اسلام کسے کہتے ہیں
سوال(1- 1): اسلام کسے کہتے ہیں ؟
جواب : حضرت جبریل علیہ اسلام نے رسول اللہ ﷺ سے جب اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً (متفق عليه([1]))
اسلام یہ ہے کہ آپ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کریں ، اور زکاۃ دیں ، اور رمضان کے روزے رکھیں ، اور بیت اللہ کا حج کریں اگر وہاں تک پہونچنے کی استطاعت ہو۔
انہیں پانچوں چیزوں کو ارکان اسلام کہا جاتا ہے ، جیسا کہ حدیث :”بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ…الخ“([2]) سے معلوم ہوتا ہے ۔
اور کبھی کبھی اسلام کا اطلاق پوری شریعت اسلامیہ اور دین محمدی پر ہوتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ([3])
بیشک اللہ کے نزدیک مقبول و معتبر دین صرف اسلام ہے ۔
اور ﴿وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ﴾ ([4])
جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہو تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بَدَأَ الإِسْلاَمُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ ([5])
دین اسلام اجنبیت کے ساتھ شروع ہوا اور جس طرح اجنبیت سے شروع ہوا تھا عنقریب پھر اسی طرح اجنبی بن جائے گا۔
ان نصوص میں پورے دین کو اسلام کہا گیا ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ اسلام اورایمان کے معنی کے بارے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ جب اسلام اور ایمان کا ذکر یا استعمال یکجا ہو تو دونوں کے معنی میں فرق ہوتا ہے ، جیسا کہ حدیث جبرئیل میں ہے ، اسلام ظاہری اعمال اور ارکان کو اور ایمان باطنی اعتقاد کو کہا گیا ہے ، لیکن اگر وہ الگ الگ استعمال ہوں تو ایمان میں اسلام اور اسلام کے معنی میں ایمان داخل ہوتا ہے۔
([1]) صحيح البخاري: 1/20 ،50،كتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبي @ عن الإيمان والإسلام والإحسان وعلم الساعة، صحيح مسلم:1/28[102]کتاب الايمان،باب معرفة الإيمان والإسلام والقدر.
([2]) صحيح البخاري: 1/9[8]كتاب الإيمان، باب دعاؤكم إيمانكم.
([5]) صحيح مسلم: 1/50[390] کتاب الايمان، باب ان الاسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا، سنن ابن ماجه: 2/1319[3986] كتاب الفتن، باب بدأ الإسلام غريبا.
کیا آج نصرانیت و یہودیت پر عمل کرنے والے کی نجات ممکن ہے؟
سوال(2- 2): کیا آج نصرانیت و یہودیت پر عمل کرنے والے کی نجات ہوسکتی ہے؟
جواب: یہودیت و نصرانیت اور تمام ادیان سابقہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد منسوخ ہوچکے ہیں ، نیز ان میں تحریف و تغیر کی وجہ سے وہ اپنی اصل شکل میں باقی نہیں ہیں ، اس واسطے اب ان پر عمل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اور دین اسلام کو چھوڑ کر ان پر عمل کرنے والے کے لئے ہرگز نجات نہیں ہے ، ارشاد باری ہے
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ([1])
بیشک مقبول دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے ۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ([2])
جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو چاہے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا ، اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے
”وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لاَيَسْمَعُ بِى أَحَدٌمِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِىٌّ وَلاَنَصْرَانِىٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِى أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ“([3])
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے بارے میں جو بھی یہودی یا عیسائی سنے گا اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
([1]) آل عمران:19.
([3]) صحيح مسلم: 1/ 134[153] کتاب الايمان، باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد ﷺ الی جميع الناس ونسخ الملل بملته.
کیا لا الہ الا اللہ کے اقرار سے جنت کا دخول عام ہے؟
سوال(3-3):ہم نے صحیح مسلم میں پڑھا ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا وہ جنت میں داخل ہوگا ،تو کیا یہ امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہے یا تمام لوگوں کے لئے ہے ؟
جواب:یہ فضیلت یوں تو تمام لوگوں کے لئے ہے ، اور یہود و نصاری بھی اگر لا الہ الا اللہ کا خلوص قلب کے ساتھ اقرار کرتے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں تو ان کے لئے یہ خوش خبری ہے ، مگر بعثت محمدی کے بعد یہ شرط ہے کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ وہ محمد رسول اللہ کا بھی اقرار کریں، اور اس کے تقاضوں کو پورا کریں ، اور اس اعتبار سے یہ فضیلت ایک طرح سے اب امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہوجائے گی ، یعنی نبینا حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعدکوئی بھی شخص جب تک محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرے صرف لا الہ الا اللہ کہنا اس کے لئے کافی اور دخول جنت و نجات کا موجب نہیں ہوگا ، بلکہ اسے لازمی طور سے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کا اقرار بھی کرنا پڑے گا ، خواہ وہ پہلے یہودی رہا ہو یا نصرانی یا اور کسی دین دھرم کا ماننے والا، یعنی ابتداء میں اور دخول فی الاسلام سے قبل کسی خاص دین سے تعلق رکھنا ضروری نہیں، لیکن لا الہ الا اللہ کی مذکورہ فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کا اقرار کرنا اور اس طرح امت محمدیہ میں داخل ہونا ضروری ہے۔
اس کی بہت سے دلیلیں ہیں ، جن میں سے صحیحین میں واردحضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے یمن کی طرف بھیجے جانے کے سلسلہ کی حدیث بھی ہے، کیونکہ اس میں اہل کتاب کو سب سے پہلے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کی دعوت دینے کا حکم ہے۔([1])
([1]) انظر:صحيح البخاري: 3/ 263[1395] كتاب الزكاة،باب وجوب الزكاة، صحيح مسلم: 1/196[19] كتاب الإيمان، باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام.
توحید کی قسمیں اور ان کی تشریح
سوال(4-4): توحید کی کتنی قسمیں ہیں ؟اور ان کا کیا مطلب ہے؟
جواب: محققین علماء سلف کے بقول توحید کی تین قسمیں ہیں : توحید الوہیت ، توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات۔
توحید الوہیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی ظاہری و باطنی اور قولی و عملی عبادتوں کو صرف اللہ واحد کے لئے خاص مانا جائے ، اور ان میں کسی کو کچھ بھی شریک نہیں کیا جائے ، خواہ فرشتے ہوں ، یا انبیاء و رسل ،یا اولیاء اللہ ، جیسا کہ ارشاد باری ہے :
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ﴾([1])
تمہارے رب کا حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
نیز فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا﴾([2])
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ۔
ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ﴾([3])
میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ، اس لئے میری ہی عبادت کرو۔
اور توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس بات پر پختہ یقین اور عقیدہ رکھے اور زبان سے اقرار کرے اور اسی کے مطابق عمل کرے کہ ہر چیز کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر صرف اور صرف اللہ تعالی ہے ، ان امور میں کوئی اس کا شریک نہیں ، کوئی اس کا مد مقابل و ہم سر نہیں ، اس کی بھی کتاب و سنت سے بہت سی دلیلیں ہیں ، جیسے اللہ تعالی کا قول :
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْر﴾([4])
تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کی اور تاریکیوں اور نور کو پیدا کیا۔
اور اس کا قول :
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾([5])
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں ۔
کائنات کا خالق کسی کو نہ ماننا اور یہ کہنا کہ یہ سب خود سے پیدا ہوگئے ہیں اور ان کا نظام فطری طور سےخود بخود چل رہا ہے دہریت ہے، اس کو ماننے اوراور اس کا عقیدہ رکھنے والا اسلام سے خارج ہے، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ 35ۭاَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ﴾([6])
کیا یہ بغیر خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ، یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے ہیں ۔
اسی طرح اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی خالق اور مدبر ماننا شرک فی الربوبیت ہے ، اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ھٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾([7])
یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں ، تو تم مجھے دکھاؤ اللہ کے علاوہ ( جن کی تم عبادت کرتے اور مدد کے لئے پکارتے ہو ) انہوں نے کیا پیدا کیا ہے ؟
بہر حال توحید ربوبیت میں صرف اللہ کو اپنااور تمام جہانوں کا خالق ، مالک ، مدبر اور پالنہار ماننا ، اس کے سوا کسی کو اس کا ان میں شریک نہ ماننا اور ان کی ربوبیت کا انکار کرنا ساری چیزیں داخل ہیں۔
اور توحید ربوبیت ، توحید الوہیت کے لئے دلیل ہے ،کیونکہ جب اللہ ہی ہم سب کا خالق ، رازق اور پالنہار ہے اور وہی ساری کائنات کا مدبر ہے ، تو پھر وہی ہماری تمام عبادتوں اور اطاعتوں کا بھی مستحق ہے ، اس کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یا اس میں کسی اور کو شریک ٹھہرانا بڑا ظلم اور ناشکری اور موجب عذاب ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰنےفرمایا:
﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾([8])
بیشک شرک ظلم عظیم ہے ۔
اور فرمایا :
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ﴾([9])
بیشک اللہ اپنے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانے والے کو معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ گناہوں میں سے جس کوچاہے وہ معاف کر سکتا ہے ۔
اور توحید الاسماء و الصفات کا مطلب ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے اللہ تعالی کے جتنے بھی اچھے اچھے نام اور اعلی صفات ثابت ہیں سب پر ایمان رکھا جائے ، اور اس کے ساتھ یہ عقیدہ ہو کہ ان اسماء و صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اور جہاں بعض صفات وغیرہ میں اشتراک ہے وہ صرف لفظی اشتراک ہے ، معنی اور حقیقت کے اعتبار سے کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے ، جیسے اس کی ذات بے مثل ہے، ایسے ہی اس کے اسماء حسنی اور صفات علیاء بھی بے مثل ہیں :
﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾([10])
اس کے مثل کوئی چیز نہیں ، اور و ہ سمیع بصیر ہے۔
اس آیت میں اللہ کےلئے سمع (سننے ) اور بصر (دیکھنے ) کی صفات کو ثابت کیا گیا ہے ، اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایاگیا ہے کہ: اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے ، چنانچہ اللہ سنتا ہے مگر اس کا سننا ہمارے اورآپ کے سننے کی طرح نہیں ہے ، وہ دیکھتا ہے مگر اس کا دیکھنا مخلوق کے دیکھنے کی طرح نہیں ہے ، اسی طرح اللہ کےلئے ”ید“ ہاتھ اور ”عین“ آنکھ ثابت ہیں ،مگر اس کے ہاتھ اور اس کی آنکھیں مخلوق کے ہاتھ اور آنکھوں کی طرح نہیں،اس واسطے ان اسماء و صفات کا یہ کہہ کر انکار کرنا درست نہیں کہ ان کے اثبات سے تشبہ بالمخلوق لازم آتا ہے ، اور ان کو مخلوق کی طرح ثابت کرنا بھی غلط ہے ، آیت کریمہ:
﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ میں دونوں کی دلیل ہے ۔
اسی طرح سورۃالاخلاص:
﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۚ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۚ لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ ﴾
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے،اللہ تعالی بے نیاز ہے،نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ،اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔
بھی اس کی واضح دلیل ہے ، کیونکہ اس میں اللہ کے لئے احد اور صمد کی صفات کا اثبات ہے ، اور اخیر میں صراحت کر دی﴿ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ اس کا کوئی ہمسر نہیں ، یعنی کوئی بھی نہ اس کا ہم شکل ہے ، اور نہ ہی کوئی چیز اس کے مثل ہے ۔
ارکان ایمان کیا ہیں؟
سوال(5- 5): ارکان ایمان کیا ہیں ؟
جواب:ایمان کے چھ ارکان ہیں ، جن کا بیان حدیث جبریل میں ہے، حضرت جبریل علیہ اسلام نے جب رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے تو آپ نے فرمایا:
”أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ“(متفق عليه([1]))
ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور بھلی و بری تقدیر پر ایمان لائیں۔
اور قرآن کریم میں بھی اس کے ارکان کا بیان ہے ، مثلا ارشاد باری ہے :
﴿ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ﴾([2])
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا رخ پھیر لو ، بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ، یوم آخرت پر ، ملائکہ پر ، کتاب اور نبیوں پر ایمان لے آؤ۔
اس میں ایمان کے پانچ ارکان کا تذکرہ ہے ۔
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿ اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ﴾([3])
ہم نے ہر چیز ایک اندازے ( تقدیر ) کے ساتھ پیدا کیا ہے ، اس میں تقدیر کا تذکرہ ہے ۔
([1]) صحيح البخاري: 1/19[50]کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبي ﷺ عن الإيمان، صحيح مسلم :1/28 ]102[ کتاب الإيمان، باب معرفة الإيمان.
اللہ پر ایمان لانے کا مطلب
سوال(6-6): اللہ پر ایمان لانے کا کیامطلب ہے؟
جواب: اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات ، اسماء حسنی ، اور صفات علیا پر اس طرح ایمان اور پختہ یقین رکھا جائے کہ وہ ہر چیز میں بے مثال ہے ، اس کے مد مقابل کوئی نہیں۔
﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْر﴾([1])
اس کے مثل کوئی چیز نہیں ، اور وہ سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔
اور اس پر بھی پختہ یقین ہو کہ وہی اول ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا، وہی آخر ہے اس کے بعد کچھ بھی نہیں، وہی ظاہر ہے اس سے اوپر کچھ بھی نہیں ، وہی باطن ہے اسکے ماوراء کچھ بھی نہیں، وہ احد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے کوئی اولاد ہے ،اور نہ وہ کسی کا باپ ہے ،وہ الحی القیوم ہے، جیسا کہ سورۃ الاخلاص اور آیت الکرسی وغیرہ میں ان سب کا بیان ہے ، وہی عبادت کے لائق ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہی ساری کائنات کا رب ، خالق و مالک اور پالنہار ہے ، شریعت سازی ، تحلیل و تحریم اسی کا حق ہے ، کتاب اللہ و سنت صحیحہ سے ثابت اس کے تمام اچھے نام و صفات برحق ہیں ، اللہ پر ایمان رکھنے میں یہ بھی داخل ہے کہ بندگی اور عبودیت کے سارے معاملات اسی کے لئے خاص رکھے جائیں ، محبت ، خوف ، رجاء ، توکل ، انابت ، خشوع ، تذلل اور اطاعت صرف اسی کے لئے ہوں ۔
ایمان مرکب ہے یا مفرد؟
سوال(7-7): ایمان مفرد ہے یا مرکب ؟ یعنی ایمان ، تصدیق بالقلب ، اقرار باللسان اور عمل بالأرکان کے مجموعہ کا نا م ہے، یا صرف تصدیق بالجنان کا نام ایمان ہے ؟
جواب: ایمان تصدیق بالجنان ، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا مجموعہ ہے ، اور ایمان میں اعمال بھی داخل ہیں ، جیسا کہ حدیث عبدالقیس میں ہے :
”أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ،وَقَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ! قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ“(متفق عليه([1]))
انہیں اللہ وحدہ پر ایمان لانے کا حکم دیا اورفرمایا: کیا تم جانتے ہو اللہ وحدہ پر ایمان کیا ہے ؟ وفد کے لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا: لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دینا، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ دیناایمان ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اعمال بھی ایمان میں داخل ہیں ، کیونکہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی زبان و قلب سے شہادت کے ساتھ اس میں نماز ، زکاۃ ، صوم رمضان اور ادائے خمس کو بھی ایمان بتایا گیا ہے، اس کے علاوہ ا س کے اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔
([1]) صحيح البخاري:1/191[53]کتاب الإيمان،باب أداء الخمس من الإيمان، صحيح مسلم:1/35 [125] کتاب الإيمان، باب الأمربالإيمان بالله ورسوله ﷺ.
ایمان میں کمی و زیادتی اور اس کے دلائل
سوال(8-8):کیا ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے ، اور اس کی دلیل کیا ہے ؟
جواب: جی ہاں ، ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے ، نیک اعمال سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہوں سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ﴾([1])
تاکہ وہ اپنےایمان میں مزید اضافہ کریں ۔
ایک جگہ فرمایا: ﴿وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا﴾([2])
اور ایمان والوں کا ایمان زیادہ ہو ۔
ایک جگہ فرمایا: ﴿فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا﴾([3])
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے تو اس سے ان کے ایمان میں زیادتی ہوئی۔
ایک جگہ فرمایا: ﴿اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا﴾([4])
جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔
ان آیات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے ، اور ہر وقت مسلمان کا ایمان برابر نہیں رہتا، اسی واسطے شفاعت والی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی جہنم سے اس شخص کو نکالے گا جس کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہوگا ، پھر اس شخص کو بھی نکالے گا جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہوگا ،ایک حدیث میں ہے:
”يُخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَكَانَ فِى قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يُخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَكَانَ فِى قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يُخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَكَانَ فِى قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً“(متفق عليه([5]))
جہنم سے اس شخص کو نکالا جائے گا جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا ہو اور اس کے دل میں ایک جَو کے برابر خیر رہی ہو ، پھر اسے نکالا جائے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا اور اس کے دل میں گیہوں کے برابر خیر رہی ہو ، پھر اسے نکالا جائے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور اس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر خیر ہوگی۔
([5]) صحيح البخاري:8/172-173[7410]کتاب التوحيد، باب قول الله تعالیٰ:﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾،صحيح مسلم : 1/125[499] کتاب الإيمان، باب أدنى أهل الجنة منـزلة فيها.
لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے کا مطلب
سوال(9-9): لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے کا کیا مطلب ہے؟
جواب : لا الہ الا اللہ کی شہادت دینےکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اس میں ایک تو اس بات کا اقرارویقین اور شہادت ہے کہ اللہ تعالی ہی معبود برحق اورصرف وہی قابل عبادت ہے، دوسرے اس میں اس کی بھی گواہی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا معبود برحق نہیں ، اس واسطے جو لوگ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ، اس کو اپنا معبود نہیں مانتے ہیں وہ مسلمان نہیں، بلکہ وہ کافر ہیں ، اسی طرح جو لوگ اللہ کو اپنا معبود تو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، اور ان کو بھی معبود مانتے ہیں وہ بھی موحد مسلمان نہیں ، بلکہ یہ مشرک ہیں ، کیونکہ انہوں نے الوہیت میں اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہرایا ہے ، اور جو لوگ کسی کی عبادت نہیں کرتے اور کسی کو اپنا معبود نہیں مانتے جیسے زنادقہ اور دہریہ و بے دین لوگ، وہ بھی مسلمان نہیں ہیں ۔
بہر حال اس میں دل و زبان سے اس بات کی شہادت و اقرارداخل ہے کہ صرف اللہ ہی عبادت کے لائق اور معبود برحق ہے،اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی مستحق عبادت نہیں، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں اور ان کی عبادت باطل اور موجب ضلالت ہے ، ارشاد باری ہے :
﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ﴾([1])
اس وجہ سے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہیں، اور بیشک اللہ بلند اور کبریائی والا ہے ۔
اسلام میں شہادتین کا مقام
سوال(10-10): اسلام میں شہادتین کا کیا مقام ہے؟
جواب : شہادتین یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت اسلام کا پہلا اور بنیادی رکن ہے ، اسی سے انسان دین اسلام میں داخل ہوتا ہے ، ارشاد باری ہے :
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ﴾([1])
مؤمن وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اس کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، اور اسی کی خاطر قتال کیا جاتاہے ، حدیث ہے :
”أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُواأَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ“([2])
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت دیں ۔
([2]) صحيح البخاري: 1/13[25]كتاب الإيمان، باب: ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾.
عبادت کا مطلب ؟
سوال(11-11):آیت کریمہ :﴿ اِيَّاكَ نَعْبُدُ﴾ میں عبادت کا کیا مطلب ہے؟
جواب: عبادت ایک جامع لفظ ہے جو ان تمام ظاہری و باطنی اقوال و اعمال کو شامل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ، جن کااس نے حکم دیا ہے اور جن سےوہ خوش ہوتا ہے ، نیز اس میں ان تمام امور سے برأت اور اجتناب بھی داخل ہے جو اللہ کو ناپسند اور اس کی ناراضگی و عذاب کا باعث ہیں ۔
عبادت کی قبولیت کی شرطیں
سوال(12- 12): عبادت کی قبولیت کے لئے کیا کیا شرطیں ہیں ؟
جواب:عبادت کی قبولیت کی لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ خالصۃ ًلوجہ اللہ ہو، کیونکہ خلوص و للہیت کے بغیر کوئی عمل عند اللہ مقبول نہیں، ارشاد باری ہے :
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ ﴾([1])
انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ یکسو ہو کر اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں ۔
او ر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“([2])
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو ، جیسا کہ حدیث :
”مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ“([3])
جس نے کوئی ایسا عمل کیاجس پر ہمارا حکم نہیں وہ نامقبول ہے۔
اور حدیث :”صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي“([4])
جیسے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے، اسی طرح نماز پڑھو۔
اور حدیث :”خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ“([5])
مجھ سے حج کے اعمال سیکھ لو۔
وغیرہ سے سمجھا جاتا ہے۔
([2]) صحيح البخاري:1/6[1]كتاب بدء الوحي،باب كيف كان بدء الوحي إلىٰ رسول الله@.
([3]) صحيح البخاري: 13/317،کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة،باب اذا اجتهد العامل او الحاکم فأخطأ خلاف الرسول من غير علم فحکمه مردود، صحيح مسلم: 3/1343[18]کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة ورد محدثات الامور.
([4]) صحيح البخاري: 8/9[6008] كتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم.
([5]) السنن الكبرى: 5/204،کتاب دخول مكة، باب الإيضاع في وادی محسر، وقال الألباني: صحيح، انظر ارواء الغليل: 4/ 271 [1074].
نیت کی اصلاح کیسےکریں؟
سوال(13-13): دین کے کام میں دکھاوا ہو تو اسے کیسے صحیح کریں؟
جواب: اپنی نیت کی اصلاح کریں اور دین کا کام جو عبادت ہے اسے خالصۃً لوجہ اللہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ کے علام الغیوب ومایخفی الصدور ہونے پر اپنے ایمان ویقین کو اور مضبوط کریں اور یہ سوچیں کہ دکھاوےکے لئے دین کا کام کرنے کی وجہ سے کتنا بڑا خسارہ ہوتا ہے ،اللہ کے ثواب و عذاب یعنی جنت و جہنم کے عقیدے کو یاد اور تازہ کریں تاکہ دل میں اللہ سے حصول ثواب اور عذاب سے بچانے کا جذبہ مضبوط ہو،ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دکھاوے اور ریا سے محفوظ رکھنے اور اخلاص اور جذبۂ صادق کی نوازش و توفیق کے لئے دعا کرتے رہیں، اس طرح ان شاء اللہ آہستہ آہستہ یہ بیماری ختم ہوجائے گی۔
اللہ کا محبوب بندہ کیسے بنیں؟
سوال(14-14):ہمیں اللہ کی محبت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے ؟
جواب: اللہ کی محبت کے حصول کے لئے ایمان کے بعد اتباع کتاب و سنت ضروری ہے ، اسی سے اللہ کی محبت کا حصول ممکن ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾([1])
اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
نیز اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ وہی چیز پسند کرے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے، اور ان تمام چیزوں سے نفرت کرے اور عداوت رکھے جنہیں اللہ ناپسند فرماتا ہے ، یعنی اس کےاوامر و احکام کی اتباع کرے ، اور نواہی و منکرات سے اجتناب کرے ۔
نیز اللہ تعالی کے نیک بندوں سے دوستی و محبت کرے اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کرے ، حدیث نبوی ہے :
”أوْثَقُ عُرَى الإِيمانِ الْمُوَالاةُفِي اللَّهِ،وَالْمُعَادَاةُ فِي اللَّهِ،وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ،وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ“(رواه الطبراني([2])،وصححه الألباني في الصحيحة:2/698[ 998])
ایمان کا سب سے مضبوط گِرہ یہ ہے کہ اللہ کے لئے ہی دوستی ، اسی کے لئے دشمنی ، اسی کے لئے محبت ، اور اسی کے لئے نفرت کی جائے ۔
([2]) المعجم الکبير للطبراني:11/215[11537].
اللہ کے اسماء حسنی اور ان کے واسطے سے دعا کے دلائل
سوال(15-15):علماء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں ، جنہیں اللہ تعالی کے لئے ثابت کرنا چاہئے اور ان کے ذریعہ اللہ سے دعا کرنی چاہئے ، اس کی دلیلیں آپ ذکر فرمائیں۔
جواب : اس کی دلیلوں میں سے ایک دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:
﴿ وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ﴾([1])
اور اللہ کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں تو تم اس کو انہیں ناموں سے پکارو ( دعائیں کرو) اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد اور کج روی اختیار کرتے ہیں ۔
اسی طرح ارشاد باری ہے:
﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى﴾([2])
کہہ دیجئے کہ اللہ کہہ کہ پکارو یا رحمن کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں ۔
اسی طرح یہ آیت کریمہ ہے :
﴿ اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى﴾([3])
اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں، اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں ۔
اور رسول اللہ ﷺ کی ایک ثابت دعا ہے :
”اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ،أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي،وَنُورَ صَدْرِي،وَجِلاَءَ حُزْنِي،وَذَهَابَ هَمِّي“(رواه احمد([4])والحاکم([5])وصححه الألباني([6]))
الہی میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا لڑکا ہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، میرے سلسلے میں تیرا حکم جاری ہے ،میرے بارے میں تیرا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہر اس نام کے ساتھ جو تیرے لئے ہے ، خواہ تم نے خود اپنے لئے یہ نام رکھا ہے ، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے ، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے ، یا اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے کہ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور اور میرے رنج و غم کو دور ہونے کا ذریعہ بنادے۔
اس میں دیکھئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے اسماء حسنی کے واسطے سے دعا کی ہے، اور قرآن کی دعاؤں اور رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں آپ جا بجا اسماء حسنی کا واسطہ پائیں گے۔
([5]) المستدرك للحاکم: 1/690[1877]كتاب الدعاء والتكبير والتهليل والتسبيح والذكر.
([6]) سلسلة الاحاديث الصحيحة: 1 /198[199].
کیا اللہ کےکل ننانوے نام ہی ہیں؟
سوال(16-16): عموما قرآن مجید کے نسخوں میں شروع میں اللہ تعالی کے ننانوے نام لکھے رہتے ہیں ، تو کیا اللہ تعالی کے کل ننانوے ہی نام ہیں ؟
جواب : اللہ تعالی کے بے شمار نام ہیں ،جن میں بہت سے ناموں کا بیان قرآن کریم میں ہے ، اور کچھ کا تذکرہ احادیث نبویہ میں ہے ، اور کچھ کو اللہ نے اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے ، رسول اللہ ﷺ کی ایک مشہور دعا ہے :
”اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ،سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ،أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلاَءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي“(رواه احمد([1])والحاکم([2])وصححه الألباني([3]))
الہی میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا لڑکا ہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، میرے سلسلے میں تیرا حکم جاری ہے ،میرے بارے میں تیرا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہر اس نام کے ساتھ جو تیرے لئے ہے ، خواہ تو نے خود اپنے لئے یہ نام رکھا ہے ، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے ، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے ، یا اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے کہ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور اور میرے رنج و غم کو دور ہونے کا ذریعہ بنادے۔
اس میں صراحت ہے کہ اللہ نے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے کچھ کو قرآن میں نازل فرمایا ہے ، کچھ کو اپنی مخلوق میں سے بعض کو سکھایا ہے ، اور کچھ کو اپنے پاس علم غیب میں محفوظ رکھا ہے ۔
جہاں تک حدیث نبوی :
”إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمَا،مِئَةً إِلاَّ وَاحِدًا،مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ“(متفق عليه([4]))
میں اللہ تعالی کے ننانوے نام ہونے کا تذکرہ ہے تو در اصل اس میں ننانوے ناموں کے گننے اور یاد کرنے کی فضیلت کا بیان ہے ، اس میں یہ صراحت نہیں ہے کہ اللہ کے کل ننانوے نام ہی ہیں ، اسی واسطے آپ نے یہ فرمایا کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جو ان ناموں کو گنے گا جنت میں داخل ہوگا ، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے کل ننانوے نام ہیں ، اور مذکورہ بالا دعا میں صراحت کر دی ہے کہ اللہ کے بہت سے نام ایسے ہیں جو اس کے پاس علم غیب میں محفوظ ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ناموں کے گننے کا مطلب صرف زبان سے دہرانا یا پڑھ لینا نہیں ہے، بلکہ اکثر علماء محققین کے مطابق ان ناموں کے مطالب کو سمجھ کر ان پر ایمان لانا اور ان کےتقاضوں پر عمل کرنا ہے، جیسے اگر آپ یہ نام یاد رکھیں کہ اللہ رازق ہے تو روزی صرف اسی سے طلب کریں ، وہ نافع و ضار ہے تو نفع کے حصول اور نقصان سے بچاؤ کا سوال صرف اسی سے کریں ، اور اسی سے امید باندھیں۔
([2]) المستدرك للحاکم: 1/690[1877]كتاب الدعاء والتكبير والتهليل والتسبيح والذكر.
([3]) سلسلة الاحاديث الصحيحة: 1 /198[199].
([4]) صحيح البخاري:9/145[7392]كتاب التوحيد،باب إن لله مئة اسم إلا واحدا، صحيح مسلم: 8/63[6986]کتاب الذكر والدعاء والتوبة، باب في أسماء الله تعالى وفضل من أحصاها.
اللہ تعالی کے ننانوے اسماء حسنی
سوال(17-17): اللہ تعالی کے ننانوے اسماء حسنی کو بیان فرمائیں ، تاکہ جاننے کے بعد ان کو گننے کا ثواب ہم لوگ بھی حاصل کر سکیں ۔
جواب: اللہ تعالی کے ننانوے اسماء حسنی یہ ہیں :هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ، الرَّحِيمُ، الْمَلِكُ، الْقُدُّوسُ، السَّلاَمُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْعَزِيزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، الْوَهَّابُ، الرَّزَّاقُ، الْفَتَّاحُ، الْعَلِيمُ، الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الْخَافِضُ، الرَّافِعُ، الْمُعِزُّ، الْمُذِلُّ، السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ، الْحَكَمُ، الْعَدْلُ، اللَّطِيفُ، الْخَبِيرُ، الْحَلِيمُ، الْعَظِيمُ، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْعَلِيُّ، الْكَبِيرُ، الْحَفِيظُ، الْمُقِيتُ، الْحَسِيبُ، الْجَلِيلُ، الْكَرِيمُ، الرَّقِيبُ، الْمُجِيبُ، الْوَاسِعُ، الْحَكِيمُ،الْوَدُودُ، الْمَجِيدُ، الْبَاعِثُ، الشَّهِيدُ، الْحَقُّ، الْوَكِيلُ، الْقَوِيُّ، الْمَتِينُ، الْوَلِيُّ، الْحَمِيدُ، الْمُحْصِي، الْمُبْدِي، الْمُعِيدُ، الْمُحْيِي، الْمُمِيتُ، الْحَيُّ، الْقَيُّومُ، الْوَاجِدُ، الْمَاجِدُ، الْوَاحِدُ، الصَّمَدُ، الْقَادِرُ، الْمُقْتَدِرُ، الْمُقَدِّمُ، الْمُؤَخِّرُ، الأَوَّلُ، الْآخَرُ، الظَّاهِرُ، الْبَاطِنُ، الْوَالِي، الْمُتَعَالِي، الْبَرُّ، التَّوَّابُ، الْمُنْتَقِمُ، الْعَفُوُّ، الرَّؤُوفُ، مَالِكُ الْمُلْكِ، ذُو الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ، الْمُقْسِطُ، الْجَامِعُ، الْغَنِيُّ ، الْمُغْنِي، الْمَانِعُ، الضَّارُّ، النَّافِعُ، النُّورُ، الْهَادِي، الْبَدِيعُ، الْبَاقِي، الْوَارِثُ، الرَّشِيدُ، الصَّبُورُ۔([1])
اللہ کے یہ ننانوے نام بعض سلف نے قرآن و حدیث سے مستنبط کئے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ سے ان ناموں کی تعیین منقول نہیں ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ آپ بعض ناموں کے سلسلے میں اختلاف پائیں گے ، جو مستنبط کرنے والوں کا فرق ہے ، محدثین نے صراحت کی ہے کہ ترمذی کی روایت میں جو ننانوے نام مذکور ہیں وہ راوی حدیث سفیان کا استنباط ہے۔
([1]) سنن الترمذي: 5/ 530[3507] کتاب الدعوات، باب رقم83 ، وقال الألباني: ضعيف.
