کتاب السنن والبدعات

فھرست

اذان کے بعد بلند آواز سے ”الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“پڑھنا

 

سوال(1- 47): اذان کے بعد بلند آواز سے :”الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ، الصلاۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ، الصلاۃ والسلام علیک یا نبی اللہ“ کہنا کیسا ہے ؟ کیا قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت ہے ؟

جواب: کتاب و سنت اور عمل صحابہ و خیر القرون سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ، بلکہ چند سالوں پہلے اہل بدعت کی ایجاد ہے ، اس واسطے یہ بدعت ہے ، اور اس سے احتراز لازم ہے ، کیونکہ دین میں ہر نئی نکالی گئی چیز بدعت اور قابل رد ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

          ”فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ،وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ“(رواهأحمد([1])وابوداود([2])والترمذي([3])وابن ماجه([4])، وقال الألباني:صحيح([5]))

          دین میں ہر نئی نکالی گئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت ضلالت ہے ۔

          نیز فرمایا: مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ(متفق عليه([6]))

          ہمارے اس امر ( دین ) میں جس نے کوئی نئی چیز نکالی اس کی یہ نئی نکالی گئی چیز مردود اور ناقابل قبول ہے ۔

کتاب العقیدہ

([1]) مسند أحمد: 4/126-127.

([2]) سنن ابي داود: 5/15[4607]کتاب السنة، باب في لزوم السنة.

([3]) سنن الترمذي: 5/43[2676]کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع.

([4]) سنن ابن ماجه: 1/15[42-43]  مقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين.

([5]) انظر: ارواء الغليل: 8/107[2455].

([6]) صحيح البخاري:3/241[2697]كتاب الصلح،باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، صحيح مسلم:5/132[4589]کتابالأقضية،باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور.

کتاب العقیدہ

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا مانگنا

 

سوال(2-  48):ہمارے یہاں مروجہ دعا بعد نماز پنجگانہ پر التزام ہے، جس میں ہر فرض نماز سے سلام پھیر کر اذکار ماثورہ پڑھنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف رخ کر کے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر زور زور سے دعا مانگتا ہے اور مقتدی حضرات اپنے اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر اس کی دعا پر زور زور سے آمین آمین کہتے جاتے ہیں،سوال یہ ہے کہ:

          (١) مذکورہ ہیئت کذائی کے ساتھ ہر فرض نماز کے بعد دعا مانگنا اور اس کا التزام کرنا سنت ہے یا بدعت؟

          (٢)برائے کرم اس بات کی بھی وضاحت کردیں کہ اگر بدعت ہے تو کیا مذکورہ ہیئت کذائی کے ساتھ مع الالتزام دعا مانگنے والے یا اس ہیئت کذائی کو ضروری سمجھ کر اس پر مداومت کرنے والے گنہگار ہوں گے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر اجر جزیل کے مستحق بنیں۔

جواب: (١)ہر فرض نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور اس پر مداومت کرنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔([1])

          اس واسطے اس  کا التزام کرنا بدعت ہے ،حدیث نبوی ہے:

          وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ([2])

          دین میں ہر نئی نکالی ہوئی چیزبدعت ہے۔

          نیز اہل علم پر مخفی نہیں کہ عبادات توقیفی ہیں اور ان میں اپنی جانب سے اضافہ کرنا درست نہیں،البتہ کسی اہم ضرورت پر امام مقتدیوں کے ساتھ نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرسکتا ہے ،جیسے قنوت نازلہ میں کرتے ہیں ،اور ایسی صورت میں مقتدی صرف آمین کہیں گے۔

          (٢)اس ہیئت کذائی کو ضروری سمجھ کر اس پر مداومت کرنا جب بدعت ہے تو جانتے بوجھتے ہوئے اس کا ارتکاب والتزام کرنے والا گنہگار بھی ہو گا،وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ([3])اور ہر بدعت گمراہی ہے،اس کی دلیل ہے۔

کتاب العقیدہ

([1]) تفصیل کےلئےدیکھئے مولانا عزیز الرحمن سلفی کی کتاب:دعا کے آداب واحکام.

([2]) صحيح البخاري: 13/249[ 7277]کتابالإعتصام بالکتاب والسنة، باب الإقتداء بسنن رسول الله، صحيح مسلم: 2/592 [43] کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة.

([3]) المصدر السابق.

کتاب العقیدہ

 

سوال(3- 49): کیا فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے ؟ جب میں نے امام کو کہا کہ رسول اللہﷺ ہر نماز کے بعد ذکر و اذکار کے بعد انفرادی دعا مانگتے تھے ، تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ ایسا ہمیشہ نہیں کرتے تھے ، بلکہ آپ کبھی کبھی ایسا کرتے تھے ، کیا ان کا یہ کہنا صحیح ہے ؟

 

جواب: اس طرح کے سوالات کے جوابات کئی دفعہ تفصیل سے دئے جاچکے ہیں ، اس میں راجح یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین سے فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی یا انفرادی دعا کے التزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا :

          ”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الَّذِي نُقِلَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ ذَلِكَ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إنَّمَا هُوَ الذِّكْرُ الْمَعْرُوفُ،كَالْأَذْكَارِ الَّتِي فِي الصِّحَاحِ،وَكُتُبِ السُّنَنِ وَالْمَسَانِدِ، وَغَيْرِهَا([1])

          تما م تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے ، فرض نماز کے  بعد نبی کریم ﷺ سے جو منقول ہے وہ مشہور و معروف اذکا ر ہیں ، جیسے وہ اذکا ر جو کتب صحاح ، سنن اور مسانید وغیرہ میں موجود ہیں ۔

          رہا آپ کا یہ کہنا کہ رسول اللہﷺ ہر نماز کے بعد ذکرو اذکار سے فارغ ہوکر ہمیشہ انفرادی دعا مانگتے تھے تو اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے ، کیونکہ آپ سے نمازکے بعد اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِك وَشُكْرِك وَحُسْنِ عِبَادَتِكوغیرہ کہنا تو ثابت ہے، مگر آپ ہمیشہ ہی اس کا اہتمام کرتے رہے اور کبھی بھی اسے ترک نہیں کیا ایسا دعوی کرنا محل نظر ہے ، اور اگر آپ کی مراد یہ ہو کہ رسول اللہﷺسلام اور اذکار کے بعد ہمیشہ انفرادی طور سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے تو قطعا درست نہیں ہے، اور اگر یہی مقصد امام صاحب کا یہ کہنے سے ہو کہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہمیشہ نہیں کرتے تھے ، بلکہ آپ کبھی کبھی ایسا کرتے تھے،تو وہ بھی درست نہیں ، رسول اللہ ﷺ سے سلام پھرنے کے بعد جو اذکار و ادعیہ منقول ہیں ان میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں ملتا ، البتہ اگر کوئی ذکر و اذکار سے فارغ ہونے کے بعد بوقت ضرورت دعا کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے فرض نماز کے بعد دعا مانگنا نہیں کہیں گے ، بلکہ عام حالات میں جیسے آدمی ضرورت کے وقت دعا مانگتا ہے ویسے ہی یہاں بھی عام حالات پر محمول کرتے ہوئے دعامانگنا ہوگا ۔

          علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اسی مسئلہ میں آگے فرماتے ہیں :

          ”وَبِالْجُمْلَةِ فَهُنَا شَيْئَانِ: أَحَدُهُمَا: دُعَاءُ الْمُصَلِّي الْمُنْفَرِدِ، كَدُعَاءِ الْمُصَلِّي صَلَاةَ الِاسْتِخَارَةِ، وَغَيْرِهَا مِنْ الصَّلَوَاتِ، وَدُعَاءُ الْمُصَلِّي وَحْدَهُ، إمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا. وَالثَّانِي: دُعَاءُ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِينَ جَمِيعًا، فَهَذَا الثَّانِي لَا رَيْبَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَفْعَلْهُ فِي أَعْقَابِ الْمَكْتُوبَاتِ، كَمَا كَانَ يَفْعَلُ الْأَذْكَارَ الْمَأْثُورَةَ عَنْهُ، إذْ لَوْ فَعَلَ ذَلِكَ لَنَقَلَهُ عَنْهُ أَصْحَابُهُ، ثُمَّ التَّابِعُونَ، ثُمَّ الْعُلَمَاءُ، كَمَا نَقَلُوا مَا هُوَ دُونَ ذَلِكَ([2])

          خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس میں دو باتیں ہیں :

          1- تنہا نماز پڑھنے والےکا دعا کرنا جیسے نماز استخارہ وغیرہ پڑھنے والے کا دعا کرنا اور جیسے مصلی کا تنہا دعا کرنا خواہ وہ اما م ہو یا مقتدی ( تو یہ جائز ہے )۔

          2- امام اور مقتدی دونوں کا ایک ساتھ دعاکرنا تو بلاشبہ نبی کریم ﷺ فرض نمازوں کے بعد اسے نہیں کرتے تھے ، جس طرح آپ اذکار ماثورہ کا اہتمام کرتے تھے ، اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام اسے آپ سے نقل فرماتے ، پھر تابعین اور علماء کرام اسے نقل کرتے ، جیسا کہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی آپ سے نقل کی ہیں ، اور آگے فرماتے ہیں :

           ”أَمَّا دُعَاءُ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِينَ جَمِيعًا عَقِيبَ الصَّلَاةِ فَهُوَ بِدْعَةٌ([3])

          رہا فرض نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اجتماعی دعاکرنا تو بدعت ہے ۔

          اس واسطے صرف اتنے پر اکتفاء کرنا چاہئے جتنا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور جو رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے اس کے کرنے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہئے ۔

کتاب العقیدہ

([1]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/ 514.

([2]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/517.

([3]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 22/ 519.

کتاب العقیدہ

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا حکم

 

سوال(4- 50 ):فرض نماز کے بعد اجتماعی طور سے دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب:اصل عبادات میں اتباع ہے،ابتداع نہیں۔یعنی عبادتوں کو اسی طر ح کرنا چاہئے جیسے کتاب و سنت سے ثابت ہوں،اپنی جانب سے ان میں کمی و بیشی نہیں کرنی چاہئے،لہذا نماز کو بھی اسی طرح ادا کرنا چاہئے جیسے رسول اللہﷺ سے ثابت ہے، ارشاد نبوی ہے :

          صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي([1])

          تم لوگ نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

          فرض نماز کے بعد اجتماعی طور سے دعا کرنے کو واجب اور جزونماز یا سنن نماز میں سے سمجھنا غلط ہے، خاص طور سے جو اس وقت رائج ہے کہ امام لازمی طور پر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے عربی میں دعائیں کرتا ہے ،اور مقتدی حضرات بلا کچھ سمجھے بوجھے اور بلا کسی خشوع وخضوع کے آمین آمین کہتے ہیں،اور اپنی ضرورت کی چیزوں کے متعلق دعا ہی نہیں کرتے،یہ بالکل درست نہیں، اس کے لئے میرے علم کے مطابق کسی بھی صحیح حدیث سے ثبوت نہیں ہے۔

          اس لئے بہتر ہے کہ اگر کسی کو کوئی حاجت ہے تو اپنی ضرورت خشوع وخضوع کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش کرے ،اور ضرورت محسوس کرے تو امام اور مقتدیوں سے بھی دعا کی درخواست کرے، ایسی صورت میں سب اجتماعی طور سے اس کے لئے دعا کرلیں، یا کوئی اجتماعی پریشانی اور مصیبت ہو اور اس کے لئے اجتماعی طور سے دعا کریں تو کوئی حرج نہیں ، لیکن روزانہ بلا کسی سبب کے ہر فرض نماز کے بعد اجتماعی طور سے دعا کرنا اور اس کو ضروری یا مسنون سمجھنا صحیح نہیں ،بلکہ اسے بد عت کہیں تو غلط نہیں ہوگا،اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح البخاري:8/11[6008]کتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم.

کتاب العقیدہ

عیدین کی نماز کے بعد  ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

 

سوال(5- 51): عیدین کی نماز کے بعد امام  صاحب ہاتھ اٹھا کر دعا کریں اور مقتدی حضرات ہاتھ اٹھا کر ان کی دعا پر آمین کہتے جائیں، اس سلسلے میں جامعہ سلفیہ بنارس سے فتوی طلب کیا گیا جس سے دعا کی مذکورہ ہیئت کو غیر ثابت شدہ قرار دیا گیا، لیکن ہمارے یہاں کا ادارہ جامعہ شمس الہدی سلفیہ دلال پور صاحب گنج، جھارکھنڈ کی جانب سے ہندی زبان میں ایک اشتہار دیا گیا جس میں مذکورہ ہیئت کی دعا مانگنے کو مستحب قرار دیا گیا ،اس لئے ہمارے علاقہ کے لوگ تذبذب میں پڑ گئے ہیں کہ کون سا فتویٰ درست ہے۔

          اس سوال نامہ کے ساتھ دونوں فتوے ارسال کئے جارہے ہیں ۔

          موصوف سے گذارش ہے کہ دونوں کو پڑھ کر صحیح جواب سے مطلع کریں ، اللہ تعالی  آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

 مسئلہ : نماز عیدین کے بعد اجتماعی دعا کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو صحیح بخاری :ج1 /کی حدیث نمبر [915] کے اندر آنے والی اس عبارت کا کیا مفہوم ہوگا :

          فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ

          اور دعا میں رفع الیدین کا کیا حکم ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں بالتفصیل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے، عین نوازش ہوگی۔

 جامعہ سلفیہ بنارس کا جواب:

الجواب بعون اللہ الوہاب وھو الموفق للصواب:

          صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ  عیدین میں نہ نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور نہ خطبہ کے بعد،اورسوال میں مذکور حدیث اور اس معنی کی دیگر حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں مسلمان مردوں کے ذکر و اذکار و تسبیح وغیرہ میں شامل ہوکر خود بھی ذکر و اذکار کریں ، اورا س دن کی برکات وفیوض سے خود بھی مستفیض ہوں ، ان احادیث کے الفاظ کے عموم سے عیدین کی نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کے لئےاستدلال بالکل صحیح نہیں ہے ۔

          اس لئے عیدین میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا کئے بغیر خطبہ دیا جائے اور خطبہ کے بعد دعا کئے بغیر لوگ اپنے  اپنے گھروں کو پلٹ جائیں ، جو کچھ دعائیں مانگنی ہوں امام صاحب خطبہ کے دوران ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کریں ، اور مقتدی و سامعین  حضرات ان کے دعائیہ کلمات پر آمین کہہ لیں ، اس سے زائد مسنون نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لئے :فتاوی رمضان ، استقبال رمضان ،مرعاۃ المفاتیح :5/31، فتاوی اسلامیہ،فتاوی الحج والعمرہ والصیام وغیرہ دیکھیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ابو عفان نور الہدی عین الحق سلفی مالدہی

جامعہ سلفیہ بنارس

اشتہار  جامعہ شمس الھدی سلفیہ:

دونوں عیدوں کے بعد ساموہک دعا کرنا بدعت نہیں بلکہ مستحب ( پسندیدہ ) عمل ہے

          صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دوسری احادیث کی کتابوں میں لکھا گیا حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ کی روایت  (بیان ) سے دونوں عیدوں کی نماز کے  پشچات ( بعد )ساموہک(اجتماعی ) دعا کرنے کی روشن و صاف دلیل ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا گیا ہے :

          قَالَتْ: كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ(صحيح بخاري: ج:1، ص: 132)

          صحیح بخاری بھاگ  1/ پارٹ 132، ارتھ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ ہم آدیشت ہوتے تھے کہ ہم عید کے دن باکرہ ، بالغہ کو یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی نکال کر عید گاہ لے جائیں ، پس حائضہ عورتیں ہم لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور وہ لوگوں کے ساتھ تکبیرات پڑھیں گی اور ان کے ساتھ دعائیں کریں گی اور وہ امید کریں اس دن کی برکت اور پاکی کی ، اور بھی حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے صحیح مسلم میں بیان  کیا گیا ہے :

          قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِى الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاَةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِين(صحيح مسلم :ج1،ص: 291)

