ مِنَ الرَّأْيِ، لَيْسَ الْمُرَادُ بِهِ الضَّعِيفَ الْمَتْرُوكَ، لَكِنَّ الْمُرَادَ بِهِ الْحَسَنُ، كَحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ، وَحَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ، وَأَمْثَالِهِمَا مِمَّنْ يُحَسِّنُ التِّرْمِذِيُّ حَدِيثَهُ أَوْ يُصَحِّحُهُ، وَكَانَ الْحَدِيثُ فِي اصْطِلَاحِ مَا قَبْلَ التِّرْمِذِيِّ: إِمَّا صَحِيحًا وَإِمَّا ضَعِيفًا، وَالضَّعِيفُ نَوْعَانِ: ضَعِيفٌ مَتْرُوكٌ، وَضَعِيفٌ لَيْسَ بِمَتْرُوكٍ، فَتَكَلَّمَ أَئِمَّةُ الْحَدِيثِ بِذَلِكَ الِاصْطِلَاحِ، فَجَاءَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ إِلَّا اصْطِلَاحَ التِّرْمِذِيِّ؛ فَسَمِعَ قَوْلَ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ: الْحَدِيثُ الضَّعِيفُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الْقِيَاسِ، فَظَنَّ أَنَّهُ يَحْتَجُّ بِالْحَدِيثِ الَّذِي يُضَعِّفُهُ مِثْلُ التِّرْمِذِيِّ([3])


ضعیف حدیث پر عمل کرنا کیسا ہے؟

سوال(26- 185): کیا کسی حدیث میں معمولی ضعف ہونے پر بھی اس پر عمل کرنا ناجائز ہے؟

جواب: اگر کسی حدیث میں معمولی ضعف ہو ،مگر وہ ضعیف حدیث صرف ایک ہی طریق سے آئی ہو اور دوسرے نصوص شرعیہ: آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ کے عموم یا اقوال صحابہ یا کسی قاعدہ معمول بھا سے بھی اس کی تائید نہ ہوتی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں، اور اگر کسی طرح سے یہ ضعف دور ہوجائے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ کم سے کم  حسن لغیرہ ہوجائے گی، اور حدیث حسن لغیرہ حجت اور معمول بہ ہے۔

          قال السخاوي في فتح المغيث: ”ان الحسن لغيره يلحق فيما يحتج به، لکن فيما تکثر طرقه، وقال: ولا يقتضي ذلك الاحتجاج بالضعيف، فان الاحتجاج انما هو بالهيئة المجموعة کالمرسل حيث اعتضد بمرسل آخر ولو ضعيفا کما قال الشافعي والجمهور“([1])


جان بوجھ کر ضعیف احادیث پر عمل کرنے کا حکم

سوال(27- 186):جان بوجھ کر ضعیف احادیث پر عمل کرنے کے بارے میں نبی کریمﷺ کا کیا فرمان ہے؟

جواب: جان بوجھ کر ضعیف اور جھوٹی احادیث کو بیان کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے :

          ”مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِيثٍ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ(رواه مسلم([1]) والترمذي([2]) وقال الألباني: صحيح([3]))

          جس نے میری طرف سے کوئی ایسی حدیث بیان کی جس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سےایک ہے ۔

          جو شخص جانتے ہوئے جھوٹی حدیث پر عمل کرتا ہے وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک اور اس کی تشہیر کرنے والے کی طرح ہی  ہے ، اسی واسطے وہ بھی اس میں شامل ہے ، حافظ ابن حجر رحمة الله عليه فرماتے ہیں :

          ”اشتهر أن أهل العلم يتساهلون في إيراد الأحاديث في الفضائل، وإن كان فيها ضعف ما لم تكن موضوعة، وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر ذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة، وقد صرح بمعنى ذلك الأستاذ أبو محمد بن عبد السلام وغيره، وليحذر المرء من دخوله تحت قوله ﷺ: ”من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين“، فكيف بمن عمل به؟ ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام أو في الفضائل إذ الكل شرع([4])

                اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بات عام ہے کہ اہل علم فضائل کے باب میں ایسی حدیثیں نقل کرنے میں تساہلی برتتے ہیں جن میں ضعف ہو مگر موضوع نہ ہوں ، مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگانا بہتر ہے کہ ان پر عمل کرنے والا حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھے ، اور اسے شہرت نہ دے،تاکہ آدمی ضعیف حدیث پر عمل کرکےایسی چیز کو شریعت نہ بنائے جو شریعت میں سے  نہیں ہے، یا بعض جاہل لوگ اسے سنت صحیحہ سمجھنے لگیں ،استاذ ابو محمد بن عبد السلام وغیرہ  نے اس کی صراحت فرمائی ہے، اور آدمی کو آپ کے اس قول کا مصداق بننے سے بچنا چاہئے کہ جو میری جانب سے کوئی حدیث بیان کرے حالانکہ اسے جھوٹ سمجھتا ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک ہے ، تو پھر اس کا کیا معاملہ ہوگا جو اس ( ضعیف حدیث) پر عمل کرے ، اور احکام و فضائل کے درمیان حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ سب شریعت ہی ہیں۔