اللہ کی کچھ صفات علیا
سوال(18-18): اللہ کے ننانوے اسماء حسنی کا آپ نے تذکرہ کیا ، اس کی صفات علیا میں سے بھی کچھ کا ذکر کریں تاکہ ہم اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ سکیں ۔
جواب:اللہ تعالی کی صفات کی دو قسمیں ہیں :
ایک صفات ذاتیہ جیسے : ید ، (ہاتھ ) وجہ ( چہرہ ) عین ( آنکھ ) وغیرہ ، ان کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے ، مثلا :
﴿بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾([1])
بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔
﴿ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ﴾([2])
ہر چیز فنا ہونے والی ہے ، سوائے اس کے چہرے( یعنی ذات) کے ۔
یہاں جزء بول کر کل مراد لیا ہے ۔
﴿وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾([3])
آپ کے رب کا جلا ل و اکرام والا چہرہ باقی رہے گا ۔
﴿وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ﴾([4])
اورتاکہ میری آنکھوں کے سامنے تیار کی جائے ۔
ان آیات میں اللہ کے ہاتھ ، چہرہ اور آنکھ کا بیان ہے۔
دوسری صفات فعلیہ :جیسے سننا ، دیکھنا ، جاننا ، کلام کرنا ، پکارنا وغیرہ ،ان کا بھی قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر ہے ، جیسے آیت کریمہ :
﴿ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى﴾([5])
میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ، دیکھ اور سن رہا ہوں ۔
﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُم﴾([6])
وہ ان کے اگلے و پچھلے احوال کو جانتاہے۔
﴿وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا﴾([7])
اللہ نے موسی علیہ اسلام سے کلام فرمایا۔
﴿وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ﴾([8])
جب تمہارے رب نے موسی ( علیہ اسلام) کو پکار کر کہا تم ظالم قوم کے پاس جاؤ۔
ان میں اللہ تعالی کے سننے ، دیکھنے، کلام کرنے ، جاننے و پکارنے جیسی صفات فعلیہ کا تذکرہ ہے۔
کیا اللہ کی تمام صفات فعلیہ سے اس کے لئے نام اخذکرنا جائز ہے
سوال(19-19): کیا اللہ تعالی کی تمام صفات فعلیہ سے اس کے لئے اسم اخذ کرنا اور بنانا درست ہے ؟
جواب : اللہ تعالی کے تمام اسماء حسنی توقیفی ہیں ، اس واسطےجن صفات فعلیہ سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے اور ان سے اسماء بھی مشتق کیا ہے تو اس کے لئے ان اسماء کو ثابت کیا جائے گا، مگر ان سے نئے نام اخذ کرنا ، اسی طرح جن صفات سے اللہ نے اپنے لئے اسماء مشتق نہیں کئے ہیں ان سے اس کےلئے اسماء مشتق کرنا درست نہیں ہے ، چنانچہ آیت کریمہ :
﴿ اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ﴾([1])
میں مذکورہ صفت خلق اور رزق سے مشتق اللہ نے اپنا نام خالق اور رازق ذکر کیاہے تو یہ نام رکھنا جائز ہے ،اور آیت کریمہ :
﴿ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ﴾([2])
میں خداع سے مشتق نام مخادع اس نے نہیں رکھا ہے ،اس واسطے اللہ کے لئے یہ نام رکھنا جائز نہیں ہے ۔
بہر حال اللہ کے نام توقیفی ہیں،لہذاجو نام کتاب وسنت سے ثابت ہیں ان کا اثبات اللہ کے لئے جائز ہے ، اور جو اسماء اس کے لئے کتاب وسنت سے ثابت نہیں ان کا اللہ کی صفات فعلیہ سے اخذ کرنا اور اللہ کےلئے ان ناموں کوثابت کرنا درست نہیں ہے۔
([2]) النساء:142.
اللہ کے لئے لفظ ”خدا“ کے استعمال کا حکم
سوال(20-20):کیا اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ”خدا“کہنا اور لکھنا مناسب ہے ،جب کہ یہ لفظ غیر قرآنی ہے؟
جواب:ارشاد باری ہے :
﴿ وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾([1])
اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ،اس کو انھیں ناموں سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں، عنقریب جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں وہ اس کا بدلہ دئے جائیں گے۔
اور فتح الباری (11/221) میں ہے :
”وَقَدْ قَالَ أَهْلُ التَّفْسِيرِ: مِنَ الْإِلْحَادِ فِي أَسْمَائِهِ تَسْمِيَتُهُ بِمَا لَمْ يَرِدْ فِي الْكِتَابِ أَوِ السُّنَّةِ الصَّحِيحَةِ“
کتاب اللہ اور سنت صحیحہ میں جو نام نہ وارد ہو اس کا وہ نام رکھنا اللہ کے اسماء میں الحاد اور کج روی میں سے ہے ۔
اور ترجمان القرآن بلطائف البیان للنواب صدیق حسن خان میں ہے :
”آیت ( یعنی مذکورہ بالا) دلیل ہے اس بات پر کہ اللہ پاک کے نام توقیفی ہیں، نہ اصطلاحی، مطلب یہ ہوا کہ جو نام اللہ نے خود بتائے ہیں اس کو انہیں ناموں سے پکارنا چاہئے ، وقت دعا کے ، ندا کے ، انہیں اسماء کو استعمال میں لانا مناسب ہے ، اورجو نام اپنے لئے اس نے نہیں بتائے ہیں وہ اس کا نام نہیں رکھنا چاہئے کہ یہ بھی ایک طرح کا الحاد اورشرک ہے، اسی لئے فرمایا کہ تم ان لوگوں کو چھوڑ دو جو ہمارے نام میں الحاد کرتے ہیں “۔
اور ”خدا“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے نہیں ہے ،اس واسطے ” خدا “ کے بجائے ” اللہ “ کہنا اورلکھنا مناسب ہے ۔
نیز ”خدا “کے معنی ہوتے ہیں ” خود آنے والا“اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اللہ پہلے نہیں تھا بعد میں آیا ہے جب کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا﴿ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ﴾ وہی اول ہے وہی آخر ہے نہ اس سے قبل کوئی چیز تھی نہ اس کے بعد کوئی کوئی چیز ہوگی۔
اس لئے بھی اس لفظ کو اللہ کے لئے استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہئے ۔
اللہ کے لئے ایشور، بھگوان اور رام وغیرہ الفاظ کا استعمال ناجائز
سوال(21-21): کیا اللہ کو ایشور ، بھگوان ، اوم ، رام، داتا ،گاڈ وغیرہ کہنا مناسب ہے ؟
جواب:ان میں سے کوئی نام بھی اللہ کے اسمائے حسنی میں سے نہیں ہے ، اور بعض ناموں کی حیثیت تو ود ، سواع ، یغوث ،یعوق اور نسر جیسی ہے، ود، سواع وغیرہ انسان تھے، ان کے بعد لوگوں نے انھیں معبود بنا کر پوجنا شروع کردیا، اسی طرح ”رام“،” سیتا“ وغیرہ انسان تھے جن کو بعد میں لوگوں نے معبود بنالیا اور پوجنے لگے۔
اس واسطے اللہ کو رام وغیرہ ناموں سے پکارنا ہرگز مناسب نہیں ،البتہ جو نام اللہ کے اسماء حسنی میں سے کسی نام کے ہم معنی ہو، اس کو غیر مسلموں کے سامنے افہام و تفہیم کے لئے استعمال کرنے کی گنجائش ہے،لیکن جو ا ن کے معبودوں میں سے کسی معبود کا نام ہو اور جن کے معانی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے کسی کے ہم معنی نہیں ،ان کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
رسالت محمدی کے دلائل
سوال(22-22): محمد ﷺ کے رسول اللہ ہونے کے کیا دلائل ہیں ؟
جواب: محمد ﷺکی رسالت کی بہت ساری دلیلیں ہیں ، جیسے:
1- ارشاد باری تعالی :﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ﴾([1])
محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور آپ کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں رحم دل ہیں ۔
2- اللہ تعالی کا آپ کو خطاب کر کے فرمانا : ﴿ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ﴾([2])
اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک آپ اس کے رسول ہیں۔
3- ارشاد الہی : ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾([3])
اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں انہیں کی جنس سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
4- اسی طرح لوگوں سے خطاب کر کے یہ فرمانا :
﴿لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾([4])
البتہ تحقیق کہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ، جس پر تمہاری تکلیف شاق گذرتی ہے، جو تمہارے ایمان کے لئے حریص ہے اور مومنوں کے لئے نرم دل اور مہربان ہے ۔
5- اور آپ سے خطاب کر کے یہ فرمانا:
﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا ﴾([5])
اے نبی! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، خوش خبری سنانے والا ، ڈرانے والا، اللہ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجاہے۔
رسول اکرم ﷺ کی نبوت کے عقلی و نقلی دلائل پر مشتمل سلف و خلف علماء کرام کی مستقل کتابیں ہیں ، جن میں سے بعض کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں ، جیسے دلائل النبوۃ للبیہقی وغیرہ ۔
کیاجنوں میں سےبھی نبی مبعوث ہوئےہیں؟
سوال(23-23): کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ :
سورہ انعام آیت نمبر( ١٣٠ )میں ہے کہ اے جن و انس کی جماعت !کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں ہماری آیتیں سناتے تھے؟
اس آیت کی وجہ سے میرا یہ عقیدہ ہے کہ انسانوں کے پاس انسانوں ہی میں سے رسول آئے اور جنوں کے پاس جنوں میں سے رسول آئے ہیں ، تو کیا میں اس عقیدے کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوگیا؟
جواب: آیت کریمہ:
﴿ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ﴾([1])
سے یہ بات قطعی طور سے معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی جانب رسولوں کو مبعوث کیا، لیکن اس کی قطعیت کے ساتھ صراحت نہیں ہے کہ رسل صرف انسانوں میں سے تھے ، یا انسانوں اور جنوں دونوں میں سے تھے، اس لئے کہ لفظ ﴿ مِّنْكُمْ ﴾ میں اس کا بھی احتمال ہے کہ دونوں جنسوں کے رسول ایک ہی جنس (انسانوں) میں سے ہوں جیسے کہ ہمارے رسول ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی بعثت دونوں کے لئے تھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ ﴾([2])
یعنی جب جنوں کی جماعت نے آپ کی تلاوت اور دعوت سنی تو انھوں نے اپنی قوم میں جا کر کہا کہ اے لوگو ! اللہ کے داعی کی بات قبول کرلو۔
نیز فرمایا:﴿ قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى﴾([3])
انہوں نے کہا: ا ے میری قوم کے لوگو!ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ اسلام کے بعد نازل ہوئی ہے ۔
پہلی آیت میں ﴿دَاعِيَ اللّٰهِ ﴾ سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی بعثت جنوں کی طرف بھی تھی ، اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ اسلام کی کتاب جنوں کے لئے بھی موجب ہدایت تھی ۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکا قول ہے :
”الرُّسُلُ مِنْ بَنِي آدَمَ، وَمِنَ الْجِنِّ نُذُرٌ“([4])
یعنی رسول انسانوں میں سے آئے ہیں اور جنوں میں سے نذیر ( ڈرانے والے ) ہوتے ہیں ، یہی قول مجاہد اور جمہور سلف و خلف کا ہے ۔
اور ابن جریر ، ضحاک بن مزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ جنوں میں سے بھی رسول آئے ہیں اور وہ سورہ انعام کی مذکورہ بالا آیت سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن یہ استدلال قطعی نہیں ہے۔
مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ جس طرح آیت کریمہ :
﴿ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾([5])
میں ﴿ مِنْهُما ﴾ میں احد مضاف محذوف ہے ”اَیْ يَخْرُجُ مِنْ اَحَدِهِمَا“ ان دونوں میں سے ایک سے لؤلؤ اور مرجان نکلتا ہے ، اسی طرح یہاں سورة انعام کی آیت ﴿مِنْکُم﴾ میں بھی ”احد“مضاف محذوف مانیں گے”ای من احد کم“ یعنی اے انسان و جن کی جماعت !کیا تم میں سے ایک جنس یعنی انسانوں میں سے رسول نہیں آئے۔
اس طرح جنوں میں سے رسول کے آنے کی یہ واضح اور قطعی دلیل نہیں ہے ، اور کوئی دوسری بھی قطعی دلیل نہیں ہے، جس میں جنوں میں سے کسی رسول کے بھیجے جانے کا تذکرہ ہو ، اس واسطے مناسب یہ ہے کہ آپ جمہور سلف وخلف کے مذہب کو اختیار کریں اور ضحاک کے منفرد قول کو ترک کردیں ، ویسے مسئلہ اجتہادی اور احتمالی ہے ، اس لئے کسی کو جنوں میں سے رسل ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں کہا جاسکتا۔
([4]) شرح العقيدة الطحاوية في العقيدة السلفية: ص ١١٠.
کیاحضرت آسیہ رضی اللہ عنہا جنت میں رسول اللہ ﷺ کی زوجہ ہوں گی؟
سوال(24-24): کیا حضرت آسیہ رضی اللہ عنہاجنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہوں گی؟
جواب: اس سلسلے میں کچھ حدیثیں امام ابن کثیر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے البدایہ والنہایہ (2/57) اور تفسیر ابن کثیر(4/500، سورہ تحریم آیت نمبر :5) میں وارد ﴿ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا ﴾ کی تفسیر میں ذکر کی ہیں ،مگر البدایہ والنہایہ میں ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
”وَكُلٌّ مِّنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ فِي أَسْانِيدِهَا نَظَرٌ“
ان تمام احادیث کی اسانید قابل نظر ہیں ۔
اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں بھی ان کی تضعیف کی ہے ، نیز علامہ البانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ([1]) میں اس کو ضعیف اور منکر کہا ہے ، اور امام الہیثمی سے بھی اس کی تضعیف نقل کی ہے، اس طرح اس سلسلہ کی تمام احادیث ضعیف ہیں ، اور ان پر اعتماد کر کے یہ کہنا کہ حضرت آسیہ اور حضرت مریم جنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہوں گی درست نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب.
([1])سلسلة الاحاديث الضعيفة:2/220[812]، و12/ 806 [5885].
آسیہ رضی اللہ عنہا یا علیھا اسلام؟
سوال(25-25): لوگ یہاں اس بارے میں بحث کررہے ہیں کہ حضرت آسیہ کے ساتھ ” رضی اللہ عنہا“ کہنا چاہئے یا ”علیھا اسلام“ ؟ کیونکہ و ہ نبیہ نہیں تھیں ، آپ اپنی رائے سے نوازیں ۔
جواب: علیہ اسلام کا استعمال عموما انبیاء علیہم اسلام کے لئے ہوتا ہے ،اور حضرت آسیہ نبیہ نہیں تھیں، اس واسطے ان کے لئے”علیھا اسلام“کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے اور رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہاکا لفظ عموما صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور بعض علماء نے اس کا استعمال دیگر بزرگوں کے لئے بھی کیا ہے، اور حضرت آسیہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر ایمان لانے والوں میں ایسے ہی تھیں جیسے ہمارے نبی ﷺ پر ایمان لانے والی صحابیات تھیں ، اس واسطے ان کے لئے رضی اللہ عنہا کہنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہے ، تفسیر ابن کثیر (4/394) سورہ تحریم کی تفسیر میں ان کے لئے رضی اللہ عنہا کا لفظ استعمال ہے ، ابن کثیر کے الفاظ ہیں :”وَهَذِهِ الْمَرْأَةُ هِيَ آسِيَةُ بِنْتُ مزاحم رضی اللہ عنہا “
یاد رہے کہ اگر چہ علیہ اسلام اور رضی اللہ عنہ کے کلمات عموما انبیاء علیہم اسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ،لیکن اگر ضمنا دوسرے بزرگوں کے لئے ان کا استعمال کوئی کر لے تو کوئی حرج نہیں ہے ،جیسا کہ درود و سلام نبی ﷺ کے لئے خاص مانا جاتا ہے، لیکن”اللهم صلِ علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی ابراهيم وعلی آل ابراهيم انك حميد مجيد“ ، اور التحيات میں ”السلام علينا وعلی عباد الله الصالحين“ میں محمد ﷺکے ساتھ آل محمد اورابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ آل ابراہیم بھی ہے ، جبکہ آل محمد اور آل ابراہیم انبیاء میں سے نہیں تھے ، اور عباد اللہ الصالحین میں بھی غیر انبیاء داخل ہیں ۔
حدیث:”إِنَّ اللَّهَ زَوَّجَنِي فِي الْجَنَّةِ مَرْيَمَ بنتَ عِمْرَانَ “الخ کیسی ہے؟
سوال(26-26):میں نے ابن کثیر رحمۃ اللّٰہ علیہکی ایک کتاب قصص الانبیاء میں یہ حدیث پڑھی ہے :
”إِنَّ اللَّهَ زَوَّجَنِي فِي الْجَنَّةِ مَرْيَمَ بنتَ عِمْرَانَ، وَامْرَأَةَ فِرْعَوْنَ، وَأُخْتَ مُوسَى“
مریم بنت عمران ، فرعون کی بیوی(آسیہ) اور حضرت موسی علیہ اسلامکی بہن کو اللہ نے جنت میں میری بیوی بنایا ہے ۔
براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟
جواب: یہ حدیث ضعیف ہے ، اس واسطے کہ اس کی دو سندیں ہیں اور دونوں ضعیف ہیں ، ایک تو یہ حدیث ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اور اس کی سند میں یوسف بن شعیب نام کا ایک راوی ہے جس کے بارے میں امام عقیلی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : ”حَدِيْثُهُ غَيْرُ مَحْفُوظٍ“اس کی حدیث محفوظ نہیں ، اور امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کو ”منكر الحديث“ کہا ہے اور ابن عدی فرماتے ہیں کہ یہی وہ حدیث ہے جس کی بناء پر امام بخاری نے اسے ”منكر الحديث“قرار دیا ہے ۔
اس میں ایک دوسرا راوی عبد النور بن عبد اللہ ہے ، جس کی حالت پہلے راوی سے بھی خراب ہے ،کیونکہ امام ذہبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کو ”كذاب“کہا ہے ، اور اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے ۔
دوسرے یہ حدیث سعد بن جنادہ سے مروی ہے ، مگر ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں بعض ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا، یعنی وہ مجہول ہیں ۔
بہر حال یہ حدیث سندا ًضعیف ہے ۔ ([1])واللہ اعلم بالصواب.
([1]) انظر ضعيف الجامع الصغير وزيادته:[1611]،وسلسلة الاحاديث الضعيفة:2/220[812].