 صحیح مسلم بھاگ :1/ پارٹ 291، ارتھ :حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو آدیش  دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں بالغہ ، حائضہ پردے میں رہنی والی عورتوں کو نکال کر عیدگاہ لے جائیں، لیکن حائضہ عورتیں نماز عیدین سے الگ رہیں گی ، اور وہ شریک رہیں گی بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں ۔

          اور دعا کے سمے  ہاتھ اٹھانے کا پرمان  وِبھنن صحیح حدیثوں سے بھی ہے ، جیسا کہ امام بخاری  رحمۃ اللّٰہ علیہ﷫ صحیح بخاری بھاگ 2/ پارٹ 938 باب رفع الایدی فی الدعاء ج2 ص938 میں ادھیائے لا کر اس ادھیائے میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ اور انس  رضی اللہ عنہ کے کتھن کو لپبندھ  کرتے ہوئے فرمایا ہے : جس سے صاف ہوتا ہے کی دعا کے سمے ہاتھ اٹھانا مستحب ( پسندیدہ ) ہے ۔

          اتہ: یللکھت پرمانوں کے آلوک میں عید کے دونوں نمازوں میں ہاتھ اٹھا کر سامووہک دعا کرنا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے۔

پرکاشن و پرچار وبھاگ

جامعہ شمس الہدی السلفیہ

دلال پور ، صاحب گنج ، جھارکھنڈ

جواب:مذکورہ بالا مسئلہ میں جامعہ سلفیہ کا فتویٰ درست ہے ،اور عیدین کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا اور مقتدی حضرات کا ہاتھ اٹھاکر اس کی دعا پر آمین کہنا احادیث سے ثابت نہیں، اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا﷞کی جس حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے اس میں:وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ([1]) ہے ،جس کا مطلب نماز عیدین کے بعد امام کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اورمقتدیوں کا اس پر آمین کہنا نہیں ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور خطبے کے دوران دعا واذکار میں شرکت ہے۔

          مرعاة المفاتیح (5/31)میں ہے:

          واستدل بقوله:”دعوة المسلمين“ على مشروعية الدعاء بعد صلاة العيد، كما يدعىٰ دبر الصلوات الخمس،وفيه نظر؛لأنه لم يثبت عن النبي ﷺ دعاء صلاة العيدين، ولم ينقل أحد الدعاء بعدها، بل الثابت عنه ﷺ أنه كان يخطب بعد الصلاة من غير فصل بشيء آخر،فلا يصح التمسك بإطلاق قوله”دعوة المسلمين“والظاهر أن المرادبها الأذكار التي في الخطبة وكلمات الوعظ والنصح،فإن لفظ الدعوة عام،والله تعالى أعلم

          یعنی حدیث کے الفاظ”دعوة المسلمین“ سے جیسے پانچوں نمازوں کے بعد دعا کی جاتی ہے اس طرح نماز عید کے بعد کی دعا کی مشروعیت پر استدلال کیاگیا ہے جو محل نظر ہے، اس واسطے کہ نبی ﷺ سے صلاة العیدین (کے بعد) کی دعا ثابت نہیں ہے، اور کسی نے بھی اس کے بعد آپ سے دعا مانگنا نقل نہیں کیا ہے ،بلکہ آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز کے بعد بغیر کسی اور چیز کے ذریعہ فصل کئے خطبہ دیا کرتے تھے، اس واسطے لفظ ”دعوة المسلمین“ کے اطلاق سے استدلال درست نہیں اور بظاہر اس سے مراد خطبے میں وارد اذکار اور وعظ و نصیحت کے کلمات ہیں کیوں کہ لفظ دعوة عام ہے۔

          مختصر یہ کہ کسی بھی روایت سے نماز عیدین کے بعد رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اٹھا کر دعا کا مانگنا اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر آپ کی دعا پر آمین آمین کہنا ثابت نہیں، اس واسطے اس کو مسنون کہنا درست نہیں ہے۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح مسلم: 3/20[2093]کتاب صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى.

کتاب العقیدہ

جس نماز میں رسول اللہ ﷺ نے انبیاء علیہم اسلام  کی امامت کی تھی وہ نفلی نماز تھی یا فرض؟

 

سوال(6- 52): شب معراج میں بیت المقدس میں رسول اللہ ﷺ نے جس نماز میں انبیاء  علیہم اسلام﷩ کی امام کی تھی وہ نفل نماز تھی یا فرض تھی؟

جواب: بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ نفل نماز تھی ، کیونکہ پانچ وقتوں کی نمازوں کی فرضیت اس کے بعد معراج میں اللہ کے پاس جانے کے بعد ہوئی ہے ، انبیاء ﷩کی امامت کے وقت ان کی فرضیت ہی نہیں ہوئی تھی ، اور آپ سے انبیاء علیہم اسلام﷩ کی امامت کرانے  کا مقصدآپ کی ان سب پر فضیلت بتانا تھا ۔

کتاب العقیدہ

صلاة الحاجہ کا ثبوت نہیں

 

سوال(7- 53):کیا صلاة الحاجہ کا ثبوت ہے ؟ اور اگر ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے ؟ براہ کرم دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں ۔

جواب : صلاة الحاجہ کے سلسلہ میں فقہ السنہ (1/213) میں سید سابق نے لکھا ہے کہ :

          ”امام احمد  نے بسند صحیح حضرت ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے وضو کیا ، اور مکمل طور سے وضو کیا، پھر دو رکعت نماز پڑھی اور ان کو مکمل کیا تو وہ جو کچھ مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے دیر سویر ضرور عطا فرمائے گا“۔

          مگر علامہ البانی رحمۃ اللّٰہ علیہ﷫ نے تمام المنۃ:(ص٢٦٠) میں اس پر باین الفاظ تعلیق لگائی ہے :

أنّىٰ لَهُ الصِّحَةُ وَفِي سَنَدِهِ رَجُلٌ مُجْهُولٌ؟ فَإنَّهُ فِي ”المسند“(6/ 442 – 443) مِنْ طَرِيقِ مَيمُون أبي محمد المرائى التميمي قَالَ ابن معين:”لا أعرِفُهُ“ قَالَ ابن عدي: ”فَعَلَى هَذَا يَكُونُ مَجهُولا“ وَلِذَلِكَ قَالَ الذهبي:”لا يُعْرَفُ“ وَرَاجِع إنْ شِئتَ”الميزان“و”اللسان“و”مجمع الزوائد“(2/ 278)

          ”یہ حدیث کہاں سے صحیح ہو گی جب کہ اس کی سند میں ایک مجہول شخص موجود ہے !؟ کیونکہ یہ حدیث المسند (6/442-443) میں میمون ابو محمدالمرائی التمیمی کے طریق سے وارد ہے ، اس کے بارے میں ابن معین کا قول ہے: ”لاأعرفہ“میں  اسے نہیں جانتا ، اور اس پر ابن عدی نے فرمایا :فعلی هذا يکون مجهولاپس اس کی بناء پر وہ مجہول ہوگا ، اور اسی وجہ سے امام ذہبی رحمۃ اللّٰہ علیہ﷫ کا قول ہے:”لا یعرف“ یہ معروف نہیں ، تفصیل چاہیں تو میزان الاعتدال للذہبی، لسان المیزان لابن حجر اور مجمع الزوائد: (2/278) کا مراجعہ کریں“ ۔

           اس سے معلوم ہوا کہ صلاة الحاجہ کا ثبوت نہیں ہے، رہا اس کا طریقہ تو وہ مندرجہ بالا ضعیف حدیث میں مذکور ہے۔

کتاب العقیدہ

صلاۃ الحاجہ میں قراءت جہری یا سری

 

سوال(8- 54): صلاۃ الحاجہ میں قراءت جہری ہوگی یا سری ؟

جواب :صلاۃ الحاجہ کے سلسلے میں جو حدیث ہے ا س کی تضعیف علامہ البانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تمام المنۃ (ص: 260) میں کی ہے ، نیز حدیث میں قراءت کے  جہری یا سری ہونے کی صراحت نہیں ہے ۔  

کتاب العقیدہ

دعا سے فراغت کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا

 