کن ابواب میں ضعیف حدیث سے استدلال جائزہے؟

سوال(28- 187): کتنے بابوں میں ضعیف حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے؟

جواب: اس بارے میں علماء کرام کے تین اقوال ہیں:

(١) اس پر مطلقا عمل نہ کیا جائے، نہ احکام میں اور نہ فضائل میں، یہ امام بخاری، امام مسلم، امام یحی بن معین ،امام ابن حزم، امام ابوبکر بن العربی رحمة الله عليهم اور متاخرین علماء میں سے علامہ البانی رحمة الله عليه وغیرہ کا مذہب ہے، اور اسی کی جانب حافظ ابن حجر رحمة الله عليه کا میلان بھی معلوم ہوتا ہے، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ حدیث ضعیف سے ظن مرجوح حاصل ہوتا ہے، اور اس پر بالاتفاق عمل کرنا جائز نہیں، قال الالبانی:

”وهذا هو الحق الذي لا شك فيه عندي لأمور: الأول: أن الحديث الضعيف إنما يفيد الظن المرجوح، ولا يجوز العمل به اتفاقا، فمن أخرج من ذلك العمل بالحديث الضعيف في الفضائل لابد أن يأتي بدليل وهيهات“([1])

(2) اس پر مطلقا عمل کیا جائے گا، امام سیوطی﷫ فرماتے ہیں کہ اس کی نسبت امام ابوداود اور امام احمد﷮ کی جانب کی گئی ہے، اس واسطے کہ یہ دونوں اس کو اقوی من رأی الرجال مانتے ہیں۔

مگر اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمة الله عليه کا منھاج السنۃ میں جو قول مذکور ہے اس کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس پر فضائل اعمال میں چند شروط کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔

علامہ محمد جمال الدین القاسمی کے بقول یہی رای ائمہ کے نزدیک معتمد ہے، مگر جب ہم اس کی شروط پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف فی اصطلاح المتاخرین نہیں ہے، بلکہ ضعیف غیر متروک عند المتقدمین یعنی حسن لغیرہ ہے، کیونکہ حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے اس کے فضائل میں قبولیت کے لئے تین شرطیں ذکر کی ہیں:

(١) اس میں ضعف غیر شدید ہو، اس سے کذابین ،متہمین بالکذب اور فاحش الغلط راویوں کی روایتیں نکل جاتی ہیں۔
(٢) یہ کسی معمول بہ اصل کے تحت مندرج ہو۔
(٣) اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، بلکہ احتیاط کے خیال سے عمل کیا جائے، اب ظاہر ہے کہ جس میں شدید ضعف نہیں ہے اور وہ کسی معمول بہ اصل کے تحت داخل ہے تو وہ حسن لغیرہ کے درجہ میں ہوگی، نہ مطلقا ضعیف، اس واسطے میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ اگر ضعیف حدیث تعدد طرق یا دوسرے نصوص شرعیہ کی تائید یا کسی معمول بہ اصل کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے حسن لغیرہ کے درجہ تک پہونچتی ہے تو قابل عمل ہے ورنہ نہیں، فضائل اعمال اور غیر فضائل اعمال میں فرق درست نہیں، اس واسطے کہ فضائل اعمال ،مکارم اخلاق اور حلال وحرام سب شریعت اور دین ہیں، اور سب کے لئے حجت اور دلیل چاہئے، اور جو حدیث قابل قبول سند سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہی نہیں وہ حجت کیسے ہوگی؟



([1]) تمام المنة:34.

([1]) صحيح مسلم :1/7 [1] المقدمة، باب وجوب الرواية عن الثقات وترك الكذابين.

([2]) سنن الترمذي: 5/35 [2662-2663] کتاب العلم، باب ما جاء فيمن روی حديثا وهو يری أنه کذب.

([3]) انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 2/1066[6199].

([4]) تبيين العجب:3- 4 ، بحواله تمام المنة:36.

([1]) فتح المغيث:2/ 11.

([1]) تدريب الراوي: 189.

([2]) انظر قواعد التحديث: ص 118.

([3]) منهاج السنة النبوية:4/341،توجيه النظر: ص 68، قواعد التحديث: ص99، الوضع في الحديث : 1/64.