اللہ کی عبادت جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے کرنا
سوال(27-27): بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ صرف اللہ کی محبت اور عشق الہی میں کرنا چاہئے ، ان کے اس قول کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب: بلا شبہ محبت الہی پر عبادت کی بنیاد ہے ، لیکن یہ اسی پر محصور نہیں ، ہے ، جیسا کہ ان لوگوں کا زعم ہے ، بلکہ عبادت میں خوف و رجاء اور خشوع و خضوع کے پہلو بھی ہیں ، اللہ تعالی نے اپنے رسولوں اور صالح بندوں کےاوصاف حمیدہ میں سے یہ بھی ذکر کیا ہے :
﴿ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا﴾([1])
وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کے عذاب کے خوف سے اور اس کی رحمت و جنت کے لالچ میں۔
﴿وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا﴾([2])
اوروہ ہمیں لالچ اور خوف سے پکارتے تھے۔
﴿ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ﴾([3])
اور وہ اس کی رحمت کی امید کرتے اور اس کے عذاب سے خوف کھاتےہیں۔
اس واسطے ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اللہ کی عبادت محض اس کی محبت میں کرنا چاہئے اور جنت کی لالچ یا عذاب کے خوف سے نہیں کرنا چاہئے قطعا درست نہیں ہے، بلکہ بعض سلف کا قول ہے :
”مَنْ عَبَدَ اللَّهَ بِالْحُبِّ وَحْدَهُ فَهُوَ زِنْدِيقٌ، وَمَنْ عَبَدَهُ بِالْخَوْفِ وَحْدَهُ فَهُوَحَرُوْرِيٌ، وَمَنْ عَبَدَهُ بِالرَّجَاءِ وَحْدَهُ فَهُوَ مُرْجِئٌ، وَمَنْ عَبَدَهُ بِالْحُبِّ وَالْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ مُوَحِّدٌ“([4])
جس نے اللہ کی عبادت صرف محبت میں کی وہ زندیق ہے ، اورجس نے اس کی عبادت صرف امید میں کی وہ مرجئی ہے ، اور جس نے اس کی عبادت صرف اس کےخوف سے کی وہ حروری ہے ، اور جس نے اس کی عبادت محبت ، خوف اور رجاء کی بناء پر کی وہ مومن موحد ہے ۔
یاد رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے لئے کتاب و سنت میں صرف” محبت“ کا لفظ وارد ہے ، اور” عشق“کا لفظ کہیں وارد نہیں ہے ، اس واسطے اس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
([4]) انظر محاضرات في العقيدة والدعوة للدکتور صالح بن فوزان: 1/83.
جس عورت کے دنیا میں دو شوہر ہوں وہ جنت میں کس کی بیوی ہوگی
سوال(28-28):اگر کوئی عورت دنیا میں دو مردوں کی زوجیت میں رہی ہو اور وہ اور اس کے دونوں شوہر جنتی ہوں تو وہ جنت میں کس کے ساتھ ہوگی ؟
جواب: آیت کریمہ : ﴿وَفِيْهَا مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ﴾([1]) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں شوہروں میں سے جس کے ساتھ رہنے کی خواہش کرے گی اس کے ساتھ رہے گی ، شیخ محمد بن صالح العثیمین کی بھی یہی رائے ہے ۔ ([2])واللہ اعلم.
([2]) انظر مجموع فتاوی للشيخ ابن عثيمين: 2/53.
جنت میں عورتوں کے لئے کیا ہے؟
سوال(29-29):مردوں کے لئے جنت میں حوریں ہوں گی تو عورتوں کے لئے کیا ہوں گے؟
جواب: مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن سے وہ بھر پور لطف اندوز ہوں گی ، اور خوش و خرم ہوں گی ، اور جس چیزکی بھی وہ خواہش کریں گی وہ پائیں گی ، ارشاد باری ہے :
﴿ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّاَكْوَابٍ ۚ وَفِيْهَا مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ ۚ وَاَنْتُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾([1])
تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں داخل ہو جاؤ،ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیوں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
اور حم السجدہ میں فرمایا:
﴿ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ﴾([2])
جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے (جنت میں موجود) ہے،غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔
جنتی مردوں کو ان کی جنتی بیویاں اور حورعین ملیں گی اور جنتی عورتوں کو اگر ان کے شوہر جنتی ہوں گے تو وہ ملیں گے، جیسا کہ آیت کریمہ:
﴿ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ﴾([3])
تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش جنت میں داخل ہوجاؤ۔
اور آیت کریمہ :﴿رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾([4])
ترجمہ :اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا، جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں ،یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔
سے معلوم ہوتا ہے ۔
اور اگر ان کے شوہر جنتی نہیں ہوں گے یا دنیا میں ان کی شادی ہی نہیں ہوئی ہوگی تو جن جنتی مردوں کی عورتیں جنتی نہیں ہوں گی یا جن مردوں کی دنیا میں شادی نہیں ہوئی رہی ہوگی ان کو ان کی خواہش پران کی زوجیت نصیب ہوگی ، جیسا کہ آیت کریمہ:
﴿ وَفِيْهَا مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُ﴾([5])
اور ﴿ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ﴾([6])
سےمعلوم ہوتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ جنت میں مردوں کو بیویوں کے علاوہ حوریں ملیں گی تو عورتوں کو مردوں کے علاوہ اور کیا ملے گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی نے مردوں کے لئے چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے اور لونڈیوں کی اجازت الگ ہے ، اس لئے کہ مردوں کے لئے ایک سے زیادہ عورتوں کو بطور بیوی یا لونڈی رکھنے میں کئی مصلحتیں اور فوائد ہیں ، مثلا: (1)اولاد کی کثرت (2) گھر کے کاموں اورخدمات میں سہولت (3) دعوت و تبلیغ کے کاموں میں آسانی (4) کئی عورتوں کی کفالت اور ان کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھانے اور عصمت وعزت کی حفاظت کا اجر وثواب وغیرہ ، مگر ایک عورت کے لئے بیک وقت ایک سے زیادہ مرد سے شادی کرنے (یا لونڈی ہونے کی صورت میں )ہم بستری کرنے اور استعمال میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے،کیونکہ اس میں مصلحت کے بجائے بہت ساری قباحتیں اور ان کے لئے بڑی زحمتیں ہیں ،ایک غلام دو مالکوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کی جان مصیبت میں رہتی ہے ، دونوں کی خدمت میں دوڑتے دوڑتے وه ہلکان ہو جاتا ہے ،بیک وقت دونوں کی طرف سے بلاوا ہوتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کس کی سنے کس کی نہ سنے ، ایک کی بات پر لبیک کہتا ہے تو دوسرے کی سرزنش و عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جب ایک غلام اور خادم کا یہ حال ہے تو ایک عورت اگر دو تین مردوں کی زوجیت و ماتحتی میں ہو تو اس کی کیا حالت ہوگی ؟ ظاہر ہے کہ زحمت و مصیبت کے سوا اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ، علاوہ ازیں اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کی زوجیت اور استعمال میں ہو تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا مسئلہ بھی پھنسے گا کہ اسے کس کا بچہ مانیں ۔
نیز یہ انسان کی فطرت اور غیرت کے خلاف ہے کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کی زوجیت اور استعمال میں رہے، نہ عورت کی فطرت سلیمہ اسے قبول کرتی ہے ، اور نہ غیرتمند مرد کی غیرت ، اس واسطے بظاہر یہی حال جنت میں بھی ہوگا ، یعنی ایک عورت کو ایک ہی مرد ملے گا ، اور وہ ایک ہی کی خواہش بھی کرے گی ، غالبا اس بنا پر اللہ نے مردوں کے لئے حور عین کا ذکر کیا ہے، اور عورتوں کے لئے کسی کا ذکر نہیں کیاہے۔ واللہ اعلم.
جنت میں عورتوں کا ثواب
سوال(30-30):قرآن کریم میں بہت سی آیات میں مومن مردوں کے لئے حسین و جمیل حوروں کا وعدہ کیا گیا ہے ، تو کیا عورتوں کو جنت میں ان کے شوہروں کا بدیل عطا کیا جائے گا ؟ نیز جنت میں نعمتوں کا تذکرہ بالعموم مردوں کے لئے کیا گیا ہے تو کیا عورتیں مردوں سے کم تر نعمتوں میں رہیں گی؟
جواب: آخرت میں ثواب اور اعمال صالحہ کا بدلہ مردوں اور عورتوں سب کو ملے گا ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
﴿ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى﴾([1])
میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرتا۔
نیز ارشاد ہے : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾([2])
جو شخص نیک عمل کرےگا مرد ہو یا عورت، لیکن با ایمان ہو تو ہم یقیناً اسے نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے ، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور باضرور دیں گے۔
اورفرمان الہی ہے :﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًا﴾([3])
جو ایمان والا ہو، مرد ہو یا عورت اور وہ نیک اعمال کرے گا تو یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا۔
اور فرمان الہی ہے :﴿ هُمْ وَاَزْوَاجُهُمْ فِيْ ظِلٰلٍ عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ مُتَّكِــــــُٔـوْنَ﴾([4])
وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔
نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ عورتوں کو جب (آخرت میں)زندگی عطا کی جائے گی تو انہیں بھر پور جوانی اور بکارت سے نوازاجائے گا ۔
چنانچہ ارشاد ہے : ﴿اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءًۙ فَجَــعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا﴾([5])
ہم نے ان ( بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے،اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح جنت میں ہوں گی، اور جنت کی نعمتوں سے محظوظ و مستفید ہوں گی ،اور اگر کسی عورت کی دنیا میں متعدد مردوں سے شادی ہوئی ہوگی اور سب کے سب جنت میں داخل ہوں گے تواس عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے منتخب کر لے ، تو وہ ان میں سے سب سے زیادہ بااخلاق اور حسن سلوک کرنے والے کو منتخب کرے گی۔واللہ اعلم .
کافر والدین کے بچپن میں مرجا نے والےبچوں کا حکم
سوال(31-31): حدیث :”كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ…“([1]) کی روشنی میں جو بچہ کافر والدین کے گھر پیدا ہوتا ہے اور بچپن میں ہی انتقال کرجاتا ہے، کیا عند اللہ وہ مسلمان اور جنتی ہوگا ؟ اور اگر وہ مسلمان ہے تو کیا مرنے کے بعد اسے مسلمان غسل دے کر اور اس کی نماز جنازہ پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ؟
جواب: اگر یہ بچہ اپنے کافر والدین کے یہاں انتقال کر تا ہے تو اس کا حکم دنیا میں اس کے والدین کا حکم ہوگا، اور مسلمان نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ،نہ اسے اپنے قبرستان میں دفن کریں گے ، بلکہ اس کے والدین اس کی تدفین وغیرہ اپنے دین کے اعتبار سے کریں گے ، رہا آخرت میں اس کا معاملہ تو یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺسے مشرکین کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
”اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ“([2])
اللہ کو زیادہ علم ہے کہ بڑے ہوکر وہ کیا کرتے ۔
اور اسی اعتبار سے وہ ان کے ساتھ معاملہ فرمائے گا۔
([1]) سنن ابي داود:4/366 [4714]كتاب السنة، باب في ذراري المشركين،وقال الألباني: صحيح.
جب اللّٰہ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے تو پھر جہنمی کی کیا غلطی؟
سوال(32-32):کچھ لوگ بخاری شریف کی حدیث نمبر [2537] کا حوالہ دیتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جنتیوں اور دوزخیوں کواللہ نے پہلے سے ہی مقرر فرمادیا ہے“ تو پھر لوگوں کو عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟نیزآپ نے فرمایا : ”جس کو جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے واسطے اس کے عمل بھی آسان کردئے گئے ہیں“ پھر جہنمی کا جہنم میں جانے کا کیا قصور ہے جب کہ اس کی تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے؟ یعنی اللہ نے اس کو اسی واسطے پیداکیا ہے کہ جہنم میں داخل ہو، اور زانی کی تقدیر میں جب ز نا پہلے سے لکھا ہے تو زنا کرنے میں اس کی کیا غلطی ؟ اور کیوں اس کو اس کی سزادی جائے گی ؟ اور شیطان پر اس کاالزام کیسے آئے گا ؟
جواب :سب سے پہلے یہ بتا دینا مناسب ہے کہ تقدیر اللہ کا ایک سِر اور راز ہے، جس کے سلسلہ میں زیادہ بحث و مباحثہ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس سے سوائے محرومی و بد عملی اور ضلالت وحیرانی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ، خود رسول اللہ ﷺ نے تقدیر کے سلسلہ میں زیادہ بحث و تدقیق سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اس حال میں نکلے کہ لوگ تقدیر کے سلسلہ میں بحث کر رہے تھے ، اس سے آپ کا چہرہ مارے غضب کے ایسا سرخ ہوگیاکہ معلوم ہوتا تھا کہ اس پر انار کے دانے پھوڑ دئے گئے ہیں ، پھر آپ نے فرمایا :
”مَا لَكُمْ تَضْرِبُونَ كِتَابَ اللهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ؟ بِهَذَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ“(رواه احمد([1])وابن ماجه([2]) والبخاري في خلق افعال العباد([3]) وعبد الرزاق في المصنف([4]))
یعنی تمہیں کیا ہوگیاہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیتوں کو بعض سے ٹکراتے ہو ؟تم سے پہلے کی امتیں اسی لئے ہلاک ہوئیں ۔
اس کے بعد عرض ہے کہ آپ نے صحیح بخاری کی جس حدیث کا تذکرہ کیا ہے اس کے الفاظ اور باب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور حدیث نمبر مختلف طباعت میں بدلتا رہتا ہے، اس واسطے کوشش کے باوجود قطعی طور سے معلوم نہ ہوسکا کہ بالضبط کس حدیث کے متعلق آپ کا سوال ہے ، غالبا آپ کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے سلسلہ میں دریافت کرنا ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ العَمَلَ؟ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، قَالَ:أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ:﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى﴾[الليل:6]الآيَةَ“(متفق عليه([5]))
اگر آپ کا مقصد اسی حدیث کے متعلق یااسی معنی کی کسی دوسری حدیث کے متعلق پوچھنا ہے تو عرض ہے کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کا مقام جنت میں اور جہنم میں اس کی ولادت سے قبل لکھ دیا گیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بد بخت الخ۔
اس میں یا اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعمال سیئہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور پھر اس پر مؤاخذہ بھی کرے گا ، اس میں صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے ہر شخص کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کیسا ہوگا؟ اس کے اعمال کیسے ہوں گے؟ اور اس کا انجام کیاہوگا ؟ اس نے پہلے سے لکھ بھی دیا ہے ،اور اس کا علم و اندازہ غلط بھی نہیں ہوگا ،اور تقدیر میں اس کی لکھی ساری باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی ، دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ اس میں اللہ کے کمال علم اور احاطہ کا ذکر ہے ،اس میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے کسی کو تقدیر میں لکھے اعمال کے کرنے پر مجبورکیا ہے ۔ اس کے برعکس دوسری جگہوں پر وارد ہے کہ اللہ نے انسان کو خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ چاہے جس راستے کو اختیار کرے ، ارشاد باری ہے :
﴿وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ﴾([6])
ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئے ہیں۔
اور دوسری جگہ فرمایا :
﴿ اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا﴾([7])
ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا ہے، اب خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا ۔
اس واسطے اس کے صحیح علم کی بناء پر صرف تقدیر میں لکھنے سے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ جہنمی کے جہنم میں جانے کا کیا قصور؟ جب کہ اس کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو جہنم کا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے ۔
اسی طرح یہ اعتراض بھی صحیح نہیں ہے کہ زانی کی تقدیر میں زنا پہلے سے لکھا ہے تو زنا کرنے میں اس کی کیا غلطی ؟ اور کیوں اس کو اس کی سزادی جائے گی ؟ اور شیطان پر اس کاالزام کیسے آئے گا ؟
آپ یہ بتائے کہ ایک استاذ جو اپنے کلاس کے تمام طلبہ کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور پڑھنے لکھنے سے ان کی دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھی طرح واقف ہے، اگروہ اپنے اس علم کی بناء پر کسی ذہین و محنتی طالب علم کے بارے میں اپنے رجسٹریا ڈائری میں مثلاً یہ لکھ لے کہ وہ فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگا اور اپنے کلاس میں فلاں پوزیشن لے گا ،اور ایک کند ذہن اور بد شوق و شریر لڑکے کے بارے میں یہ لکھ لے کہ وہ فیل ہوگا ، اور کلاس میں دونوں کو دیگر لڑکوں کے ساتھ برابر پڑھائے اور سمجھائے ، بلکہ کمزور اور شریرلڑکے پر زیادہ ہی محنت کرے اور اسے طرح طرح سے سمجھائے کہ خوب محنت کرو ، جو نہ سمجھ میں آئے دوبارہ پوچھ لو، کھیل کود میں اپنا زیادہ وقت ضائع نہ کرو ورنہ فیل ہوجاؤ گے، مگر وہ شریر اور بد ذوق لڑکا اپنی ہی روش پر قائم رہے اور لفنگوں اور بدمعاشوں کے بہکاوے میں آکر دل لگا کر محنت سے نہ پڑھے ، اس کے برخلاف ذہین و محنتی طالب علم محنت کر کے پڑھے اور تیاری کرے اور امتحان کے بعد میں جب رزلٹ نکلے تو جیسے اس مدرس نے اپنی ڈائری میں یا رجسٹر میں اپنا اندازہ لکھا تھا ویسے ہی شریر و کند ذہن اور بدذوق طالب علم فیل ہوگیا ، اور ذہین و محنتی طالب علم پاس ہوگیا ، ایسی صورت میں کیا کسی کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہوگا کہ مدرس نے جب پہلے ہی اپنی ڈائری یا رجسٹرمیں لکھ دیا تھا کہ یہ طالب علم فیل ہوجائے گا پھر اس بیچارے کی اور ان لفنگوں کی کیا غلطی جنھوں نے اس کو بہکایا ؟ یقینا آپ یہی کہیں گے کہ یہ کہنا اور اعتراض کرنا بالکل درست نہیں ، اس لئے کہ اس میں مدرس کی کوئی غلطی نہیں ، غلطی ان لفنگوں کی ہے جنھوں نے اسے بہکایا ،یا اس بیوقوف اور غبی و بد ذوق لڑکے کی ہے جس نے پڑھنے میں محنت نہیں کی اور اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں گنوا دیا ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا علم دنیا کی ہر مخلوق کے علم سے زیادہ اکمل و اصح ہے اگر اپنے علم کامل کی وجہ سے ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیتا ہے کہ وہ شقی ہو گا یا سعید ، جنتی ہوگا یا جہنمی ،مگر ان سے اختیارات سلب نہیں کرتا، بلکہ سب کو اچھائی و برائی کے راستے بتاتا ہے اور اپنے رسولوں کے ذریعہ ، آسمانی کتابوں کے ذریعہ، ورثۃ الانبیاء علماء کرام کے ذریعہ ، آفاق و انفس کے آیات و دلائل کے ذریعہ،انھیں ایمان و عمل صالح کی دعوت دیتا ،کفرو شرک اور برے اعمال سے منع کرتا ، جہنم اور اس کے عذاب ، حساب وکتاب اور قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتا ہے،اور مومنین و صالحین کے لئے جو انعامات اور عیش و آرام کے سامان اور جنتیں ہیں ان کو بھی بیان کرتا ہے، ان سب کے باوجود کافر اپنے کفر و طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق و فاجر اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اس کے ان اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ اس کو گناہ گار اورخطا کار قرار دے ، اور اس کے حسب اعمال اس کو سزادے تو اس میں اعتراض کی کیابات ہے؟ یہ تو عین عدل و انصاف ہے ، اور اس کے برخلاف نیک وبد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک سلوک کرنا عین ظلم ونا انصافی ہے ۔
اصل میں کچھ لوگوں کو ارشاد باری :
﴿ وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ﴾([8])
یعنی تم اللہ رب العالمین کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں چاہ سکتے۔
اور اس طرح کی آیات و احادیث سے یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ انسان مجبور محض ہے، حالانکہ ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ، کیونکہ احکام الٰہیہ کی دو قسمیں ہیں :
١-احکام تکوینیہ ۔ ٢- احکام شرعیہ۔
احکام تکوینیہ میں تو انسان اللہ کے حکم و ارادہ کا مکمل پابند ہے ، اس سے انحراف کا اسے اختیا ر نہیں، یہ سارے احکام محض اللہ کے ارادہ و حکم سے انجام پاتے ہیں ، اور ایسے احکام پر ثواب و عذاب نہیں ۔
لیکن احکام شرعیہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکمل اختیار دے رکھا ہے ، چاہے تو وہ خیر کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو شر کا ، البتہ اللہ کی مرضی اور اس کی پسند یہی ہوتی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کرے اور توحید و اخلاص کے راستے کو اختیار کرے ، اسی کا وہ حکم بھی دیتا ہے ،اور وہ بالکل پسند نہیں کرتا کہ کوئی شرک و کفر اور معصیت کا ارتکاب کرے ،بلکہ وہ اس سے بڑی سختی سے منع کرتا ہے ، اور چونکہ ان احکام میں انسان کو اختیار ہے اس واسطے اسے اپنےاختیار کردہ عمل کے مطابق جزاء و سزا بھی ملے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ارادے کی بھی دو قسمیں ہیں :
١-ارادہ کونیہ ۔ ٢-ارادہ شرعیہ ۔
ارادہ کونیہ کا مطلب ہے کسی چیز کے وجود پذیر ہونےکے لئے اس کی اجازت و ارادہ، اور ایسا ارادہ اعمال خیر و شر دونوں کو شامل ہوتا ہے ۔
اور ارادہ شرعیہ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کی اجازت دینا اور اس کو پسند بھی کرنا ، یہ ارادہ صرف اعمال خیر کو شامل ہے، اعمال شر کو نہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ اعمال شر کو پسند نہیں فرماتا، لیکن اگر کوئی کرنا ہی چاہتا ہو تو وہ بجبر و اکراہ اسے منع نہیں کرتا، بلکہ کرنے دیتا ہے البتہ چونکہ اس کے ارادہ شرعیہ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے اس کے مرتکب کو عذاب دیتاہے ۔
ارادے کی ان قسموں اور فرق کو ملحوظ رکھیں تو اس باب میں پیدا ہونے والے اعتراضات کا ازالہ ہو جائے گااور جبریہ و قدریہ کے افراط و تفریط یا انحراف سے محفوظ ہوجائیں گے ، ان شاء اللہ۔
([1]) مسند احمد:2/178[6668]،وقال شعيب الأرنؤوط: صحيح، وهذا إسناد حسن.