سوال(9- 55): دعاء میں کئی مقام پر ہاتھ اٹھانا مسنون ہے، مگر دعا سے فراغت کے بعد انھیں چہرے پر پھیرنا چاہئے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے اور بہت سے علماء اس سلسلہ کی تمام حدیثوں کو ضعیف قرار دیکر اس سے منع فرماتے ہیں آپ کے نزدیک اس سلسلہ میں راجح کیا ہے؟

جواب: میرے نزدیک دعا سے فراغت کے بعد دعاکے لئے اٹھائے گئے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا جائز ہے، کیونکہ اگرچہ اس سلسلے کی وارد حدیثوں پر کلام ہے، مگر مجموعی طور سے وہ درجہ حسن تک پہونچ جاتی ہیں اور قابل استدلال ہیں۔

          مولانا بدر الزماں نیپالی اپنی کتاب(دعائیں:ص٢٧) میں فرماتے ہیں:

           ”دعا مانگنے کے بعد ہاتھ کا چہرہ پر پھیرنا درست ہے، گو اس سلسلے کی وارد حدیثیں بعض ضعیف اور بعض نہایت ضعیف ہیں([1])، کیونکہ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللّٰہ علیہ          نے ترمذی([2])اور ابو داود([3]) وغیرہ میں وارد حدیثوں کو باہم ملا کراسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے([4])، اور امالی میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث بے بنیاد نہیں ہے، اور اس کا ثبوت حسن بصری سے بھی ہے، اور الادب المفرد میں وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ :

          ” میں نے ابن عمر اور ابن زبیر    رضی اللہ عنہم﷢ کو دیکھا کہ وہ دعا کرتے تو اپنی ہتھیلیاں اپنے چہروں پر پھیرتے“([5])

          یہ حدیث موقوفا صحیح ہے، ان سب روایات سے معلوم ہوا کہ دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کو بدعت کہنا غلط ہے۔([6])واللہ اعلم بالصواب.

کتاب العقیدہ

([1]) ارواء الغليل:2/178-182.

([2]) سنن الترمذي:4/227[3386]كتاب الدعوات، باب ما جاء في رفع الأيدي عند الدعاء، وقال الألباني: ضعيف.

([3]) سنن ابي داود:1/553[1492]كتاب الوتر، باب الدعاء، وقال الألباني:ضعيف.

([4]) بلوغ المرام مع السبل:4/219.

([5]) الأدب المفرد: ص: 315[٦٠٩] باب رفع الأيدي في الدعاء، وقال الألباني: ضعيف.

([6]) الأمالي بحواله حاشية العلل المتناهية: 2/357.

کتاب العقیدہ

سورج گرہن کے دوران  حاملہ عورتوں کاباہر نکلنا

 

سوال(10- 56):گرہن کے وقت عموما حاملہ عورتوں کو باہر نکلنے نہیں دیا جاتا ہے اور کوئی بھی کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے، کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے؟

جواب: جو لوگوں میں مشہور ہے کہ سورج گرہن کے وقت حاملہ عورتوں کو باہر نہیں نکلنا چاہئے، کیونکہ ان کے باہر نکلنے سے حمل ضائع ہونے کا خطرہ رہتا ہے، یا جو بچہ پیدا ہوگا اس کے ہونٹ کٹے ہوں گے وغیرہ وغیرہ، میرے علم کی حد تک شریعت میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے اور کتاب وسنت سے کہیں بھی کوئی اس طرح کی ممانعت ثابت نہیں ہے، صرف سائنسی نقطہ نظر سے بعض لوگ ننگی آنکھوں سے ایسی حالت میں سورج کو دیکھنے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت سورج سے کچھ ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جو بلاواسطہ دیکھنے کی صورت میں نگاہوں کے لئے انتہائی مضر ہوتی ہیں، اس واسطے اس سے اجتناب کرنا چاہئے، اور اس وقت اس کا مشاہدہ کرنا ہوتو رنگین کانچ کا چشمہ لگا کر یا پانی یا آئینہ میں اس کے عکس کا مشاہدہ کرنا چاہئے، بہر حال حاملہ عورتوں کے اس وقت نکلنے یا کام کاج کے تعلق سے جو باتیں مشہور ہیں ان کا شرعا ثبوت نہیں ہے، اگر طبی اور سائنسی نقطہ نظر سے بھی اس وقت نکلنا حمل کے لئے مضر ہو تو احتراز کرنا چاہئے، اس لئے کہ طبی نقطہ نظر سے جو اشیاء مضر ہیں ان سے بھی اجتناب ضروری ہے ،کیونکہ حدیث ہے:

          لا ضَرَرَ وَلا ضِرَارَ(رواه مالك([1])وابن ماجه([2])وقال الألباني: صحيح([3]))

          نہ کسی کو ضرر پہونچانا جائزہے،اور نہ خود نقصان اور ضرر اٹھانا درست ہے۔

کتاب العقیدہ

([1]) موطا الإمام مالك: 2/115[36]کتاب الأقضية، باب القضاء في المرافق.

([2]) سنن ابن ماجه: 2/784[2341]کتابالأحکام، باب من جنی في حقه ما يضر بجاره.

([3]) انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 2/1249[7517].

کتاب العقیدہ

بدعتی و مشرک کی نماز جنازہ میں شرکت کا حکم

 

سوال(11- 57): ہمارا ایک رشتہ دار مشرک بدعتی ہے اور اہل حدیثوں کے رشتہ داروں  میں سے ہے ، اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے جنازہ کی نماز میں شرکت کر سکتے ہیں ؟ اور اس کے لئے دعا کرسکتے ہیں ؟ اور تدفین میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب : شرکیہ اعمال کرنے والے بدعتی کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرنا چاہئے ، اور اگر اسی حالت میں اس کی موت ہوگئی ہے تو اس کے لئے دعا بھی نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ منافقین اور کفار و مشرکین کی نماز جنازہ جانتے بوجھتے ہوئے پڑھنا جائز نہیں ہے ، البتہ اورکوئی مصلحت دینی ہو تو اس کی تدفین میں شرکت کرسکتے ہیں ، اور اس کے گھر اس کے ورثہ کو تسلی اور توحید کی دعوت دینے کے لئے جاسکتے ہیں ، اس موقع پر اس کے گھر کھانا بھی بھیج سکتے ہیں ، لیکن نماز جنازہ پڑھنے اور دعا کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ 

کتاب العقیدہ

بریلوی مسلک کی مسجد میں اعتکاف کا حکم

 

سوال(12- 58): رمضان میں مجھے اعتکاف کرنا ہے ، کیا میں بریلوی مسلک کی مسجد میں اعتکاف کر سکتا ہوں ؟

جواب: اہل شرک و بدعت کی مسجد میں اعتکاف کرنے کی صورت میں آپ کو ان کے پیچھے نماز ادا کرنی پڑے گی ، ورنہ جھگڑا اور فتنہ ہوگا ، اوران کے پیچھے آپ کی نماز صحیح نہیں ، اور فتنہ و فساد کی چیزوں سے احتراز بھی ضروری ہے ، اس واسطے آپ متبعین کتاب و سنت کی مسجد میں اعتکاف کیجئے ، اگر آپ واقعی متبع کتاب وسنت ہیں اور تمام احکام شرعیہ پر کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو علمی کتابوں ، کیسٹوں اور اہل علم کی مجلسوں کے ذریعہ علم حاصل کرنا چاہئے ، تب آپ خود  اس منہج پر قائم رہ سکیں گے اور دوسروں کو بھی دعوت دے سکیں گے ، مستقل طور سے جہالت اور شرک و بدعات کے ماحول کا عذر قابل قبول نہیں ، اسی طرح منکرین حدیث کی صحبت بھی آپ کے لئے سم قاتل ہے ، اس واسطے اخلاص کے ساتھ آپ حالات کو سدھارنے کی کوشش کیجئے ، اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے ،اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

کتاب العقیدہ

جھاڑ پھونک،تعویذ گنڈے اور نقش قرآنی کا حکم

 