([1]) البقرة: 185.

([2]) المائدة: 6.

([3]) صحيح مسلم: 4/ 1813 [2327] کتاب الفضائل، باب مباعدته @ للآثام واختياره من المباح أسهله.

([4]) صحيح مسلم: 4/ 2055 [2670] کتاب العلم، باب هلك المتنطعون.

([5]) البقرة: 173.

([1]) البقرة: 75.

([2]) صحيح البخاري مع الفتح:13/ 318[7352] کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة،باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب، أو أخطأ،صحيح مسلم:3/ 1342[1716] کتاب الأقضية،باب بيان أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ.

([1]) صحيح مسلم :3/ 209 [ 715]کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.

([2]) سنن ابي داود:1/92 [232] کتاب الطهارة، باب في الجنب يدخل المسجد.

([3]) سنن ابن ماجه: 1/212 [645]كتاب الطهارة وسننها، باب في ما جاء في اجتناب الحائض المسجد، وقال الألباني: ضعيف.

([1]) المجموع: 2/357 ، کتاب الحيض.

([2]) سنن الترمذي: 1/236 [131]كتاب الطهارة، باب ما جاء في الجنب والحائض، وقال الألباني: ضعيف، انظر: ارواء الغليل: 1/206[192] کتاب الطهارة، باب الحيض.

([3]) سنن ابي داود:1/90[229]کتاب الطهارة،باب في الجنب يقرأ القرآن، وقال الألباني: ضعيف.

([4]) سنن النسائي:1/144 [265]کتاب الطهارة، باب حجب الجنب من قراءة القرآن، وقال الألباني: ضعيف.

([5]) سنن ابن ماجه: 1/195 [594]كتاب الطهارة وسننها، باب ما جاء في قراءة القرآن على غير طهارة، وقال الألباني: ضعيف.

([6]) مسند أحمد: 1/110[872].

([7]) مسند ابي يعلی: 1/300 [365].

([8]) انظر: مرعاة المفاتيح: 2/155.

([9]) مرعاة المفاتيح:2/154.

([10]) صحيح مسلم:1/194 [852] كتاب الحيض، باب ذكر الله تعالى في حال الجنابة وغيرها.

([11]) مستخرج ابو عوانة: 1/184 [578] کتاب الطهارة، باب بيان ما يقال عند دخول الخلاء.

([12]) مرعاة المفاتيح: ٢/ ١٥٣.

([13]) تمام المنة: ص 117.

([14]) فتاوی ابن تيمية: ٢٦/١٩١.

([15]) الدماء الطبيعية للنساء: ص٢١.

([16]) سنن ابي داود:1/92[232]کتاب الطهارة،باب في الجنب يدخل المسجد،وقال الألباني:ضعيف.

([17]) مرعاة المفاتيح: ٢/١٥٦.

([18]) النساء: ٤٣.

([19]) انظر المغني: ١/ ٩٧.

([20]) صحيح البخاري: 2/28 [938]كتاب العيدين، باب اعتزال الحيض المصلى.

([21]) صحيح مسلم: 3/20 [2093]کتاب صلاة العيدين،باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى.

([22]) سنن ابي داود:1/442 [1138]کتاب الصلاة،باب خروج النساء في العيد،وقال الألباني: صحيح.

([23]) سنن الترمذي: 2/419 [539] کتاب العيدين، باب في خروج النساء في العيدين، وقال الألباني: صحيح.

([1]) سنن ابي داود:1/92[232]کتاب الطهارة،باب في الجنب يدخل المسجد،وقال الألباني:ضعيف.

([2]) سنن ابن ماجه: 1/212 [645]كتاب الطهارة وسننها، باب في ما جاء في اجتناب الحائض المسجد، وقال الألباني: ضعيف.

([3]) مرعاة المفاتيح: 2/561.

([4]) صحيح مسلم: 1/168 [715]کتاب الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها.

([1]) صحيح البخاري:1/228[130] كتاب العلم، باب الحياء في العلم.

([2]) صحيح البخاري:1/195-196[101]كتاب العلم،باب هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم.

([1]) فقه السنة: 2/329.

([2]) البقرة: 222.

([1])سنن ابن ماجه:1/81[224] المقدمة،باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، وقال الألباني: صحيح.

([2]) البقرة:275.

([3]) صحيح مسلم: 11/ 26 [1598]کتاب المساقاة،باب لعن آکل الربا ومؤکله.

([1]) المائدة: 2.

([1]) فقه السنة: 1/ 457.

([1]) التوبة: 60.

([2]) التحريم: 6.

([1]) الأنفال: 60.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top