([2]) سنن ابن ماجه: 1/33[85] مقدمة، باب في القدر، وقال الألباني: حسن صحيح.
([3]) خلق افعال العباد للبخاري: ص٤٣[216]باب افعال العباد.
([4]) مصنف عبد الزاق:11/217 [٢٠٣٦٧ ]کتاب الجامع للامام معمر بن راشد،باب الخصومة في القرآن.
([5]) صحيح البخاري: 3/325[١٣٦٢]کتاب الجنائز، باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله، صحيح مسلم: 4/7039[6] کتاب القدر، باب کيفية خلق الآدمي في بطن امه وکتابه ورزقه واجله وعمله.
ولد الزنا کا کیا قصور ؟
سوال(33- 33):اگر کوئی بچہ ناجائز پیدا ہوتا ہے تو اس بچے کا کیا قصور ہے؟ جب کہ اس کو اللہ نے ہی فاعل و مفعول کے ناجائز فعل سے پیدا کیا ہے ، اور اگر یہ فعل اللہ نے ہی اس کی مقدر میں لکھا تھا تو پھر شیطان پر اس کا الزام کیسے آئے گا؟ اب بچہ علم دین حاصل کر کے عالم بن جائےتو معاشرہ اس کو کیا تصور کرے؟
جواب:اس سوال میں جو آپ نے شیطان کے الزام کے سلسلہ میں پوچھا ہے اس کا جواب اس سے پہلے گذر چکا ہے ، رہی ولد الذنا کے قصور کی بات تو بہت سے ائمہ کرام کی رائے یہی ہے کہ اگر بذات خود وہ نیک و صالح ہو تو اس کے والدین کی غلطی کی وجہ سے اسے برا نہیں سمجھا جائے گا اور اگر اس نے پڑھ لکھ کر علم دین حاصل کر لیا اور عالم یا قاری بن گیا تو امامت بھی کرسکتا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےجب ولد الزنا کے بارے میں پوچھا جاتا تو یہی فرماتیں کہ اس کےوالدین کی غلطی کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ اور عیب نہیں، اور یہ آیت کریمہ تلاوت کرتیں :
﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾([1])
کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔([2])
حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
ولد الزنا اور دوسرے لوگ برابر ہیں۔([3])
اس کا مقام مسلمانوں میں سےعام آدمی کی طرح ہے ، وہ امامت کر سکتا ہے اور اگر عادل ہو تو اس کی شہادت بھی قبول ہوگی۔
امام زہری رحمۃ اللّٰہ علیہ سےاس کی امامت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: امامت کرسکتا ہے ، اس کی کیا غلطی ہے !؟([4])
امام شعبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی فرمایاکہ ولد الزنا کی امامت و شہادت جائز ہے ۔([5])
یہی قول عطاء ،سلیمان بن موسی ،عمرو بن دینار ، اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللّٰہ علیہم اور حنابلہ و ظاہریہ وغیرہ کا بھی ہے۔
اور یہی راجح ہے ، کیونکہ جن لوگوں نے اس کی امامت کو مکروہ یا ناجائز قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کےنسب میں عیب ہے ، حالانکہ شریعت میں نسب یا بدن کا عیب باعث ذلت نہیں ، اصل عیب دین و اخلاق کا ہے ، ارشاد باری ہے :
﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾([6])
اللہ کے نزدیک تم میں سب سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
”يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ“([7])
قوم کی امامت وہ کرے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن کا پڑھنے والا ہو ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا استدلال آیت کریمہ :﴿ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾([8])سے پہلے گذر چکا ہے، جو بالکل درست ہے۔
([1]) فاطر: 18.
([2]) مصنف ابن ابي شيبة: 2/216[6151] کتاب الصلاة، باب من رخص في امامة ولد الزنا، وقال الألباني:حسن،انظر:سلسلة الاحاديث الصحيحة:5/185[2186]،وصحيح الجامع الصغير وزيادته: 2/ 952[5406].
([3]) مصنف ابن ابي شيبة: 2/216[6149] کتاب الصلاة، باب من رخص في امامة ولد الزنا.
([4]) مصنف عبد الرزاق:2/397 [3840] کتاب الصلاة، باب هل يؤم ولد الزنا.
([5]) مصنف ابن ابي شيبة: 2/216[6144] کتاب الصلاة، باب من رخص في امامة ولد الزنا.
([7]) صحيح البخاري: 2/184، کتاب الأذان، باب إمامة العبد والمولیٰ، سنن ابي داود: 1/390 [582] کتاب الصلاة، باب من أحق بالإمامة.
مسلمان کی تکفیر(اس کو کافر قرار دینے)کا حکم
سوال(34-34):حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کو کافر قرار دے تو دونوں میں کوئی ایک کافر ہوجاتا ہے ، جس کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے اگر اس میں کفر کی کوئی بات پائی جاتی ہے تو وہ کافر،ورنہ کہنے والا کافر ہوجاتا ہے ، اس حدیث کی روشنی میں ایک مسئلہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک شخص مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا ، اس کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر ایک دوسرے شخص نےانگوٹھی پہنے ہوئے شخص کے متعلق کہا کہ یہ نہ اہل حدیث ہے اور نہ مسلمان ، دریافت طلب امر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خود انگوٹھی پہنی ہے ، کیا انگوٹھی پہننے سے کوئی شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا ؟اور اگر نہیں تو پھر کہنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:بلا شبہ رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھی پہنی ہے ، مگر یہ انگوٹھی چاندی کی تھی ، جس پر محمد رسول اللہ منقش تھا ، اور جس سے آپ ﷺ امراء و سلاطین کے نام اپنے خطوط پر مہر لگانے کا کام لیا کرتے تھے ، اگر اس طرح کی انگوٹھی کسی کے پاس ہے تو اس کے پہننے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، لیکن دور حاضر میں لوگ اسی قسم کی انگوٹھیوں کے پہنے پر اکتفا نہیں کرتے ہیں، بلکہ ان میں انواع و اقسام کی انگوٹھیاں رائج ہوگئی ہیں ، مثلا سونے کی انگوٹھیاں ، خِطبہ ( منگنی) کی انگوٹھیاں ، آسیب سے بچنے کے لئے انگوٹھیاں ، اور مختلف شرکیہ کلمات و عبارات سے منقش انگوٹھیاں، جن کا پہننا شرعا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی شخص ان سب انگوٹھیوں میں سے کوئی انگوٹھی کسی شخص کے ہاتھ میں دیکھ کر کہتا ہے : ”یہ نہ اہل حدیث ہے نہ مسلمان “تو اس کا مطلب عموما یہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ عمل نہ تو مسلمان کا ہے اور نہ اہل حدیث کا ، اس سے اس کا مقصد تکفیر کرنا نہیں ہوتا ہے ، پھر بھی اس قسم کے جملوں کے استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہئے اور بات خوش اسلوبی سے اورمدلل طریقے پرسمجھانا چاہئے، تاکہ آپس میں اختلاف اور بدمزگی پیدا نہ ہو، البتہ اگر کوئی صراحۃً اس کی تکفیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں کافر ہے ،یا اسلام سے خارج ہے، تو اس کا یہ عمل بالکل غلط ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ: يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا، إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ“(متفق عليه([1]))
جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو اے کافر! کہا تو دونوں میں سے کسی ایک نے اپنے اوپراس بات کولازم کرلیا ، اگر جس کو کافر کہا ہے وہ شرعا کافر ہے تو ٹھیک ،ورنہ یہ کلمہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
بہر حال چاندی کی ایسی انگوٹھی جو موانع سے خالی ہو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ، البتہ اگر سونے وغیرہ کی انگوٹھی ہو اور اس کو ایک شخص حرام اور ناجائز سمجھ کر پہنتا ہے ، تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اگراس کو حلال سمجھ کر پہنتا ہے تو استحلال کی وجہ سے اس کا یہ عمل کفر تک پہونچ جاتا ہے ، اسے فوراً اس کو ترک کر کے کلمۂ توحید پڑھنا اور سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ، اسی طرح کسی مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کی بالتعیین تکفیر نہیں کرنی چاہئے ، اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ تم کافر ہو ، بلکہ محبت سے اور دلیل سے اسے سمجھانا چاہئے کہ آپ کا یہ عمل ناجائز ہے اور شرک یا کفر تک پہونچ جانے والا ہے۔
([1]) صحيح البخاري:10/519[6103]کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغير تاويل فهو کما قال، صحيح مسلم:1/49[225] کتاب الإيمان، باب حال إيمان من قال لأخيه المسلم ياکافر.
حالت غضب میں قرآن اور رسول کے انکار کرنے والے کا حکم
سوال(35-35): میں ایک مسلمان عورت ہوں ، قرآن و حدیث پر ایمان رکھتی ہوں ، لیکن گذشتہ دنوں یہ واقعہ پیش آیا کہ میرا گھر میں بہو اور بھائی کے ساتھ جھگڑا ہوا ، تکرار میں شدت پیدا ہوئی تو مجھے شدید غصہ آگیا اور اس غصے کی حالت میں میری زبان سے یہ کلمات نکلے کہ : ”میں اس سے بڑی چیز یعنی قرآن اور رسول کو نہیں مانتی “ در اصل میں نے اس سے کہا کہ تم نے گالی دی ہے، اس نے انکار کیا اور کہاکہ تم بڑی چیز کو اٹھا کر یہ بات کہو، تب میں نے غصہ میں یہ کہہ دیا کہ جاؤمیں اسے نہیں مانتی ، بعد میں جب مجھےاس جملے کی برائی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے طور سے بھی اللہ سے معافی مانگی اور توبہ کی ، اور پنچ حضرات کے سامنےبھی معافی مانگی ، براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ میری اس غلطی سے توبہ کا کیا طریقہ ہے ؟ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟ کیا اس جملہ کو کہنے کی وجہ سے میرے نکاح پر بھی اثر پڑے گا ؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:آپ نے ایسے شدید غصہ کی حالت میں جس میں آپ کی عقل زائل نہیں ہوئی تھی جو یہ کہا کہ :”میں بڑی چیز یعنی قرآن و رسول کو نہیں مانتی“وہ انتہائی غلط ہے ، اور اگرچہ دل میں ان پر ایمان ہو پھر بھی زبان سے اس قسم کے کلمات نکالنا شدید گناہ ہے ، اور ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے بلا اکراہ ایسے کلمات زبان سے نکالنے کو علماء نے ارتداد قرار دیا ہے ، چنانچہ امام ابن قدامہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارتداد کی تعریف اس طرح کی ہے:
”هِيَ الْإِتْيَانُ بِمَا يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الْإِسْلَامِ؛ إمَّا نُطْقًا، أَوْ اعْتِقَادًا، أَوْ شَكًّا يَنْقُلُ عَنْ الْإِسْلَامِ“([1])
یعنی ارتداد اسلام سے خارج کرنے والی چیز کے کرنے کو کہتے ہیں ، خواہ وہ زبان سے ہو یا عقیدہ سے یا ایسا شک جو اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔
اس واسطے اگر آپ نے اس کے بعد صدق دل سے توبہ کر کے کلمۂ شہادت پڑھ لیا ہے تو ٹھیک ہے، اب آپ مسلمان ہیں ، لیکن آئندہ اس قسم کے کلمات زبان سے نکالنے سے احتراز کریں۔
جہاں تک آپ کے نکاح کا مسئلہ ہے تو اس سلسلہ میں تفصیل ہے ، اگر دخول و ہم بستری سے قبل یہ کلمات کفر آپ کیزبان سے نکلے ہیں تو نکاح فورا ٹوٹ گیا ، اور تجدید نکاح کی ضرورت ہے ،اور اگر شوہر سے ہم بستری کے بعد یہ کلمات آپ کی زبان سے نکلے ہیں تو اس صور ت میں علماء کے دو اقوال ہیں :
ایک یہ کہ اگر دخول و ہم بستری ہوجانے کے بعد زوجین میں سے کسی نے کلمۂ کفر زبان سے نکال دیا ہے تو فورا نکاح ٹوٹ جائے گا ، اور دونوں میں تفریق کرادی جائے گی ۔
اور دوسرا قول یہ ہے کہاگر عدت میں اس نے توبہ کر لی او راسلام کی طرف لوٹ آیا تو نکاح نہیں ٹوٹے گا اور اگر عدت میں توبہ نہیں کی تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اور دونوں میں تفریق کرادی جائے گی ۔
قال ابن قدامة:”إذَا ارْتَدَّ أَحَدُ الزَّوْجَيْنِ قَبْلَ الدُّخُولِ، اِنْفَسَخَ النِّكَاحُ فِي الْحَالِ،وَلَمْ يَرِثْ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ،وَإِنْ كَانَتْ رِدَّتُهُ بَعْدَ الدُّخُولِ، فَفِيهِ رِوَايَتَانِ؛ إحْدَاهُمَا يَتَعَجَّلُ الْفُرْقَةُ،وَالْأُخْرَى يَقِفُ عَلَى انْقِضَاءِ الْعِدَّةِ، وَأَيَّهُمَا مَاتَ لَمْ يَرِثْهُ الْآخِرُ“([2])
آپ احتیاطا تجدید نکاح کرالیں تاکہ کسی طرح کا شبہ نہ رہ جائے اور اس گناہ کے ازالہ کے لئے توبہ و استغفار اور نیک عمل کرتے رہیں ،ارشاد نبوی ہے:
”التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَهُ“(رواه ابن ماجه([3])وقال الألباني: حسن([4]))
گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جس سے گناہ صادر ہی نہیں ہوا ۔
اور ارشاد باری ہے:
﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ﴾([5])
بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
([1]) المغني: 1/115، مسئله نمبر: [245].