سوال(13- 59):گذارش خدمت اینکہ تعویذ کے سلسلہ میں مدلل شرعی حکم بیان فرمائیں ،مولانا تھانوی صاحب نے اعمال قرآنی میں بہت وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ تعویذ جائز ہے ، بتائیے کہ قرآنی آیات سے تعویذ لکھی جائے اور اسے بازو یا گلے میں لٹکایا جائے؟ جیسے آیۃ الکرسی، یا احادیث میں وارد کوئی دعا مثلاً :أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ، رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، أَنْ يَشْفِيكَ“الخ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ بخاری شریف سے جھاڑ پھونک کا ثبوت ملتا ہے ۔

جواب:آیات قرآنیہ اور ادعیۃ و اذکا رمسنونہ سے جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنا جائز ہے ،حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں ایک بچی کو دیکھا جس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا تو آپ نے فرمایا :

          اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ([1])

           یعنی اس کو نظر بدلگی ہے اس کو جھاڑ پھونک کراؤ۔

           حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

          أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَى مِنَ الْعَيْن([2])

           یعنی نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم نظر بد سے جھاڑ پھونک کرائیں ۔

           عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ﷜ سے روایت ہے کہ ہم دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنے جھاڑ پھونک مجھ کو بتاؤ، جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں ، جب تک کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ ([3])

          حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :  اپنا ہاتھ اس مقام پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے اور تین بار بسم اللہ کہواور سات بار یہ دعا پڑھو :

          أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ([4])

          میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز کی شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے میں خوف کھاتا ہوں ۔

          اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا﷞ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار پڑتے تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے، اور جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو میں پڑھ کر آپ کے ہاتھ پر دم کرتی اور اسے آپ کے جسم پر پھیرتی تاکہ آپ کے ہاتھ کی برکت حاصل ہو ۔ ([5])

          اور علامہ سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ﷫ فرماتے ہیں :

          قَدْأَجْمَعَ العُلْمَاءُ عَلَى جَوَازِالرُّقِى عِنْدَ اِجْتِمَاعِ ثَلَاثَةِ شُرُوْطٍ:

          (1) أَنْ تَكُوْنَ بِكَلَامِ اللهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ.

          (2) وَبِاللِّسَانِ العَرَبِيِّ أَوْ مَايُعْرَفُ مَعْنَاهُ.

          (3) أَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لَا تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَلْ بِإِذْنِ اللهِ تَعَالَى.([6])

          یعنی علماء کا تین شروط کے ساتھ جھاڑ پھونک کے جواز پر اجماع ہے:

(١) قرآنی آیات یا اللہ کے اسماء و صفات سے کیا جائے ۔

(٢) عربی زبان میں ہو ، یا ایسے کلمات ہوں جن کا مفہوم معلوم و معروف ہو ۔

(٣) یہ عقیدہ ہو کہ جھاڑ پھونک فی نفسہ مؤثر نہیں، بلکہ تاثیر پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے، اور جو اللہ نے مقدر کیا ہے وہی ہوگا ۔

          علامہ ابن تیمیہ﷫رحمۃ اللّٰہ علیہ  نے جس کو عربی زبان معلوم نہ ہو اس کے لئے عجمی زبان میں جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے، جب اس میں کفریہ کلمات نہ ہوں،رہا  غیرعربی زبان کو شعار بنالینا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دین اسلام میں سے نہیں ہے ([7])۔

          ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے جھاڑ پھونک کرنا مشروع ہے ،اور جھاڑ پھونک میں دعاؤں کو پڑھ کر ہتھیلیوں میں پھونکنا اور انھیں جسم پر پھیرنا یا مریض پر دم کرنا احادیث سے ثابت ہے، مگر کاغذ وغیرہ پر لکھ کر تعویذ بنانا اور اسے بازو یاگلے میں لٹکانا احادیث سے ثابت نہیں ۔

          ایک روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہم کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نیند میں ڈرے اسے یہ دعا پڑھنا چاہئے :

          أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينَ، وَأَنْ يَحْضُرُونِ([8])

          اس کی وجہ سے اسے کوئی ضرر نہیں پہونچے گا،بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمرو  رضی اللہ عنہما﷠ اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھاتے تھے اور نابالغ بچوں کو کسی ٹکڑے پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے ۔ ([9])

          مگر اس حدیث کا مرفوع حصہ، جس میں دعا پڑھنے کی تلقین ہے ثابت ہےاور درجہ حسن تک پہونچتا ہے ،لیکن موقوف حصہ جس میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہم﷢کا عمل ذکر کیا گیا ہے وہ ثابت نہیں ،بلکہ ضعیف ہے ،اس کی سند میں ایک مدلس راوی ہے اور مدلس راوی کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے، لہٰذا اس سے تعویذ کے جواز پر استدلال صحیح نہیں ۔

          علاوہ ازیں روایت کے الفاظ ہیں:

          وكان يحفظه أولاده الكبار، ويكتبه في ألواح ويعلقه في عنق الصغار([10])

          اسے اپنے بڑے بچوں کو یاد کرادیتے اور چھوٹے بچوں کے گلے میں تختیوں میں لکھ کر لٹکا دیتے۔

           اس سے بظاہریہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تختیوں میں لکھ کر یاد کرنے کے لئےان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے، نہ کہ وہ تعویذ ہوتی تھی، اس واسطے کہ تعویذ عموماً اوراق میں لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں میں ،اور ایسا اس لئے کرتے تھے کہ بڑوں کو تو دو چار بار زبان سے تلقین کرنے سے ہی  سے دعا یاد ہوجاتی تھی مگر چھوٹے بچوں کو یاد کرانے کے لئے تختیوں پر لکھ کر پڑھانا اور رٹانا پڑتا تھا ۔واللہ اعلم .

          بہر حال یہ احتمال قوی طور سے موجود ہے ،واذا جاء الإحتمال بطل الإستدلال۔

          پھر یہ عمل درج ذیل ارشادات نبویہ کے خلاف بھی ہے، اور صحابی کا کوئی قول یا فعل ارشاد نبوی کے خلاف ہوتو وہ حجت نہیں، وہ احادیث جن میں تعویذ گنڈے لٹکانے کی ممانعت ہے یہ ہیں :

          (١) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

          مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيمَةً فَلاَ أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً فَلاَ وَدَعَ اللَّهُ لَهُ(رواهأحمد([11])والحاکم([12])وصححه،ووافقه الذهبي)

          جو تعویذ لٹکائے اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جو کوڑی لٹکائے اللہ اس کو سکون نصیب نہ کرے۔ 

          ایک روایت میں ہے :

          مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ(رواه أحمد([13])وصححه الألباني([14]))

          جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔

          (٢) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ﷜ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

          إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ([15])

          جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا شرک ہے ۔

          اس حدیث میں اگر چہ جھاڑ پھونک کو مطلقا شرک کہا گیا ہے مگر آیات قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ ، غیر شرکیہ کلمات اور ذکر و اذکارسے جھاڑ پھونک کے جواز میں مذکورہ بالا دلیلوں کی روشنی میں یہاں ممنوع جھاڑ پھونک سے مراد کفریہ و شرکیہ یا غیر واضح و مبہم کلمات سے جھاڑ پھونک کرنا لیا جائے گا۔

          (٣) حضرت ابو بشیر﷜ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ نے ایک شخص کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ:

          أَنْ لاَ يُبْقِيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةً مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةً إِلاَّ قَطَعْتَ(متفق عليه([16]))

          کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا پٹہ یا اور کسی چیز کا پٹہ نہ رہنے دینا بلکہ سب کو کاٹ دینا ۔

          (٤) حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ﷜کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

          يَا رُوَيْفِعُ، لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِيْ، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا بَرِيءٌ مِنْهُ([17])

          اے رویفع شاید تمہاری عمر دراز ہوتو تم لوگوں کو یہ خبر کردینا کہ جو اپنی داڑھی میں گرہ لگاتے ہیں یا تانت لٹکاتے ہیں یا لید یا ہڈی سے استنجاء کرتے ہیں ان سے محمدﷺ بری ہیں ۔