([2]) المغني: 9/159، مسئله نمبر: [1045].
([3]) سنن ابن ماجه: 2/1419[4250] کتاب الزهد، باب ذکر التوبة.
([4]) انظر صحيح ابن ماجه: 2/418 [3427].
جھگڑے اور غصے میں بیوی کا ایسی بات کہنا جو کفر تک پہونچتی ہو
سوال(36-36): ایک شخص کا اس کی بیوی سے جھگڑا ہوا، شوہر نے حدیث کے حوالہ سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو بیوی نے جھگڑے اور غصے میں حدیث کی شان میں ایسی گستاخی کی جو کفر تک پہونچ جاتی ہے ، ایسی صورت میں اس کی بیوی سے توبہ کرانے اور تجدید ایمان کے بعدکیا شوہر دوبارہ اس سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ، اور کیا ایسی صورت میں عورت پر عدت واجب ہوگی یا نہیں ؟
جواب: ایسی صورت میں اگر بیوی سچے دل سے توبہ کر لیتی ہے تو تجدید ایمان کے بعد شوہر اس سے دوبارہ عقد نکاح کر کے اس کے ساتھ ازدواجی زندگی گذار سکتاہے ،میرے خیال میں جس طرح جمہور علماء کے نزدیک خلع کے بعد شوہر عدت میں اپنی مختلعہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہے ، اسی طرح اس صورت میں بھی عدت میں نکاح کر سکتا ہے ، کیونکہ اختلاط نسب کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، معلوم رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ اگرعورت عدت میں ہی توبہ کر لیتی ہے تو تجدید نکاح کی ضروری نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب.
صحابہ کرام پر لعن طعن کرنے والوں کی مذمت
سوال(37-37):کیا ہم ایسا کہہ سکتے ہیں: ”ہم امت مسلمہ، صحابہ کرام خاص طور پر ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لعن و طعن کرنے والے کی مذمت کرتے ہیں“ ؟
جواب:آپ لوگ﴿ وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾([1]) کے منہج پر عمل کریں تو زیادہ بہتر ہے ، مذمتی مہم چلانے کو میں اچھا نہیں سمجھتا ،علمی و عملی جواب دینے پر اکتفا کریں ، اگر مذکورہ بالا جملہ استعمال کرنا ہی ہے تو اس میں سے ”امت مسلمہ “نکال کر صرف ”ہم صحا بہ کرام خاص طور پر ابو بکر ، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لعن طعن کرنے والے کی مذمت کرتے ہیں“ کہیں۔
صحابہ کے علاوہ کسی اور کو رضی اللہ عنہ کہنےکا حکم
سوال(38-38):صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ تابعین ، تبع تابعین یا کسی اور مسلمان کے لئے ( جو اچھا کام کرے ) سورہ بینہ سورہ نمبر 98/ آیت نمبر 8 /کی روشنی میں رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللّٰہ علیہ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ، اور اگر کوئی کسی بھی تابعی کے لئے رضی اللہ عنہ استعمال کرتا ہے تو کیا ایسا کرنا حرام ہے ؟
جواب:سورہ بینہ آیت نمبر 7/ اور 8/ کو ملا کر دیکھئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کا استعمال صحابہ کرام کے علاوہ تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے لئے حرام نہیں ہے ، کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِۭجَزَاۗؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭرَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ﴾([1])
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہ لوگ بہترین خلائق ہیں،ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیں ،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے ، یہ ہے اس کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔
ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جزا اور رضامندی ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا میں ایمان و عمل صالح او رخشیت الہی جیسے اوصاف سے متصف رہے ، اور صحابہ کرام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنے کو خاص نہیں کیا گیا ہے۔
امام ابن رشد رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ابن قدامہ رحمۃ اللّٰہ علیہ وغیرہم نے اس کا استعمال ائمہ کرام کےلئے کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ کے لئے بھی اس کا استعمال جائز ہے۔
یزید کے لئے رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللّٰہ علیہ کے استعمال کا حکم
سوال(39-39):کیا یزید کے نام کے ساتھ ”رضی اللہ عنہ“ یا ”رحمۃ اللّٰہ علیہ“ استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو کیا یہ حرام ہے؟
جواب:غالبا سوال یزید بن معاویہ کے بارے میں ہے ، کیونکہ انہیں کے بارےمیں روافض اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے نام نہاد اہل سنت اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں ، یقینا یزید بن معاویہ کے ساتھ ”رحمۃ اللّٰہ علیہ“ کا استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
”أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ“([1])
میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر(قسطنطنیہ) کے شہر میں جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے ۔
اور اس لشکر میں نہ صرف یزید بن معاویہ شریک تھے ،بلکہ بالاتفاق وہ اس کے امیر الجیش تھے ، اور جب رسول اللہ ﷺ کی اس پیشین گوئی کے مطابق یزید بن معاویہ مغفور اور بخشے ہوئے ثابت ہوئے تو ان کے لئے ” رحمۃ اللّٰہ علیہ “ کہنے میں کیا حرج ہے ؟
نیز مسلمانوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے مؤمنوں کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، اور اپنے دلوں میں ان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾([2])
اور جو ان کے بعد آئیں گے کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے ،اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ، اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
اس واسطے یزید بن معاویہ جو ہم سے پہلے گذرے ہیں اور بلا شبہ مسلمان تھے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا اور ”غفر اللہ لہ “یا ” رحمہ اللہ “ کہنا جائز ہے۔
علاوہ ازیں یزید کے بارے میں جو الزامات ہیں ان میں ایک تو شیعہ وغیرہ نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ، اور اکثر و بیشتر ثابت نہیں ، دوسرے ان سے ان کا کفر و ارتداد لازم نہیں آتا اور ان کا شمار مسلمانوں میں سے ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے ” رحمۃ اللّٰہ علیہ“ کہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ :”اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو یزید پر لعنت کرتا ہے، کیا اس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، یا اس کے بارے میں سکوت افضل ہے ؟“
تو انہیں نے جواب دیا:
”مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعا جواز نہیں ہے ، جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے :مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا “([3])
علاوہ ازیں ہمیں تو ہماری شریعت اسلامیہ نے جانوروں تک پرلعنت کرنے سے روکا ہے([4]) تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کیسے جائز ہوگا جس کی حرمت ( عزت ) حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے،([5]) جیسا کہ حدیث نبوی ﷺمیں مذکور ہے ۔
یزید کا اسلام صحیح طور سے ثابت ہے ، جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا ،یا ان کے قتل کا حکم دیا ، یا اس پر رضا مندی ظاہر کی ، جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایۂ ثبوت ہی کو نہیں پہونچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیوں کر جائز ہوگی ، جب کہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا بھی حرام ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾([6])
اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں۔
اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے :” اللہ تعالی نے مسلمانوں کے خون ، مال اور عزت و آبروکو محترم ، اور اس کے ساتھ بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے“([7])
جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا وہ پرلے درجے کا احمق ہے ، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا ، لیکن وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کہ کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسندکیا، درآں حالانکہ ان کےقتل اس کے بالکل قریب میں اوراس کے زمانے میں ہوئے اور اس نے ان کا خود مشاہدہ کیا ، پھر اس قتل کے متعلق ( یقینی اور حتمی طور پر) کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا او ر جس پر چار سو سال ( امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دور تک ) کی مدت بھی گذر چکی ہے ۔
علاوہ ازیں اس سانحہ پر تعصب و گروہ بندی کی دبیز تہیں بھی چڑھ گئی ہیں اورموضوع روایتوں کے انبار لگادئیے گئے ہیں ، جس کی بنا پر اصل حقیقت کا سراغ لگانا مشکل ہے،نیز مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔
پھر اہل حق ( اہل سنت ) کا مذہب تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان کافر نہیں ہوگا ، اس لئے کہ جرم قتل کفر نہیں، بلکہ ایک معصیت ( گناہ ) ہے ۔
پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل کبھی مرنے سے پہلے توبہ بھی کر لیتا ہے اور شریعت کا حکم ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کر لے تو اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں ، پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کے لئے کیونکہ کر جائز ہوگی جس کے بارے میں قوی امید ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہوگی؟
آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کے بغیر ہی مر گیا جب کہ اللہ کا در ِتوبہ ہر وقت کھلا ہے ۔
﴿وَهُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ﴾([8])
وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
بہر حال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے جو مرچکا ہو، جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے ۔
اگر ( بالفرض ) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کے بجائے سکوت اختیار کئے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا ، بلکہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گا کہ تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی ؟
البتہ اگر کسی نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی ؟ اور تجھے کیوں کر معلوم ہوگیا تھا کہ وہ ملعون اور راندۂ درگاہ ہے ؟ جب کہ کسی کے کفر و ایمان کا مسئلہ امور غیب سے ہے ، جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، ہاں شریعت کے ذریعے ہمیں یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ جو شخص کفر کی حالت میں مرے وہ ملعون ہے۔
جہاں تک یزید کو ”رحمۃ اللّٰہ علیہ“ یا ”رحمہ اللہ“کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ( اچھا فعل ) ہے ، بلکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم تمام مسلمانوں کی مغفرت کے لئے کرتے ہیں جیسے :”اللَّهُمَّ اغفِرِ للمُؤمِنِيْنَ وَالمُؤمِنَاتِ“اے اللہ ! تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ اس لئے کہ یزید بھی یقینا مومن تھا۔([9])
بہر حال یزیدکے لئے ”رحمۃ اللّٰہ علیہ“ کا دعائیہ جملہ استعمال کر سکتے ہیں، یہ حرام نہیں ہے ۔
جہاں تک ان کے لئے ”رضی اللہ عنہ“ کے استعمال کی بات ہے تو چوں کہ اکثر و بیشتر اس کا استعمال صحابۂ کرام کے لئے ہوتا ہے اس لئے اس کے استعمال سے احتراز کریں تو بہتر ہے ،مگر علامہ ابن رشد اور ابن قدامہ رحمۃ اللّٰہ علیہما وغیرہ بہت سے علماء کرام نے اس کا استعمال امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہاور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ وغیرہ کے لئے بھی کیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر صحابی کے لئے بھی اس کے استعمال کی گنجائش اور جواز ہے ، اور معنی کے اعتبار سے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
([1]) صحيح البخاري: 6/103[2924]کتاب الجهاد، باب ما قيل في قتال الروم.
([3]) سنن الترمذي:4/350[1977]كتاب البر والصلة،باب ما جاء في اللعنة،وقال الألباني: صحيح.
([4]) صحيح مسلم:4/2005[84]کتاب البر والصلة والأدب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها.
([5]) سنن ابن ماجه: 2/1297[3932]كتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله،وقال الألباني: حسن، انظر: سلسلة الأحاديث الصحيحة: 7/1248[3420].
([7]) صحيح مسلم: 4/1986[32]کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقار دمه وعرضه وماله.
یزید کے لئے رضی اللہ عنہ کہنا زیادہ بڑا گناہ یا صحابہ کرام کو گالی دینا؟
سوال(40-40):کیا یزید کے لئے رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللّٰہ علیہ کہنازیادہ بڑا گناہ ہے یا پھر صحابہ کرام خاص کر ابو بکر صدیق ، عمر فارق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ( نبی ﷺ کی بیوی) کو برا بھلا کہنا زیادہ بڑا گناہ ہے؟
جواب:یزید کے لئے رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللّٰہ علیہ کہنا جائز ہے ، اس میں کوئی گناہ نہیں ، جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو گالیاں دینا حرام اور سخت گناہ کا موجب ہے ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکو اللہ تعالی نے سورہ توبہ میں اس طرح اپنی رضا اور جنت کی خوش خبری سنائی ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾([1])
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے ،اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
یاد رہے کہ ﴿ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ﴾ سےمراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے ،یعنی قیامت تک کے لئے جتنے بھی انصار و مہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں وہ اس میں شامل ہیں، ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں ۔
اس طرح تابعین وغیرہ کے لئے رضی اللہ عنہکہنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
اور جب ان کے لئے اللہ نے اپنی رضا و جنت کی خوش خبری سنائی ہے تو ان کو گالیاں دینا کیسے جائز ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے تو بڑی صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ“(متفق عليه([2]))
میرے صحابہ کو گالی نہ دو، کیونکہ تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مد بلکہ آدھے مد کے بھی برابر نہیں ہوسکتا۔
اور حضرت ابو بکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اسوہ و سنت کو اختیار کرنے کا حکم دیااور فرمایا:
”فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ“(رواه احمد([3]) وابوداود([4]) والترمذي([5])وابن ماجه([6]) وقال الألباني: صحيح([7]))
مسلمانو! تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو ہی اختیار کرنا ،اور اس كو مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور دین میں اضافہ کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ، اس لئے کہ دین میں نیا نکالا ہوا ہرکام بدعت ہے ،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
غور فرمائیے کہ جن کے طریقے کو اختیار کرنے کا رسول اللہ ﷺحکم دیں اور جن کو برا بھلا کہنے سے آپ منع فرمائیں انہیں سب و شتم اور لعن و طعن کا نشانہ بنانا کتنا بڑا گناہ ہوگا!؟
([2]) صحيح البخاري:7/21[3673]کتاب فضائل اصحاب النبي@، باب قول النبي@: لوکنت متخذا خليلا،صحيح مسلم:4/1967[221]کتاب فضائل الصحابه،باب تحريم سب الصحابة.
([4]) سنن ابي داود: 5/15[4607]کتاب السنة، باب في لزوم السنة.
([5]) سنن الترمذي: 5/43 [2676] کتاب العلم، باب ماجاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع.
([6]) سنن ابن ماجه: 1/15 [42، 43] مقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين.
([7]) انظر ارواء الغليل: 8/107[2455].