          ان احادیث سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ و گنڈے ، تانت ، کوڑی اور گھونگھے وغیرہ لٹکانا درست نہیں، اور یہ حدیث عام ہے، ہر طرح کی تعویذ و گنڈے کو شامل ہے، خواہ وہ قرآنی آیات یا ادعیۃ ماثورہ پر مشتمل ہوں یا دوسرے کلمات پر ،خواہ ان کی گرہوں پر قرآنی آیات پڑھ کر پھونکا گیاہو یا غیر قرآنی ۔

          عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن حکیم ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ، اور دیگر بہت سے اسلاف کا یہی مذہب ہے ،اور یہی قابل اختیار اور راجح ہے ، اس لئے کہ تعویذ لٹکانے کی ممانعت عام ہے، اور کسی قسم کی تعویذ کی تخصیص ثابت نہیں، اگر قرآنی آیات اور ادعیہ ماثورہ پر مشتمل تعویذ جائز ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کی تخصیص ضرور فرماتے، جیسا کہ جھاڑ پھونک کے سلسلہ میں آپ نے تخصیص فرمائی ہے۔

          بعض لوگوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی کے نا م پر قرآن کی ہر سورت کا من گھڑت نقشہ بنایا ہے اور اس کے فوائد وبرکات وضع کئے ہیں، مگر آپ پورا ذخیرۂ حدیث چھان ڈالئے کہیں بھی آپ کو تعویذ کا کوئی نقشہ نہیں ملے گا ،حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسلمانوں کا بلکہ پوری انسانیت کا کوئی بھی خیر خواہ نہیں تھا اور حضرت عبد اللہ بن عباس﷠ فرماتے ہیں:

          إِنَّ قَوْمًا يَحْسِبُونَ أَبَا جَادٍ، وَيَنْظُرُونَ فِي النُّجُومِ، وَلَا أَرَى لِمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ خَلَاقٍ(رواه عبد الرزاق([18]) والبيهقي([19])، وسنده صحيح)

           یعنی کچھ لوگ ابجد کا حساب لگاتے ہیں اور علم نجوم پر عمل کرتے ہیں، میرے نزدیک جو ایسا کرے اس کے لئے خیر میں کوئی حصہ نہیں۔

          علاوہ ازیں خلفائے راشدین کے عمل سے بھی اس کا ثبوت نہیں ،بلفظ دیگر یہ ان کے طریقے کے بھی مخالف ہے، جب کہ ہمارے لئے حکم نبوی ہے:

          فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ،تَمَسَّكُوا بِهَا،وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ،وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ،وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ(رواه أحمد([20])وابوداود([21])والترمذی([22]) وابن ماجه([23]) وقال الألباني:صحيح([24]))

          تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑلو ،اس پر جمے رہو اور مضبوطی کے سا تھ اپنے دانتوں سے اسے تھام لو، اور اپنے آپ کو (دین میں) نئی باتوں سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے ،اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

          نیز اس سے شرکیہ تعویذوں کا بھی دروازہ کھلتا ہے، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل تقریباً ٪٩٩فیصد تعویذیں شرکیہ کلمات ،طلمسات، الٹی سیدھی لکیروں، نمبرات، مبہم کلمات وحروف اور جن وشیاطین وغیرھم سے استمداد پر مشتمل ہوتی ہیں،اور فقہ اسلامی کاقاعدہ ہے:مَا أدَّی ٰإِلَیٰ الْحَرَامِ فَهُوَ حَرَامٌجو حرام کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے۔

           علاوہ ازیں عام طور سے تعویذ لٹکانے والوں کی توجہ اللہ سے ہٹ کر تعویذ کی طرف ہو جاتی ہے،  چنانچہ جب تک تعویذ رہتی ہے سمجھتے ہیں کہ وہ ہر بلا سے محفوظ ہیں اور جیسے تعویذ ٹوٹتی ہے آفتوں اور بلاؤں سے ڈرنے لگتے ہیں، اس طرح ان کا اللہ پر اعتماد اور قضاء وقدر پر ایمان ختم ہو جاتا ہے اور شرک کی وادی میں بھٹکنے لگتے ہیں۔

          بہت سے لوگ تعویذ گنڈے پر اعتماد کرکے ایسی بیماریوں میں بھی ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے جن کا علاج دواؤں میں ہے، بہت سے لوگ مسنون ادعیہ واذکار کو چھوڑ کر تعویذ وگنڈے پر کلی اعتماد کر لیتے ہیں، اس طرح دواؤں اور جائز جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کا جو حکم ہے اس کے تارک ہوتے ہیں اور خسارہ اٹھاتے ہیں۔

          مختصر یہ کہ میرے علم میں تعویذ گنڈے کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں، خواہ قرآنی آیات پر مشتمل ہوں یا اور کسی دعا پر، اس واسطے ان کے بنانے اور استعمال کر نے سے احتراز کر نا چاہئے البتہ مذکورہ بالاشروط کا لحاظ کر کے جھاڑ پھونک کر سکتے ہیں([25])۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح البخاري:10/199[5739] كتاب الطب، باب رقية العين، صحيح مسلم: 4/1725 [59] کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة.

([2]) صحيح البخاري:10/199[5738]کتاب الطب، باب رقية العين، صحيح مسلم: 4/1725 [55-56]کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة.

([3]) صحيح مسلم: 4/ 1727 [64] کتاب السلام، باب لا بأس بالرقی مالم تکن فيه شرك.

([4]) صحيح مسلم:4/1728[67]کتاب السلام،باب استحباب وضع يده علی موضع الألم مع الدعاء.

([5]) صحيح البخاري: 10/ 195[5735]کتاب الطب،باب الرقی بالقرآن والمعوذات، صحيح مسلم: 4/ 1723 [50] کتاب السلام، باب رقية المريض بالمعوذات والنفث.

([6]) فتح المجيد: ص١٢٧.

([7]) المصدر السابق: ص١٢٦.

([8]) سنن ابي داود: 4/218[3893]کتاب الطب، باب کيف الرقی ، وقال الألباني: حسن.

([9]) المصدر السابق.

([10]) انظر فتح المجيد: ص109، مع حاشية رقم :1، للشيخ محمد حامد الفقی.

([11]) مسند أحمد:4/154[17440]، وقال الألباني: ضعيف.

([12]) المستدرك للحاکم:4/216[7501]کتاب الطب.

([13]) مسند أحمد:4/156[17458].

([14]) صحيح الجامع الصغيروزيادته: 2/ 1092[6394].

([15]) سنن ابي داود: 4/212[3883]کتاب الطب، باب في تعليق التمائم، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/336 [1632].

([16]) صحيح البخاري: 4/59 [3005] كتاب الجهاد والسير، باب ما قيل في الجرس ونحوه في أعناق الإبل، صحيح مسلم: 3/1662 [105]کتاب اللباس والزينة، باب کراهية قلادة الوتر في رقبة البعير.

([17]) سنن النسائي: 8/135[5067]کتاب الزينة، باب عقد اللحية، وقال الألباني: صحيح.

([18]) مصنف عبدالرزاق:11/26[19805]کتاب الجامع للإمام معمر بن راشد، باب الشهادة وغيرها والفخذ.

([19]) السنن الکبری:8/139[16956]کتابالقسامة،بابماجاء في کراهية اقتباس علم النجوم.

([20]) مسند احمد: 4/126-127.

([21]) سنن ابي داود: 5/15 [4607] کتاب السنة، باب في لزوم السنة.

([22]) سنن الترمذي: 5/43 [2676]کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع.

([23]) سنن ابن ماجه: 1/15[42-43]مقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين.

([24]) انظر: ارواء الغليل :8/107[2455].

([25]) تفصیل کےلئےدیکھئے: تیسیرالعزیزالحمیداور فتح المجید: باب من الشرک لبس الحلقۃ، وباب ماجاءفی الرقی والتماتم اور شیخ شمیم احمد سلفی کا گراں قدر رسالہ ”تعویذوگنڈہ کی حقیقت“.