اہل السنت والجماعت کا شیعوں کے ساتھ مل کر مہم چلانا کیسا ہے؟
سوال(41-41):کیا مسلمان (اہل سنت والجماعت) ایک ایسے فرقے ( شیعہ جو کہ تین خلفاء راشدین ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں دیتے ہیں) کے ساتھ مل کر ایک اختلافی مسئلہ پر ایک دوسرے سنی مسلمان کے خلاف مذمتی مہم چلاسکتےہیں؟
جواب:ایسا ہونا تو نہیں چاہئے ، مگر افسوس کہ برصغیر میں ایک طویل مدت تک شیعہ حکمرانوں کے ماتحت رہنے اور ان کی تہذیب و تمدن اور افکار و خیالات سے متاثر ہونے کی وجہ سےاہل سنت میں بکثرت شیعی عقائد اس طرح سرایت کر گئے ہیں کہ انہیں ان کا احساس تک نہیں ہے ، اس واسطے ان سے ایسی غلطیاں ہو رہی ہیں ،جس دن انہیں تحقیق کی توفیق ہوگی ،ان کے طرز فکر میں تبدیلی آئے گی ،ان شاء اللہ ۔
منکرین حدیث سے متعلق چند سوالات
سوال(42-42):شہر عزیز میں منکرین حدیث کا ایک گروہ ہے جو جمیع اہل السنت و الجماعت سے انحراف کرتا ہے ، اور محدثین کو احادیث گھڑنے کا الزام دیتا ہے ، اور بہت سارے مسائل کو قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے محض اپنی نارسا عقل اور مادی طبیعت کی زور سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کرنے کا خوگر ہے ، ایسے ہی ایک صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی، دوران ملاقات اس شخص نے جمہور علماء کو بلکہ امت کو گمراہ قرار دیا اور عذاب قبر کا انکار کیا ، جب اس سے دلیل مانگی گئی تو کہتا ہے قرآن کریم میں کہیں بھی عذاب قبر کا تذکرہ نہیں ہے ، تب اسے قرآن کریم کی یہ آیت سنائی گئی کہ :
﴿ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ45اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾([1])
اور آل فرعون پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا ، آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔
تو وہ کہتا ہے یہ عذاب قبر سے متعلق نہیں اور جمہور علماء اسے سمجھ نہیں سکے ، تب اسے بخاری و مسلم کی یہ حدیث سنائی گئی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے ، لیکن کسی بڑے گناہ کے سلسلہ میں یہ عذاب نہیں ہورہا ہے ، ایک کو تو اس لئےعذاب ہورہا ہے کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا ([2])۔ تو وہ کہنے لگا کہ میں عذاب قبر کے تعلق سے جتنی احادیث ہیں کسی کو نہیں مانتا اور اس نے اور بہت سی ضروریات دین کا انکار کیا ، مثلا:
(1)عذاب قبر کا انکار ۔
(2) وہ عیسی علیہ اسلام کی وفات کا قائل ہے کہ ان کو وفات دے دی گی ہے اور وہ قرب قیامت نہیں آئیں گے ، اور اس متعلق سے جتنی احادیث مبارکہ ہیں ان سب کا انکار کرتا ہے۔
(3)دجال کے آنےکے سلسلہ کی احادیث کا انکار ۔
(4) معراج میں آپ ﷺ کے جانے کا انکار ۔
(5) جنوں کے لگنے کا انکار ۔
جب اسے سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ سنایا گیا کہ اللہ تعالیٰ سود خوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾([3])سود خور نہیں کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے، تو وہ کہتا ہے یہ مثال ہے حقیقت نہیں، تو سوال یہ ہے کہ:
(1) جو شخص احادیث متواتر ه کا انکار کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟
(2) ایسے شخص کا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟
(3) ایسے شخص سے تعلق رکھا جائے یا نہیں؟
(4) ایسے شخص کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟
جواب:1- اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی اتباع مسلمانوں پرواجب قرار دی ہے ، چنانچہ فرمان الہی ہے :
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾([4])
اور تمہیں جو کچھ رسول دے ،لے لو، اور جس سے روکے، رک جاؤ۔
اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنی اطاعت وفرماں برداری کے ساتھ واجب قرار دیتے ہوئےاسے باعث رحمت قرار دیا ہے ، چنانچہ فرمایا:
﴿وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾([5])
اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو اپنی محبت کی علامت قرار دیا ہے، فرمان الہی ہے :
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾([6])
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا۔
اور رسول اللہﷺ کی مخالفت کرنے والوں کوفتنہ اور درد ناک عذاب سے ڈرایا ہے، ارشاد ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾([7])
جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
بلکہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے والے کو ایک جگہ کافر سے بھی تعبیر کیا ہے۔
﴿قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ﴾([8])
کہہ دیجئے! کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھراگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا ۔
ایک جگہ فرماىا :
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾([9])
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اپنے تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ اسے قبول کرلیں ۔
اس واسطے جو لوگ سوال میں مذکورہ مسلمات کا انکار کرتے ہیں اور احادیث صحیحہ ہی نہیں احادیث صحیحہ متواترہ کے بھی منکر ہیں انہیں جلد از جلد توبہ کرنا چاہئے ،امام ابن حزم رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
”فَلَمْ يَسَعْ مُسْلِمًا يُقِرُّ بِالتَّوْحِيدِ أَنْ يَرْجِعَ عِنْدَ التَّنَازُعِ إِلَى غَيْرِ القُرْآنِ وَالخَبَرِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَلاَ يَأْبَى عَمَّا وُجِدَ فِيهِمَا، فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ بَعْدَ قِيَامِ الحُجَّةِ عَلَيْهِ فَهُوَ فَاسِقٌ، وَأَمَّا مَنْ فَعَلَهُ مُسْتَحِلاًّ لِلْخُرُوج عَن أَمْرِهِمَا وَمُوجِبًا لِطَاعَةِ أَحَدٍ دُونَهُمَا فَهُوَ كَافِرٌ لاَ شَكَّ عِنْدَنَا فِي ذَلِكَ، وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَلَوْ أَنَّ امْرَءًا قَالَ: لاَ نَأْخُذُ إِلاَّ مَا وَجَدْنَا فِي القُرْآنِ لَكَانَ كَافِرًا بِإِجْمَاعِ الأُمَّةِ“([10])
کسی بھی موحد مسلمان کے لئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ نزاع کے وقت قرآن اور رسول سے مروی خبر کے علاوہ کی طرف رجوع کر ے، اور نہ جو باتیں ان دونوں کے اندر موجود ہیں ان سے انکار کی کوئی گنجائش ہے ، اگر کوئی شخص حجت قائم ہوجانے کے بعدایسا کرتا ہےتو وہ فاسق ہے ، رہا وہ شخص جو ان دونوں سے خروج کو حلال سمجھتا ہو اور دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی اطاعت کو واجب قرار دیتا ہو تو وہ ہمارے نزدیک بلا شبہ کافر ہے ۔
اور ایک دوسری جگہ فرمایا :
” اگر کوئی شخص کہتا ہے میں صرف قرآن میں موجود چیزوں کو ہی مانوں گا تو اس کے کفر پر امت کا اجماع ہے “۔
اور حافظ جلال الدین سیوطیرحمۃ اللّٰہ علیہفرماتے ہیں:
”فَاعْلَمُوارَحِمَكُمُ اللهُ أَنَّ مَنْ أنْكَرَ كَونَ حَدِيثِ النَّبِيِ ﷺ قَوْلاً كَانَ أَوْ فِعْلاً بِشَرْطِهِ الْمَعْرُوفِ فِي الْأُصُولِ حُجَّةً، كَفَرَ وَخَرَجَ عَنْ دَائِرَةِ الْإِسْلَامِ وَحُشِرَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، أَو مَعَ مَنْ شَاءَ اللهُ مِنْ فِرَقِ الْكَفَرَةِ. رَوَى الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ رضی اللہ عنہ يَوْمًا حَدِيثاً وَقَالَ: إِنَّهُ صَحِيحٌ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: أَتَقولُ بِهِ يَا أَبَا عبدِاللهِ؟ فَاضْطَرَبَ وَقَالَ: يَا هَذَا أَرَأيْتَنِيْ نَصْرَانِيّاً؟ أَرَأيْتَنِيْ خَارِجاً مِنْ كَنِيسَةٍ؟ أَرَأَيْتَ فِي وَسَطِيْ زُنَّاراً؟ أَرْوِيْ حَدِيثاً عَنْ رَسُولِ اللهِﷺ وَلَا أَقُولُ بِهِ“([11])
تمہیں معلوم ہونا چاہئے اللہ تم پر رحم کرے کہ جس نے حدیث رسول کی حجیت کا انکار کیا، خواہ حدیث قولی ہو یا فعلی ، اصول میں اس کے معروف شرط پر ہونے کے ساتھ تو اس نے کفر کیا اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ، اس کا حشر یہود و نصاری یا کافر فرقوں میں سے جس کے ساتھ اللہ چاہے اس کے ساتھ ہوگا۔
امام شافعی رضی اللہ عنہ نے ایک روز ایک حدیث بیان کی اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے، تو ایک شخص نے کہا : کیا آپ اس کے قائل ہیں ؟ اے ابو عبد اللہ ! یہ سن کر وہ(امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ) بہت مضطرب ہوئے ،اورفرمایا: اے فلاں ! کیا تو مجھے نصرانی سمجھ رہا ہے ؟ کیا تو نے مجھے کنیسہ سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے ؟ کیا تو نے میرے جسم پر زنار دیکھا ہے ؟ میں رسول اللہ ﷺسے ایک حدیث بیان کروں گا اور میں اس کا قائل نہیں ہوں گا؟!([12])
اسلام میں ایسے لوگوں پر کفر و نفاق کا حکم لگا کر چھوڑ نہیں دیا گیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی علامت بتا کر اپنی امت کو ان سے آگاہ اور متنبہ بھی فرمایا ہے ، چنانچہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے :
”لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيْهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِىْ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ:لاَ نَدْرِى،مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ“(رواه ابوداود([13])وقال الألباني: صحيح([14]))
میں ہرگز کسی شخص کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا ہو ،اس کے پاس میرے اوامر میں سے ایک امر آئے جس کا میں نے حکم دیا ہے یا جس سے روکا ہے تو وہ کہے میں اسے نہیں جانتا ،ہم نے جو کتاب اللہ میں پایا اس کی پیروی کی ۔
اور مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے روز کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا، انہیں میں گھریلو گدھا بھی تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تخت پر بیٹھا ہو ا ہوگا اس کے سامنے میری حدیث بیان کی جائے گی تو کہے گا : میرے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ( کافی ) ہے ، چنانچہ ہم نے جو اس میں حلال پایا اس کو حلال سمجھا ، خبر دار ! بیشک رسول اللہ ﷺ نے بھی ویسے (ہی) حرام کیا ہے جس طرح اللہ نے حرام کیا ہے۔(رواه ابوداود([15])وقال الألباني:صحيح([16]))
اورامام بیہقی رحمۃ اللّٰہ علیہفرماتے ہیں :
یہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے پیشینگوئی تھی کہ آپ ﷺکی وفات کے بعد اہل بدعت آپ کی حدیث کا انکار کریں گے ،چنانچہ اس کی تصدیق آپ ﷺ کے بعد ہوگئی ۔
پھر امام بیہقی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی سند سے حبیب بن فضالہ مالکی کے واسطے سے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے شفاعت کا ذکر کیا، تو قوم میں سے ایک شخص نے کہا: اے ابو نجید !تم ہم سے کچھ حدیثیں بیان کرتے ہو جن کی کوئی اصل ہم قرآن میں نہیں پاتے ، اس بات پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور اس آدمی سے کہا : کیا تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ اس نےکہا: ہاں ، تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تو اس میں عشاء کی نماز چار رکعت ، مغرب کی نماز تین رکعت ، فجر کی نماز دو رکعت ، ظہر اور عصر کی نماز چار چار رکعت پاتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ، عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم ان چیزوں کو کس سے لوگے ؟ کیا تو انہیں ہم سے نہیں لے گا اور ہم رسول اللہ ﷺ سے نہیں لیں گے ؟ اور فرمایا: تو قرآن میں پاتا ہے : ﴿ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ ﴾ ([17]) چاہئے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں۔
کیا تو اس میں یہ پاتا ہے کہ سات مرتبہ طواف کرو اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھو؟ کیا تو قرآن میں پاتا ہے کہ جلب ، جنب اور شعار نہیں ہے ؟ کیا تو نے قرآن مجید میں اللہ کے فرمان کو نہیں سنا (پڑھا)ہے :
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾([18])
عمران رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے کچھ چیزیں ایسی سیکھی ہیں جن کا تمہیں علم نہیں ہے ۔ ([19])
اور مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث اس سے بھی زیادہ واضح ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
”أَلاَ إِنِّى أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلاَ يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلاَ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الأَهْلِىِّ، وَلاَ كُلُّ ذِى نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلاَ لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ“(رواه ابوداود([20])وقال الألباني: صحيح([21]))
خبر دار ! بے شک مجھے کتاب دی گئی ہے ، اور اس کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے ، خبردار ! قریب ہے کہ ایک آسودہ حال آدمی اپنے تخت پر بیٹھا ہوا کہہ رہا ہوگا : تم اس قرآن کو لازم پکڑو ، تم اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام سمجھو ، خبردار ! تمہارے لئے گھریلو گدھا ، درندے اور ذمی کے مال کا لقطہ حلال نہیں ۔
معلوم ہوا کہ احادیث صحیحہ کے منکرین یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے ، لہذا ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو دور رہنا چاہئے جو قرآن و حدیث میں فرق کرتے ہوں اور صرف قرآن کو مانتے ہوں اور احادیث کا انکار کرتے ہوں ، کیونکہ قرآن و احادیث قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
”إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا:كِتَابَ اللهِ وَسُنَّتِيْ،وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ“([22])
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ، ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت، اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض پر وارد ہوجائیں ۔
نیز احادیث نبویہ قرآن کی شارح اور مبیّن ہیں، اور ان کے بغیر قرآن کو صحیح طریقے پر سمجھا نہیں جاسکتا ، اللہ کا فرمان ہے :
﴿ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ ﴾([23])
یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔
احادیث کو اپنی عقل سے رد کرنا درست نہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے :
”لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْىِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلاَهُ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ“(رواه ابوداود([24])وقال الألباني: صحيح([25]))
اگر دین کی بنیاد عقل پر ہوتی تو موزے کے نیچے والے حصے کا مسح کرنا اس کے اوپر والے حصے کے مسح کرنے سے اولیٰ اور بہتر ہوتا ، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں موزوں کے اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
بہر حال یہ تمام نصوص و دلائل اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی آیات و احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کریم کے ساتھ احادیث نبویہ کو بھی ماننا ضروری ہے اور جو شخص احادیث نبویہ صحیحہ کا انکار کرے اور اپنی رائے سے احادیث متواترہ کو رد کردے وہ مسلمان نہیں ہے ۔
2- اگریہ شخص مذکورہ بالا عقائد کا حامل شادی سے پہلے ہی تھا تو ایک صحیح العقیدہ عورت کا نکاح اس کے ساتھ شروع سے ہی نہیں ہوا ، کیونکہ ایک مؤمنہ عورت کا نکاح مشرک وکافر مردسے درست نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا﴾([26])
اور شرک کرنے والے مردوں کےنکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں ۔
اور اگر اس شخص کا عقیدہ شادی کے بعد خراب ہوا ہے تو ایسی صورت میں ایک صحیح العقیدہ مسلمان عورت کا اس کے نکاح میں رہنا درست نہیں ، کیونکہ اگر زوجین میں سے کوئی مرتد و کافر ہوجائے تو دوسرے کااس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
”وَارْتِدَادُ الزَّوْجَيْنِ مَعًا،كَارْتِدَادِ أَحَدِهِمَا،فِي فَسْخِ نِكَاحِهِمَا،وَعَدَمِ مِيرَاثِ أَحَدِهِمَا مِنْ الْآخَرِ“([27])
اور زوجین کا ایک ساتھ مرتد ہونا ایسے ہی ہے جیسے دونوں میں سے کوئی ایک مرتد ہوا ہو ، یعنی جس طرح زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہوجائے تو دونوں کا نکاح فسخ ہوجائے گا اور دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو گے ، اسی طرح اگر دونوں ایک ساتھ مرتد ہوجائیں تب بھی ان کا نکاح فسخ ہوجائے گا ، اور دونوں ایک دوسرے کی میراث سے محروم ہوں گے ۔
3- ایسے شخص سے اس کی اصلاح و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کی غرض سے تو تعلق رکھا جا سکتا ہے ، مگر اس سے قلبی محبت اور ایسے تعلقات رکھنا جن سے اس کے باطل نظریہ و افکار کی تائید ہوتی ہو جائز نہیں ، کیونکہ ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دشمن ہے ،اور اللہ تعالی نے مؤمنوں کو اپنے دشمنوں سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ﴾([28])
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔
4- ایسا شخص اگر توبہ نہ کرے اور اسی عقیدہ پر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو نہیں پڑھنا چاہئے ، کیونکہ ایسا شخص اسلا م سے خارج ہے ، اور رسول اللہ ﷺ کو منافقین اور کفار کی نماز جنازہ پڑھنے سے اللہ نے منع فرمایاہے ۔
ارشاد باری ہے:
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾([29])
ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی نماز ہرگز نہ پڑھیں، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ،وہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں ،اور مرتے دم تک بدکار اور بے اطاعت رہے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ منافقوں اور کافروں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
([2]) صحيح البخاري: 1/317[216]کتاب الوضو، باب من الکبائر أن لا يستتر من بوله.
([10]) الأحکام ، بحواله السنة ومکانتها في التشريع الاسلامي: 150-151.
([11]) مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة: 5-6.
([12]) سير اعلام النبلاء: 19/23.
([13]) سنن ابي داود: 5/12[4605] کتاب السنة، باب لزوم السنة.
([14]) انظر صحيح الجامع الصغير وزيادته: 2/1204[7172].
([15]) سنن ابي داود: 5/10[4604] کتاب السنة، باب في لزوم السنة.
([16]) انظر صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/516[2673].
([20]) سنن ابي داود: 5/10[4604]کتاب السنة، باب في لزوم السنة.
([21]) انظر صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/516[2643].
([22]) المستدرك للحاکم: 1/ 93[319] کتاب العلم، باب خطبته @ في حجة الوداع،وقال الألباني: صحيح، انظر صحيح الجامع الصغير وزيادته: 1/566[2937].
([24]) سنن ابي داود: 1/1114[162]کتاب الطهارة ،باب کيف المسح.
([25]) انظر: ارواء الغليل: 1/140[103].
([27]) المغني: 9/164، مسئله نمبر: [1047].
زمانے کو گالی دیناحرام کیوں؟
سوال(43-43):حدیث میں زمانے کو گالی دینے سے منع کیا گیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اور کیوں اس سے ممانعت ہے؟
جواب: دور جاہلیت میں رواج تھا اور آج بھی بہت سارے لوگوں کی عادت ہے کہ لوگوں کے گناہوں اور غلط اعمال و کردار اور امر با لمعروف ونھی عن المنکر کے باب میں ان کی کوتاہیوں کی بناء پر معاشرہ میں جو بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ اس بگاڑ کے ذمہ دار لوگوں پر تنقید کرنے اور اس کے اسباب و عوامل کو ختم کرنے کے بجائے زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں،اور بلا تکلف کہتے ہیں: ”زمانہ بہت خراب ہوگیا ہے“،”یہ سب کلجگ کا اثر ہے“، ”وقت بدل گیا ہے“وغیرہ۔
حالانکہ زمانہ اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق چل رہا ہے، لوگوں کے اعمال وکردار اور اخلاق میں خرابیاں، دعوت و تبلیغ میں کوتاہی اور حدود اللہ کی عدم تنفیذ وغیرہ کی وجہ سے پیداہوتی ہیں، اورمصیبتیں اور عذاب لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہیں ،ان میں زمانہ کا کوئی عمل دخل نہیں، اس واسطے زمانے کو گالی دینے سے احادیث میں منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ظلم اور نا انصافی ہے کہ اصل مجرم کو چھوڑ کر ایسی چیز کی تنقیص کی جائے اور برابھلا کہا جائے جس کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔
زمانے کو گالی دینے سے منع کرنے کی علت خود حدیث قدسی میں بیان کی گئی ہے :
”قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِيْنِيْ ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ“(رواه البخاري([1])ومسلم([2]))
وفي رواية:”لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ“([3])
اللہ نے فرمایا : ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے ، زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، جبکہ زمانہ میں ہی ہوں ، میں ہی رات اور دن کو الٹتا پلٹتا ہوں ، اور ایک روایت میں ہے : زمانے کو گالی مت دو اس لئے کہ اللہ ہی زمانہ ہے۔
یعنی رات و دن کی گردش اور زمانے کا مدبر و متصرف اللہ ہی ہے ، لہذا زمانے کو برا بھلا کہنا اس کے مدبر اور منتظم کو برا بھلا کہنا ہے۔
([1]) صحيح البخاري: 8/ 574[4826] کتاب التفسير، باب ﴿وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ﴾.
([2]) صحيح مسلم: 4/ 1762[2246] کتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر.
([3]) صحيح مسلم: 4/ 1762[2246] کتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر.
حدیث ”لَوْلَاكَ لمَاَ خَلَقْت الأَفْلَاكَ“ موضوع ہے
سوال(44-44): حدیث:”لَوْلَاكَ لمَاَ خَلَقْت الأَفْلَاكَ“( محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا) کیسی ہے؟
جواب: یہ حدیث موضوع ہے علامہ شوکانی رحمۃ اللّٰہ علیہنے اس کو موضوع قرار دیا ہے([1])۔
([1]) انظر: الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوکاني: ص ٣٢٦.
یہ حدیث نہیں ہے
سوال(45-45): ایک تبلیغی بھائی نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے ، کیایہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: یہ حدیث میں پہلی بار سن رہا ہوں، ایک ماں اپنے چھوٹے بچے پر جتنا مہربان ہوتی ہے اور اسےوہ کسی طرح آگ میں نہیں ڈال سکتی، اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہونے کی بات حدیث میں وارد ہے ، مگر ستر ماں سے بھی زیادہ مہربان والی بات پر مشتمل حدیث کا مجھے علم نہیں۔
یہ حدیث قوی نہیں
سوال(46-46): حدیث:”مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ“ کیسی ہے ؟
جواب :مشکوۃ المصابیح میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”مَنْ وَسَّعَ عَلَى عَيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ“([1])
جو یوم عاشوراء( دسویں محرم ) کو اپنے بال بچوں پر خرچ کرنے میں وسعت کرے گا اللہ تعالی اس کو سارے سال فراخی عطا کرے گا۔
خطیب تبریزی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس روایت کے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: سفیان نے کہا کہ میں نے اس کا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا ، اس کی رزین نے روایت کی ہے ، اور امام بیہقی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کو شعب الایمان میں ان (یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے اور حضرت ابوہریرہ ، ابو سعید اور جابر رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے ، اور اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ان روایتوں کے بارے میں مشکوۃ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
”وَهُوَ حَدِيْثٌ ضَعِيْفٌ مِنْ جَمِيْعِ طُرُقِهِ، وَحَكَمَ عَلَيْهِ شَيخُ الإسْلامِ اِبْنُ تَيْمِيَةَ بِالْوَضْعِ، فَمَا أبْعَدَ، وَالشَّرِيْعَةُ لا تَثْبُتُ بِالتَّجُرِبَةِ“
یہ حدیث تمام سندوں سے ضعیف ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہنے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے تو کوئی بعید بات نہیں کہی، اور شریعت تجربہ سے ثابت نہیں ہوتی ۔
یعنی سفیان نے جو اپنے تجربہ کی بات کہی ہے اس سے اس بات کے مشروع ہونے کے لئے استدلال نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ شرعی باتیں کتاب و سنت وغیرہ ادلۂ شرعیہ سے ثابت ہوتی ہیں، کسی کے تجربہ سے نہیں ۔
اسی طرح کی ایک روایت جس میں سفیان کے تجربہ کا بھی ذکر ہے ، اسحاق بن ابراہیم بن ہانی نے مسائل الامام احمد ( 1/136) میں ذکر کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ ( یعنی امام احمد بن حنبل ) سے میں نے پوچھا : کیا آپ نے حدیث :
”مَنْ وَسَّعَ عَلَى عَيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ“
کے بارے میں سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، ایک چیز ہے جس کو سفیان نے جعفر الاحمر سے اور انہوں نے ابراہیم بن محمد بن المنتشر سے روایت کی ہے ( سفیان نے کہا کہ جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ابن المنتشر ان میں بڑے اچھے لوگوں میں سے تھے ) کہ انہیں یہ بات پہونچی ہے کہ جس نے یوم عاشوراء کو اپنے اہل و عیال پر وسعت کی اسے اللہ تعالی پورے سال فراخی عطا فرمائے گا ، ابن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہنے کہا : میں نے اس کا پچاس ساٹھ سال سے تجربہ کیا تو بھلائی ہی دیکھی ۔
اس کے بعد امام احمدرحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: ابن عیینہ ،ابن المنتشر کی بڑی تعریف کرتے تھے ، پھر مجھ سے کہا کہ اس کے اسناد میں ضعف ہے ،میں نے کہا : اللہ تعالی ابن عیینہ پر رحم فرمائے ،بادشاہ کے دئے ہوئے دراہم کو بھلائی سمجھتے تھے ؟ تو آپ اس پر خاموش رہے ۔
احادیث القصاص (ص:99) میں شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمۃ اللّٰہ علیہ نے حرب الکرمانی کا قول نقل کیا ہے کہ امام احمدرحمۃ اللّٰہ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ”لا اصل لہ “ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمۃ اللّٰہ علیہ اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”قُلْتُ: وأَصله من كلام إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: بَلَغَنَا، ولم يذكر عَمَّنْ بَلَغَهُ ذلك“([2])
یعنی اس کی اصل محمد بن المنتشر کا یہ قول ہے کہ ہم کو یہ بات پہونچی ہے، حالانکہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ کس سے انہیں یہ بات پہونچی ہے ۔
اور مجموع فتاوی ابن تیمیہ (25/300-301) میں فرماتے ہیں :
ایک جھوٹی اور رسول اللہ ﷺ پر وضع کردہ حدیث میں لوگوں نے روایت کیا ہے کہ جس نے یوم عاشوراء کو اپنے اہل و عیال پر فراخ دلی سے خرچ کیا اس کو اللہ تعالی پورے سال فراخی عطا کرے گا ، حالانکہ یہ تمام روایت نبی ﷺ پر جھوٹ ہے۔
لیکن سفیان بن عیینہ عن ابراہیم بن محمد بن المنتشر عن ابیہ کی روایت سے مشہور ہے کہ محمد بن المنتشر نے کہا کہ مجھ کو یہ بات پہونچی ہے کہ جس نے اپنے اہل وعیال پر یوم عاشوراء کو بوسعت خرچ کیا اللہ اس پر سارے سال وسعت کرے گا، اور ابراہیم بن المنتشر اہل کوفہ میں سے ہیں ، اور اہل کوفہ میں دو گروہ تھے ، ایک رافضہ کا گروہ ، جو اہل بیت کی موالاۃ کا اظہار کرتے تھے ، حالانکہ باطن میں وہ یا تو ملحد تھے ، یا زندیق ، یا جاہل اور نفس پرست ۔
دوسرا گروہ ناصبہ کا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے فتنۂ قتال کی وجہ سے بغض رکھتا تھا۔
اس کے بعد قتل حسین رضی اللہ عنہوغیرہ کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے شیعہ کے یوم عاشوراء کو نوحہ و ماتم اور مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے حب علی رضی اللہ عنہکے نام پر سلف صالحین کو گالیاں دینے وغیرہ کا ذکر کیا ، پھر فرمایا: ان لوگوں کے مقابلہ میں ایک دوسری قوم آئی جو یا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہاور اہل بیت سے تعصب رکھنے والے ناصبی تھے ،یا بالکل جاہل قسم کے لوگ تھے ، جنہوں نے فاسد کا مقابلہ بدعت سے کیا ، چنانچہ یوم عاشوراء کو خوشی و سرور کے شعائر جیسے سرمہ لگانا ، خضاب لگانا، اہل و عیال پر کشادگی سے خرچ کرنا ، عادت سے زیادہ کھانا پکانا اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو عید اور خوشی کے موقع پر کی جاتی ہیں کے متعلق آثار وضع کئے ، اس طرح ایک تہوار بنالیا ، اور ان لوگوں نے ماتم و شیون کرنا شروع کیا ، حالانکہ دونوں گروہ غلطی پر اور سنت سے خارج ہیں۔
اور آگےچل کر فرماتے ہیں : روزے کے علاوہ دوسرے تمام کام ، جیسے عادت سے زیادہ کھانا پکانا ، نئے کپڑے پہننا ، نفقہ میں وسعت کرنا ، سال بھر کی ضروریات کو اس دن خریدنا ، کوئی خاص عبادت کرنا ، جیسے اس کے لئے نماز پڑھنا ، جانور ذبح کرنا ، سرمہ و خضاب لگانا ، غسل کرنا ، ایک دوسرے کے یہاں زیارت کے لئے جانا اور مصافحہ کرنا ، مسجدوں اور قبروں کی زیارت کرنا اور اس طرح کی چیزیں بدعات منکرہ میں سے ہیں ، جن کو نہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہمنے ، اور نہ ائمہ کرام رحمۃ اللّٰہ علیہم
میں سے کسی نے اس کو مستحب کہا ہے ، نہ امام مالک ،نہ ثوری ،نہ لیث بن سعد رحمۃ اللّٰہ علیہمنے اور نہ ابوحنیفہ ،نہ اوزاعی ، نہ شافعی، نہ احمد بن حنبل، نہ اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللّٰہ علیہم نےاور نہ ان کے مثل مسلمانوں کے دوسرے ائمہ و علماء نے۔
اگر چہ ائمہ کرام کے بعض متاخرین متبعین اس کا حکم دیتے اور اس سلسلے میں بعض احادیث و آثار روایت کرتے تھے ، اور کہتے تھے کہ ان میں سے کچھ صحیح ہیں ، لیکن حقائق کو جاننے والے علماء کرام کے نزدیک یہ لوگ بلاشبہ غلطی اور خطا پر ہیں ۔
حرب الکرمانی نے اپنے مسائل میں کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسے ”لاشئي“ قرار دیا ۔
ان لوگوں کے پاس جو سب سے اعلی چیز ہے وہ ایک اثر ہے جو ابراہیم بن محمد المنتشر سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےکہا کہ مجھے یہ بات پہونچی ہے کہ جس نے اپنے اہل و عیال پر عاشوراء کے دن وسعت کی اللہ تعالی اس پر پورے سال وسعت کرے گا ۔
سفیان بن عیینہ نے کہا کہ میں نے ساٹھ سال سے تجربہ کیا اور اس کو صحیح پایا ، اور ابراہیم بن محمد اہل کوفہ میں سے تھے ، اور یہ ذکر نہیں کیا کہ اس کو انہوں نے کس سے سنا اور کس سے انہیں یہ بات پہونچی تو شاید اس کا قائل ان بدعتیوں میں سے ہو جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب سے بغض رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ روافض کا مقابلہ کذب بیانی سے اور فاسد کا مقابلہ فاسد سے اور بدعت کا مقابلہ بدعت سے کریں۔
رہی ابن عیینہ کی بات تو اس میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ،کیونکہ ان پر اللہ تعالی نے اپنے رزق کا انعام کیا تھا اور اللہ کے اس انعام میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس کا سبب یوم عاشوراء کو بوسعت خرچ کرنا تھا ،اللہ تعالی نے مہاجرین و انصار کو جو افضل الخلق تھے وسعت مال سے نوازا تھا،حالانکہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال پر یوم عاشوراء کو خصوصی طور پر فراخدلی سے خرچ نہیں کرتے تھے ، یہ تو ایسے ہے جیسے کہ بہت سے لوگ کسی کام کے لئے نذر مانتے ہیں او راللہ تعالی ان کی حاجت پوری کر دیتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ یہ اسی نذر کی وجہ سے ہوا ہے ، حالانکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے نذر سے منع فرمایا اور کہا کہ : اس سے کوئی خیر نہیں آتا ، یہ صرف بخیل سے مال نکال نے کا ذریعہ ہے ۔([3])
تو جس نے یہ گمان کیا کہ اس کی حاجت نذر کی وجہ سے پوری ہوئی ہے اس نے اللہ اور اس کے رسول پر افتراء کیا ، حالانکہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے دین و ہدایت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے ۔
علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا:
”قد تمذهب قوم من الجهال بمذهب أهل السنة، فقصدوا غيظ الرافضة، فوضعوا أحاديث في فضل عاشوراء، ونحن براء من الفريقين،وقد صح أن رسول الله ﷺ أمر بصوم عاشوراء، إذ قال: إنه كفارة سنة، فلم يقنعوا بذلك حتى أطالوا وأعرضوا وترقوا في الكذب“([4])
یعنی جاہلوں کی ایک جماعت نے رافضہ کو چڑھانے اور غصہ دلانے کے لئے عاشوراء کی فضیلت میں حدیثیں گڑھیں ، اور ہم دونوں فریقین سے بری ہیں ، نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے یوم عاشوراء کے روزے کا حکم دیا اورفرمایا: یہ ایک سال کا کفارہ ہے ، مگر یہ لوگ اس پر قانع نہ ہوئے اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔
اس کے بعد ابو ہریرہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ذکر کیا ۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس کی تضعیف کی ہے ، وہ فرماتے ہیں :
”أحاديث الاكتحال يوم عاشوراء والتزين والتوسعة والصلاة فيه وغير ذلك من فضائل لا يصح منها شيء، ولا حديث واحد، ولا يثبت عن النبي ﷺ فيه شيء غير أحاديث صيامه، وما عداها فباطل، وأمثل ما فيها حديث:”من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته“ قال الإمام أحمد: لا يصح هذا الحديث“([5])
یعنی یوم عاشوراء کو سرمہ لگانے ، زیب وزینت کرنے، خرچ میں وسعت کرنے (خصوصی)نماز پڑھنے وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثوں میں کچھ بھی صحیح نہیں، ایک حدیث بھی صحیح نہیں ، اس کے روزے کی حدیثوں کے سوا ساری حدیثیں باطل اور غیر ثابت ہیں ، ان میں سب سے اچھی حدیث :
”مَنْ وَسَّعَ عَلَى عَيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ“
ہے ،مگر اس کے بارے میں بھی امام احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
امام احمد کے قول ”لا يَصِحُّ هَذَا الحَدِيْثِ“پر تعلیق چڑھاتے ہوئے عبد الفتاح ابوغدہ نے کہا:
”كثر وطال كلام العلماء في هذا الحديث كما تراه … وخلاصة ما انتهى اليه الكلام من اثبته أنه ضعيف لا موضوع“([6])
یعنی اس حدیث کے سلسلہ میں علماء کا بڑا طویل کلام ہے، جس کاثابت کرنے والوں کے یہاں خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں ہے۔
عبد الرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعہ کے حاشیہ (ص:100) میں امام شوکانی رحمۃ اللّٰہ علیہکے قول :”قد اطال الکلام عليه في اللآلي بما يفيد ان طرقه يقوي بعضها بعضا“پر اپنے تعلیق میں فرماتے ہیں :
”بل يوهن بعضه بعضا“
یعنی تعدد طرق یہاں ایک دوسرے کی تقویت کے بجائے تضعیف کرتے ہیں ۔
اور محمد الصباغ نے تو احادیث القصاص( ص100) کے حاشیہ میں کہا:
”والذي يطمئن اليه النفس أن الحديث موضوع، ومقرر عند العلماء أن الطرق الضعيفة لا تورث الحديث قوة مهما تعددت مادام ضعفها شديدا“
یعنی جس پر دل مطمئن ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ، علماء کے نزدیک مقرر ہے کہ ضعیف طرق کتنے ہی کیوں نہ ہوں حدیث کو قوت عطا نہیں کرتے جب تک ان کا ضعف شدیدقسم کا ہو، خلاصہ یہ کہ یہ اثر ضعیف اور ناقابل عمل ہے۔
([1]) المعجم الکبير:8/404[9864]،وقال الألباني:ضعيف،انظر مشکوة المصابيح:1/434[1926].
([2]) مجموع فتاوی ابن تيمية: 25/300-301.
(1) صحيح البخاري: 11/500[6608]كتاب القدر، باب إلقاء العبد النذر إلى القدر.
([5]) نقد المنقول والمحك المميزبين المردود والمقبول:1/100.
([6]) المنار المنيف في الصحيح والضعيف: ص111-112، تحقيق عبد الفتاح ابو غدة.