کتاب العقیدہ

جادو کا علاج جادو سے درست نہیں

 

سوال(14- 60): ہمارے یہاں کچھ لوگ صحیح بخاری کے حوالہ سے جادو کا علاج بذریعہ جادو جائز اور درست کہتے ہیں ، تو کیا ان کی بات درست ہے کہ اس پر عمل کیا جائے ؟ یا درست نہیں ہے ؟

جواب: اگر جادو کا علاج قرآن مجید اور ادعیہ ماثورہ و مُباحہ کے ذریعہ کیا جائے تو درست ہے اور جادو کے ذریعہ کیا جائے تو درست نہیں ہے ، کیونکہ جادو ان سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک ہے جن سے اللہ کے رسول  ﷺنے اپنی امت کو آگاہ کیا ہے ،صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

          اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ([1])

سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو ، صحابہ کرام ﷢ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کرنا ، ایسے نفس کو ناحق قتل کرنا جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، کافروں سے لڑائی کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگنا، اور پاکدامن بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

          اور حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ :

          مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، ثُمَّ نَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ(رواه النسائي([2]) مرفوعا، وحسنه ابن مفلح([3]))

          جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونکا تو اس نے جادو کیا ، اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا ، اور جو اللہ کو چھوڑ کر کسی چیز سے چمٹا وہ اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔

          اس روایت میں جادو کے عمل کو شرک سے تشبیہ دی گئی ہے ، اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت ہے کہ جو شخص اس سے تعلق رکھتا اور اس پر بھروسہ  کرتا ہے وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے ۔

          اور عمران بن حصین ﷜سے مرفوعا روایت ہے کہ:

           لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ أَوْ تُطِيَّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكِهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، أَوْ قَالَ: مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً، وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ(رواه البزار([4])، وقال محمد بن عبد الوهاب:اسناده جيد([5]))

          وہ ہم میں سے نہیں ہے جس نے بد شگونی لی ، یا جس کے لئے فال بد نکالا گیا ، یا جس نے کہانت کی یا جس کے لئے کہانت کی گئی ، یا جس نے جادو کیا، یا جس کے لئے جادو کیا گیا ،اور جس نے گرہ لگایا، اورجس نے کسی کاہن  کےپاس جا کر اس کے قول کی تصدیق کی ، اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ چیزوں کا انکار کیا۔

          شیخ عبد الرحمن بن حسن  بن محمد بن عبد الوہاب فرماتے ہیں :

          فكل من تلقى هذه الأمور عمن تعاطاها فقد بريء منه رسول الله ﷺ لكونها إما شركا كالطيرة، أو كفرا كالكهانة والسحر، فمن رضي بذلك وتابع عليه فهو كالفاعل لقبوله الباطل واتباعه([6])

          ہر وہ شخص جس نے ان امور کو ان کے کرنے والے سے حاصل کیا تو رسول اللہ ﷺ اس سے بری ہیں یا توا ن کے شرک ہونے کی وجہ سے جیسے طیرہ ہے ، یا کفر ہونے کی وجہ سے جیسے کہانت اور جادو ہے ، کیونکہ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اس کی متابعت  کی تو باطل کے قبول  کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی وجہ سے وہ ان سب امور کے کرنے والے ہی کی طرح ہوا ۔

          ایک حدیث میں ہے :

           مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ سَاحِرًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أَنْزَلَ اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ (رواه البزار([7]))

           جس نے کسی کاہن یا ساحر (جادو گر) کے پاس جا کر اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ باتوں کا انکار کیا ۔

           اور عبد الرحمن بن حسن نے فرمایا:

          وَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلَىْ كُفْرِ الكَاْهِنِ وَالسَّاحِرِ؛ لأنَّهُمَا يَدَّعِيَانِ عِلْمَ الغَيْبِ، وَذَلِكَ كُفْرٌ، وَالمُصَدِّقُ لَهُمَا يَعْتَقِدُ ذَلِكَ وَيَرْضَى بِهِ، وَذَلِكَ كُفْرٌ أيضاً([8])

          اس میں کاہن اور ساحر کے کافر ہونے کی دلیل ہے ،کیونکہ یہ دونوں علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور علم غیب کا دعوی کرنا کفر ہے ، اور ان دونوں کی تصدیق کرنے والا اس کے عالم الغیب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اور اس سے خوش ہوتا ہے اور یہ بھی کفر ہے ۔

          اور یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص کسی جادو گر کے پاس جادو کا علاج کرانے کی غرض سے جاتا ہے تو وہ اس کے بارے میں ان سب باتوں کا اعتقاد رکھتا ہے ۔

          دوسری بات یہ بھی ہے کہ جادو ایک حرام چیز ہے اور حرام چیز سے علاج کرنا ممنوع ہے، کیونکہ کوئی بھی بیماری ایسی نہیں ہے جس کا جائز علاج اللہ رب العالمین نے نازل نہ فرمایا ہو ، مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷠ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :

           قَالَ رَسُولُ اللهِ @: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ دَاءً، إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ دَوَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ(رواه احمد([9])،  وصححه ابن حبان والحاکم([10]))

          رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ اللہ نے کوئی بیماری نازل نہیں کی ہے مگر اس کا علاج بھی نازل کیا ہے ، جس کو معلوم ہے وہ جانتا ہے اور جسے نہیں معلوم وہ نہیں جانتا ہے۔

          اور حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے :

          مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ([11])

           کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اللہ رب العالمین نے کوئی بیماری نہیں نازل کی ہے مگر اس کا علاج بھی نازل کیا ہے ۔

          معلوم ہوا کہ ہر بیماری کی دوا ضرور موجود ہے ،لہذا علاج کرتے وقت شریعت میں بتائے گئے علاج کے طریقوں ہی کا استعمال کرنا چاہئے ، اور ناجائز اور حرام طریقے سے علاج کرنے سے گریز کرنا چاہئے ، کیونکہ حرام چیزیں د رحقیقت دوا نہیں بلکہ بیماری ہیں۔

          حضرت وائل بن حجر ﷜ سے روایت ہے کہ :

          أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَيْدٍ الْجُعْفِىَّ سَأَلَ النَّبِىَّ ﷺ عَنِ الْخَمْرِ فَنَهَی أَوْ كَرِهَ أَنْ يَصْنَعَهَا، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ([12])

          طارق بن سوید الجعفی ﷜ نے رسول اللہ  ﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں  اس کے بنانے سے منع فرمایا: طار ق نے کہا: میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں ،تو آپ نے فرمایا: یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے۔

          حضرت ابو درداء ﷜سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

           إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً، فَتَدَاوَوْا وَلاَ تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ (رواه ابوداود([13]) وصححه العلامة محمد بن علي الشوکاني([14])) 

          اللہ نے بیماری اور دوا دونوں نازل فرمایا ہے اور ہر بیماری کی دوا بھی مقرر کیا ہے تو تم علاج کرو ، اور حرام چیزوں سے علاج مت کرو۔

          اور صحیح بخاری میں ہے :

         وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِي السَّكَرِ: إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُم([15])

          عبد اللہ بن مسعود ﷠ نے نشہ آور اشیاء کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے اُن چیزوں میں تمہاری شفا  نہیں رکھی ہے جن کو تمہارے لئے حرام قرار دیا ہے۔

           ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ بیماری کا علاج جائز شکل میں موجود ہے او رحرام چیزوں سے علاج کرانا اور کرنا ناجائز ہے ، لہذا جادو کا علاج جادو سے جائز نہیں ہے ، کیونکہ جادو حرام ہے ۔

          اور جو لوگ صحیح بخاری کے حوالہ سے جادو کا علاج جادو کے ذریعہ درست کہتے ہیں ان کی با ت صحیح نہیں ہے۔

          امام بخاری﷫ نے  باب هَلْ يُسْتَخْرَجُ السِّحْرُ قائم کرکے حضرت قتادہ ﷫سے ایک اثر نقل کی ہے ،وہ اس طرح ہے کہ حضرت قتادہ ﷫نے فرمایا:

          قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ: رَجُلٌ بِهِ طِبٌّ، أَوْ يُؤَخِّذُ عَنِ امْرَأَتِهِ أَيُحَلُّ عَنْهُ، أَوْ يُنَشَّرُ؟ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا يُرِيدُونَ بِهِ الإِصْلاَحَ، فَأَمَّا مَا يَنْفَعُ فَلَمْ يُنْهَ عَنْهُ([16])

          میں نے سعید بن مسیب ﷫سے کہا کہ ایک آدمی کو جادو کرادیا گیا ہے ( یا اسے اس کی بیوی سے جادو کے ذریعہ مجامعت کرنے سے روک دیا گیا ہے ) کیا جادو کو کُھولوایا اور اس کا علاج کیا جاسکتا ہے ؟ تو سعید بن مسیب﷫ نے فرمایا: کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بیشک ان کا ارادہ اصلاح کا ہوتا ہے اور جو چیز فائدہ مند ہوتی ہے تو اس سے نہیں روکا گیا ہے ۔

             اس سے معلوم ہوا کہ حضرت قتادہ، سعید بن المسیب سے صرف یہ پوچھ رہے تھے کہ کیا جادو کا علاج کیا جاسکتا ہے ؟تو اس پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ نفع بخش چیزوں میں سے ہے ۔

          امام بخاری ﷫ نے اس باب کے ذریعہ جادو کے علاج کے سلسلے میں اختلاف کی جانب اشارہ کیا ہے ، یعنی کہ بعض لوگ جادو کے علاج کے قائل ہیں ، اور بعض لوگ سرے سے علاج ہی کے قائل نہیں ہیں ، اور جو لوگ جادو کے علاج کے قائل ہیں حضرت قتادہ ﷜ نے اپنے قول کے ذریعہ ان کے قول کو ترجیح دی ہے ، اس سے امام بخاری ﷫ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جادو کا علاج جادو کے ذریعہ درست ہے ۔

          اور فتح الباری میں ہے :

          وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ عَمَّنْ يُطْلِقُ السِّحْرَ عَنِ الْمَسْحُورِ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَهَذَا هُوَ الْمُعْتَمَدُ، وَيُجَابُ عَنِ الْحَدِيثِ وَالْأَثَرِ بِأَنَّ قَوْلَهُ النُّشْرَةُ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِشَارَةٌ إِلَى أَصْلِهَا، وَيَخْتَلِفُ الْحُكْمُ بِالْقَصْدِ فَمَنْ قَصَدَ بِهَا خَيْرًا كَانَ خَيْرًا، وَإِلَّا فَهُوَ شَرٌّ، ثُمَّ الْحَصْرُ الْمَنْقُولُ عَنِ الْحَسَنِ لَيْسَ عَلَى ظَاهِرِهِ، لِأَنَّهُ قَدْ يَنْحَلُّ بِالرُّقَى وَالْأَدْعِيَةِ وَالتَّعْوِيذِ، وَلَكِنْ يُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ النُّشْرَةُ نَوْعَيْنِ ([17])

          امام احمد بن حنبل ﷫ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو جادو کئے گئے شخص سےجادو اتارتا ہے ، تو انہوں نے فرمایا : کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور یہی قابل اعتماد بھی ہے ، اور حدیث اور اثر کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول: النُّشْرَةُ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ([18]) سے اشارہ نشرہ کی اصل کی طرف ہے ، اور نشرہ کا حکم مقصد کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ، چنانچہ نشرہ سے جس نے خیر کا ارادہ کیا تو خیر ہوگا ورنہ شر ہے ۔

          پھر حسن بصری ﷫ کے قول کو اس کے ظاہر پر محمول نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ جادو کو رقیہ ، ادعیہ اور تعوذ ( اللہ کی پناہ طلب کرنا ) کے ذریعہ بھی کھولا جاتا ہے ، لیکن اس بات کا احتمال ہے کہ نشرہ کی دو قسمیں ہوں، یعنی حسن بصری ﷫ نشرہ کو اس وجہ سے ناجائز کہتے ہیں کہ ان کا یہ خیال ہے کہ  اسے  جادوگر کے علاوہ کوئی نہیں اتارسکتا ہے اور سعید بن المسیب﷫ وغیرہ نے جو جائز قرار دیا ہے وہ اس بنیاد پر کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جادو کو جادو کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی اتارا جاسکتا ہے ۔

          علامہ ابن القیم ﷫ فرماتے ہیں :

          النُّشْرَةُ حَلُّ السِّحْرِ عَنِ الْمَسْحُورِ، وَهِيَ نَوْعَانِ: حَلُّ سِحْرٍ بِسِحْرٍ مِثْلَهُ، وَهُوَ الَّذِي مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ؛ فَإِنَّ السِّحَرَ مِنْ عَمَلٍ فَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِ النَّاشِرُ وَالْمُنْتَشِرُ بِمَا يُحِبُّ، فَيُبْطِلُ عَمَلَهُ عَنْ الْمَسْحُورِ، وَالثَّانِي: النَّشْرَةُ بِالرُّقْيَةِ وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالدَّعْوَاتِ وَالْأَدْوِيَةِ الْمُبَاحَةِ، فَهَذَا جَائِزٌ ([19])

          نشرہ جادو کو جادو کئے گئے شخص سے ہٹانے کو کہتے ہیں، اور اس کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم یہ ہے کہ جادو کو جادو ہی کے ذریعہ دور کیا جائے  اور اسی کو شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے ، دوسری قسم یہ ہے کہ نشرہ رقیہ ، تعوذات ، دعوات اور ادویہ مباحہ کے ذریعہ ہو، تو یہ درست اور جائز  ہے ۔

          علامہ عبد الرحمن بن حسن بن محمد فرماتے ہیں :

          وعليه يحمل كلام من أجاز النشرة من العلماء، والحاصل: أن ما كان منه بالسحر فيحرم، وما كان بالقرآن والدعوات والأدوية المباحة فجائز.والله أعلم([20])

     علماء میں سے جنہوں نے نشرہ کی اجازت دی ہے ان کے قول کو اسی پر محمول کیا جائے گا ، اور حاصل کلام یہ ہے کہ جادو کا علاج اگر جادو سے ہو تو حرام ہے ،اور اگر قرآن ، دعوات اور ادویہ مباحہ کے ذریعہ ہو تو جائز ہے ۔ واللہ اعلم .

          اس واسطے جادو کا علاج شریعت میں بتائے گئے طریقوں کے ذریعہ سے ہی کرنا چاہئے، اور جادو کے ذریعہ علاج کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

کتاب العقیدہ

([1]) صحيح البخاري: 4/ 12[2766]کتاب الوصايا، باب قول الله تعالی: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾.

([2]) سنن النسائي:7/112[4079]كتاب تحريم الدم،باب الحكم في السحرة،وقال الألباني: ضعيف.

([3]) انظر: فتح المجيد شرح کتاب التوحيد:ص351.

([4]) مسند البزار:9/52[3578]، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغيروزيادته: 2/ 956 [5435].

([5]) انظر: کتاب التوحيد مع فتح المجيد: ص258.

([6]) فتح المجيد شرح کتاب التوحيد: ص 257، باب ما جاء في الکهانة ونحوهم.

([7]) مسند البزار:5/256[1873]،وقال الألباني: صحيح، انظر غاية المرام: ص 173[285].

([8]) فتح المجيد شرح کتاب التوحيد:ص351.

([9]) مسند أحمد:1/377[3922]، وقال الألباني: صحيح، انظر: صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/ 371 [1809].

([10]) انظر: نيل الاوطار: 8/ 201.

([11]) صحيح البخاري: 10/134[5678]کتاب الطب، باب ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء.

([12]) صحيح مسلم: 3/ 1573[1984] کتاب الأشربة، باب تحريم التداوی بالخمر .

([13]) سنن ابي داود:4/206 [3847]کتاب الطب،باب في الأدوية المکروهة،وقال الألباني: ضعيف.

([14]) انظر: نيل الأوطار: 4/204[3770]کتاب الطب، باب ما جاء في التداوي بالمحرمات.

([15]) صحيح البخاري: 10/78، کتاب الأشربة، باب شراب الحلواء والعسل.

([16]) صحيح البخاري: 10/ 232،كتاب الطب، باب هل يستخرج السحر.

([17]) فتح الباري: 10/233.

([18]) مسند أحمد:3/294[14167]،وقال الألباني:صحيح،انظر مشکاة المصابيح:2/ 1284[4553].

([19]) إعلام الموقعين: 4/396، فتح المجيد : ص263-264.

([20]) فتح المجيد: باب ما جاء في النشرة، ص289.

کتاب العقیدہ

 

 

 

 

 

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top